جب ضیاالحق نے ایوان صدر کے درخت کٹوائے


پروفیسر سید وقار عظیم ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا منہ بولتا نمونہ تھے۔ سفید لٹھے کا پاجامہ، شیروانی اور خاص نشانی گلے میں مفلر، چہرے پر مسکراہٹ سجائے اپنے طالب علموں کے لیے شفقت اور علمی فیض پہنچانے کے لیے سراپا تیار دکھائی دیتے تھے۔ اورینٹئل کالج میں آنے سے پہلے آپ کے فیض کا چشمہ علی گڑھ میں جاری ہو چکا تھا۔ تعلیم و تہذیب کے ساتھ ادب کے میدان میں اپنا حصہ ڈال چکے تھے۔ ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر سید معین الرحمن کے ساتھ بیس سال گورنمنٹ کالج لاہور میں مجھے پڑھانے کا موقع ملا۔ جیسا استاد، ویسا شاگرد۔ کیا شاندار استاد تھے سید معین الرحمن۔ اور انسان بھی اونچے آدرش والے۔ پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے ان شخصیات پر۔ اس وقت تو سید وقار عظیم کی ایک بات بتانا ہے کہ انہوں نے کہانی کا دامن پکڑا اور بتایا کہ کہانی کیا ہوتی ہے۔ اب ان کے بیٹے اختر وقار عظیم نے پاکستان ٹیلی ویژن کے پچاس سال مکمل ہونے پر اپنے تجربات لکھ دیے ہیں جنہیں سنگ میل پبلشرز نے ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ کے عنوان سے شائع کر دیا ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ کہانی کیسے کہی جاتی ہے۔

میرا پی ٹی وی سے رشتہ 1980ءسے شروع ہوتا ہے۔ ہوتا تو پہلے سے ہے لیکن 1980ءمیں میرا پہلا ڈرامہ پی ٹی وی پر دکھایا گیا۔ پہلے کا رشتہ مشتاق صوفی، سرمد صہبائی کی وجہ سے ہے جو مجھے مختلف ادبی پروگراموں میں ملتان سے بلاتے تھے۔ ان رشتوں پر پھر کبھی لکھوں گا کہ سرمد صہبائی اپنی بیوی سے میری آڑ میں اجازت لے کر کس خوبصورت ترین ٹی وی آرٹسٹ سے ملنے سی سی موٹل مال رو ڈ میں جاتے تھے۔ اس وقت مجھے کچھ اور کہنا ہے۔ اختر وقار عظیم کی کتاب پر بات سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ پی ٹی وی کی تاریخ میں یہ ایک خوبصورت واقعہ ہے کہ اختر وقار عظیم ایک پروڈیوسر کی حیثیت میں پی ٹی وی میں داخل ہوئے اور منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچے۔ اس دوران سپورٹس، سیاست، کرنٹ افیئرز اور میگزین پروگراموں تک اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ان کے کچھ تجربوں میں اپنے قاری کو شریک کرتے ہیں۔ ضیاالحق کے آخری دنوں کا ایک واقعہ۔ ”17 اگست 1989ءکو ہوائی حادثے میں جنرل ضیاالحق کی وفات ہوئی تھی ۔ کافی دنوں سے انہیں محتاط رہنے کی ہدایات مل رہی تھیں۔ وہ خود بھی بہت محتاط تھے۔ آخری دنوں میں ایوان صدر سے نکلنا انہوںنے بہت محدود کر دیا تھا۔ بہت ہی ضروری تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔ حادثے سے صرف تین دن پہلے 14 اگست کی تقریبات میں بھی انتہائی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں۔ یوم آزادی کے سلسلے میں ہونے والی پرچم کشائی کی تقریب اصل جگہ سے بدل کر ایوانصدر کے سامنے والے لان میں منعقد ہو رہی تھی۔ ایک دن پہلے حسب معمول تقریب کے انتظامات کے سلسلے میں ریہرسل ہو رہی تھی کہ صدر ضیا بھی اپنے دفتر سے نیچے تشریف لے آئے۔ ٹی وی کے کیمروں سے صحیح اور واضح منظر کشی کے لیے کیمرہ مین منتظمین سے درخواست کر رہے تھے کہ سرو کا ایک آدھ درخت جو ان کے کام میں رکاوٹ بن رہا تھا کاٹ دیا جائے لیکن کوئی فیصلہ کرنے کو تیار نہ تھا۔ غالباً ایوان صدر کا درخت کاٹنے کے لیے خصوصی اجازت نامے کی ضرورت تھی۔

صدر صاحب کی نظر ٹی وی ٹیم پر پڑی تو وہ بھی ادھر آگئے۔ ان کے ذہن میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ انہوں نے درخت کے پیچھے کھڑے ہو کر اس جگہ کو دیکھنے کی کوشش کی جہاں تقریب کے دوران انہیں کھڑے ہونا تھا۔ پھر ایک درخت، دو درخت، اور کافی دیر تک کئی درختوں کے پیچھے کھڑے ہو کر انہوں نے اسی طرح جائزہ لیا۔ غالباً دیکھ رہے تھے کہ ان درختوں میں سے کسی کے پیچھے چھپ کر تقریب کے دوران ان پر فائر تو نہیں کیا جا سکتا۔ اور پھر انہوں نے حکم دیا کہ سرو کے سب درخت کاٹ دیے جائیں۔ یوں اس میدان میں موجود چالیس پچاس کے قریب درخت جو اس جگہ کی خوبصورتی کا حصہ تھے، کاٹ دیے گئے۔ تقریب بخیروخوبی ہو گئی۔ کوئی حادثہ نہ ہوا لیکن اس کے محض تین دن بعد صدر کے جہاز کو حادثہ پیش آگیا جس میں صدر خود، امریکی سفیر اور ان کے کئی ساتھی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اب ایک اور واقعہ بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم کے دور کا ہے۔

”محترمہ اپنی ایک تقریر کی ریکارڈنگ کے لیے ٹی وی سنٹر آئیں اور ہمیشہ کی طرح جنرل منیجر کے کمرے میں آکر بیٹھ گئیں۔ ان کا معمول تھا کہ وہ تقریر سے پہلے کچھ دیر یہاں بیٹھ کر تقریر پر ایک نظرڈال لیتی تھیں۔ ایک آدھ مرتبہ انہوں نے کچھ کہنا چاہا لیکن چپ رہیں۔ ناہید خان جو عموماً ان کے ساتھ رہتی تھیں اس وقت بھی موجود تھیں۔ انہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا ۔ ”جی ایم صاحب آپ سے وزیراعظم کچھ کہنا چاہ رہی ہیں“۔ میرا خیال تھا کہ وہ ریکارڈنگ کے حوالے سے کچھ پوچھیں گی یا کسی پروگرام کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں گی لیکن دونوں ہی باتیں غلط تھیں۔ انہوں نے میرے متوجہ ہونے پر کہا ۔ ”ابھی میں نے ٹی وی سنٹر کی طرف آتے ہوئے ویگن کے اڈے پر ایک بُھٹے والا بیٹھے دیکھا ۔ اس سے دو بُھٹے تو منگوا دیں۔“ بُھٹے آگئے اور اس دن وزیراعظم نے چائے کی بجائے ایک بُھٹا ہی کھایا۔“

ضیاالحق کے زمانے میں کرکٹ ڈپلومیسی کے چکر میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے بھارت کا طویل دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر بمبئی میں ایک دعوت کا ذکر اس طرح کیا ہے۔

”دلیپ کمار نے دونوں ٹیموں اور پاکستان سے آنے والے مہمانوں کے لیے اپنے گھر کے لان میں شاندار ڈنر کا اہتمام کیا تھاجہاں بھارت کے کئی اداکار اور اداکارائیں بھی موجود تھیں۔ ہر ایک ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے کی کوشش میں تھا۔ محمد علی ان سب سے الگ کھڑے بھارتی اداکار منوج کمار سے خوش گپیو ں میں مصروف تھے۔ دلیپ کمار ، ان کی بیگم سائرہ بانو اور بھائی اس کوشش میں تھے کہ ہر مہمان کو پوری توجہ ملے کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ توجہ کم ملی۔ دلیپ کمار کو کرکٹ سے بے انتہا دلچسپی ہے۔ ان کے پسندیدہ کھلاڑیوں میں جاوید میاں داد، ظہیر عباس اور آصف اقبال شامل تھے۔ وہ خوش تھے کہ اس روز یہ سبھی ان کے گھر موجود تھے۔ ہر کھلاڑی کسی نہ کسی اداکارہ یا اداکار سے محو گفتگو تھا۔ ماجد خان چپ چاپ ادھر ادھر ٹہل رہے تھے۔ ایک تو وہ ویسے ہی تنہائی پسند ہیں۔ دوسری مشکل یہ تھی کہ انہوں نے بھارتی فلمیں دیکھ نہیں رکھی تھیں۔ اس لیے کسی کو پہچانتے نہیں تھے۔ ایک سانولی سلونی سی لڑکی کو الگ بیٹھے دیکھا تو وہ اس سے بات چیت کرنے لگے۔ کرکٹ، سیاست ، صحافت اور انگریزی ادب پر بات چیت ہو رہی تھی۔ کچھ دیر بعد ماجد کو خیال آیا کہ خاتون سے تعارف تو ہوا نہیں۔ انہوں نے پوچھا۔ ’کیا آپ کا تعلق بھی فلم انڈسٹری سے ہے؟‘۔ جواب ملا ’جی ہاں چھوٹی موٹی اداکارہ ہوں۔ سمیتا پاٹل میرا نام ہے۔‘

بعد میں ہم نے ماجد خان کو بتایا کہ سمیتا پاٹل بھارت کی مشہور اور مقبول ہیروئن ہیں تو وہ بہت ہنسے۔“

ایسا نصیر الدین شاہ کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ جب دو مختلف موقعوں پر عبداللہ حسین اور جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال نے ہم سے پوچھا تھا کہ یہ جو آپ کے ساتھ آدمی کھڑا ہے یہ کون ہے اور مجھے دونوں کو کان میں آہستہ سے بتانا پڑا تھا کہ یہ بھارت کا مشہور اداکار نصیرالدین شاہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).