پچاس برس پہلے کا گورنمنٹ کالج لاہور


اس بات کو پوری نصف صدی گزر چکی ہے جب میں میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں سال اول میں داخل ہوا تھا۔ زندگی میں کوئی ایک فیصلہ کن مرحلہ ایسا آتا ہے جو انسان کی آئندہ زندگی کا رخ متعین کر دیتا ہے۔ میرے لیے وہ لمحہ گورنمنٹ کالج میں داخلے کا فیصلہ تھا۔ میٹرک کا رزلٹ آنے کے بعد لاہور آ کر گورنمنٹ کالج میں داخلہ فارم جمع کروایا۔ گورنمنٹ کالج میں میرٹ کی بلندی سے خوف زدہ ہوتے ہوئے احتیاطاً گورنمنٹ کالج، لائل پور میں بھی فارم جمع کر وا دیا۔ ابا جان نے ایک دن مجھے کہا کہ تمھیں موٹر سائیکل لے دیتے ہیں اور تم گوجرہ کالج میں داخلہ لے لو۔ شاید ان کے ذہن میں تھا کہ اگر آرٹس کے مضامین ہی پڑھنا ہیں تو لاہور جانے کا تردد کرنے کی خاص ضرورت نہیں۔ موٹر سائیکل کے لالچ میں میرا ارادہ بھی تبدیل ہونے کو تھا کہ میرے بڑے بھائی جان نے گوجرہ کالج میں داخل ہونے کا آئیڈیا رد کر دیا۔ بھائی جان گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد اس وقت کنگ ایڈورڈ کالج میں سال سوم کے طالب علم تھے۔ میں تا زندگی ان کا احسان مند رہوں گا کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں ان کے اس فیصلے کے سبب ہوں۔ اگر میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل نہ ہوتا تو فلسفہ کبھی نہ پڑھ سکتا اور شاید بنے بنائے راستوں پر چلتے ہوئے زندگی کا سفر تمام ہو جاتا۔

کالج میں داخلہ ہونے کے بعددوسری بڑی خوشی اقبال ہوسٹل میں داخلہ ملنا تھا جو دو تین برس قبل تک کواڈرینگل کہلاتا تھا۔ جو ڈارمیٹری الاٹ ہوئی اس میں میرے علاوہ چاروں طالب علموں کا تعلق رحیم یار خان اور تعمیر ملت ہائی سکول سے تھا۔ بعد میں ایک اور طالب علم کو اٹیچمنٹ دے کر جگہ دے دی۔ رحیم یار خان سے ننھیالی تعلق ہونے کی بنا پر مجھے بھی اعزازی شہریت دے دی گئی اور اس طرح وہ ڈارمیٹری رحیم یار خان والوں کے نام سے مشہور ہو گئی۔ میرے علاوہ سبھی سائنس کے طالب علم تھے۔ ان دوستوں میں دو ڈاکٹر بنے، جن میں سعید باجوہ امریکہ میں نامور ترین نیورو سرجن ہے، تنویر انگلستا ن میں ڈاکٹر ہے۔ اشرف سلیم نے بی اے کے بعد فوج کا رخ کیا اور وہاں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچا۔ اقبال خالد ایک بہت کامیاب بزنس مین، بلکہ پرانی اصطلاح کے مطابق کارخانہ دار ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی بھی عجب رنگ دکھاتی ہے۔ کمرے میں غلام سرور کے نمبر میٹرک میں سب سے زیادہ تھے، لیکن وہ بعض وجوہ کی بنا پر ایف ایس سی سے آگے نہ جا سکا۔ ان کے علاوہ ہوسٹل میں اور بہت سے دوست بنے جن سے زندگی بھر کے لیے رابطہ استوار ہوا۔

ہوسٹل میں لائق فائق طالب علموں کا ساتھ غیر رسمی تعلم کا بہت اچھا ذریعہ تھا۔ اس زمانے میں کتاب پڑھنے کا رواج زیادہ تھا، چونکہ وقت ضائع کرنے کے دیگر ذرائع ابھی متعارف نہیں ہوئے تھے۔ مختلف لوگوں کی متنوع دلچسپیاں تھیں۔ کسی سے سے ادب اور شاعری پر گفتگو ہوتی، کسی سے مذہب پر، کوئی سیاست کا رسیا تھا تو کوئی فلموں اور میوزک کا۔ غرض ہر قسم کے تبادلہ خیال کی سہولت میسر تھی، لیکن کبھی بحث میں تلخی پیدا نہیں ہوتی تھی۔ ہوسٹل کا ڈسپلن بہت سخت تھا۔ اتنی پابندیاں تو شاید آج کل لڑکیوں کے ہوسٹل میں بھی نہ ہوتی ہوں۔ رات نو بجے ہوسٹل کا مین گیٹ بند ہو جاتا تھا، اس کے بعد آنے والوں کو جرمانہ ہوتا تھا۔ نو بجے گھنٹی بجتی اور حاضری لگتی۔ نو سے گیارہ تک دو گھنٹہ کمپلسری سٹڈی آور ہوتے تھے جو بہت گراں گزرتے تھے، بالخصوص گرمیوں میں۔ ان میں نہ آپ سو سکتے تھے، نہ کسی سے بات چیت کی اجازت تھی، بس اپنی میز کرسی پر بیٹھ کر مطالعہ کریں۔ پریفیکٹ صاحب اچانک چھاپہ مارتے تھے اور سونے والوں یا نہ پڑھنے والوں کو کوتاہی پر جرمانہ کر دیتے تھے جو بالعموم پانچ روپے ہوتا تھا اور اس وقت یہ بڑی رقم تھی۔ اتنے پیسوں میں مال روڈ پر لارڈز ریسٹورنٹ میں ایک بندہ ڈنر کرسکتا تھا۔

اس زمانے میں کالج کی فضا علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں سے معمور تھی۔ نومبر سے مارچ تک شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا ہو جب کالج میں شام کے وقت کوئی فنکشن یا تقریب منعقد نہ ہو رہی ہو۔ مجلس اقبال، پنجابی مجلس، سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی کے ہفتہ وار اجلاس بہت باقاعدگی سے ہوتے تھے، سٹوڈنٹس یونین کی طرف سے مباحثوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ ہاؤس آف کامنز سٹائل ڈیبیٹ کا اپنا ہی انداز ہوتا تھا۔ کبھی کوئی مشاعرہ ہو رہا ہے اور کبھی کوئی میوزک کانسرٹ ہو رہا ہے۔ فلم سوسائٹی بھی بہت سرگرم ہوتی تھی اور بخاری آڈیٹوریم میں فلم دکھانے کا اہتمام کرتی تھی۔ میوزک کے بھی فنکشن ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ایک میوزک بینڈ بہت مشہور تھا جو پاکستان میں ویسٹرن میوزک کا شاید پہلا بینڈ تھا۔ اس کی قیادت پرنس آف ہنزہ کرتے تھے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہی پرنس آف ہنزہ ان دنوں گلگت بلتستان کے گورنر ہیں۔ دو دفعہ بخاری آڈیٹوریم میں ان کی پرفارمنس دیکھنے کا موقع ملا۔ اس زمانے کی خاص بات یہ تھی کہ تمام تقریبات کا انعقاد شام کے وقت ہوتا تھا اس لیے کالج بھی شام گئے تک آباد اور پررونق ہوتا تھا

مجلس اقبال اور پنجابی مجلس کے ہفتہ وار اجلاسوں میں خاصی باقاعدگی سے جانا شروع کیا۔ مجھے یاد ہے کہ پنجابی مجلس کی نشستوں میں طویل قامت، چھریرے بدن، گھنی مونچھوں والے ایک صاحب تشریف لاتے تھے۔ ہاتھ میں ہر وقت سگرٹ ہوتا تھا اور گفتگو بڑی عمدہ کرتے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایم اے او کالج میں انگریزی کے استاد ہیں۔ آج وہی صاحب ایک بڑے صوفی شیخ ہیں اور روحانی فیض عام کر رہے ہیں۔

سٹوڈنٹس یونین کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ہاؤس آف کامنز سٹائل ڈیبیٹ میرے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا۔ اس برس جو پہلی ڈیبیٹ ہوئی اس کا عنوان تھا: صورت آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ۔ محترمہ عارفہ سید قائد ایوان تھیں اور انھوں نے قرارداد پیش کرتے ہوئے بہت مختصر تقریر کی۔ ایک موقع پر یونین کے صدر سلیم کیانی کی زبان سے جب یہ جملہ ادا ہوا، جب آپ کسی نقطے پر کھڑے ہوں، تو اس پر بہت قہقہے بلند ہوئے ۔ عجیب زمانہ تھا کہ تلفظ اورا ضافت کی غلطی برداشت نہیں کی جاتی تھی۔ اس مباحثے کے دوران میں ایک مقرر بہت جوش سے خطاب کر رہے تھے جب اوپن ایر تھیئٹر کے اوپر سے ایک آواز بلند ہوئی: نقطہ ءاطلاع، جناب والا۔ صاحب صدر نے مقرر کو روکتے ہوئے ان صاحب کو نقطہء اطلاع بیان کرنے کو کہا۔ اس ستم ظریف نے نقطہء اطلاع یہ بیان کیا کہ وہ گھر جا رہا ہے جس پر اوپن ایر تھیئٹر کشت زعفران بن گیا۔

 اسی برس ایک سہ لسانی مباحثہ منعقد ہوا جو بعد میں کئی برسوں تک یادگار رہا۔ اس کا عنوان تھا: جنت کی واحد خالی کرسی کا حقدار کون: غالب، ہٹلر یا ہیر۔ غالب کے حامی اردو، ہٹلر کے انگریزی اور ہیر کے حامیوں نے پنجابی زبان میں اظہار خیال کیا۔ انگریزی میں تقریر کرنے والوں میں کالج کے پرنسپل پروفیسر اشفاق علی خان اور پروفیسر ایرک سپیرین تھے۔ ان مباحثوں کے ایک بہت کامیاب اور ہر دل عزیز مقرر غضنفر علی گل تھے جو اس وقت ایم اے کے طالب علم تھے۔ موجودہ حلیے کے برعکس اس وقت ان کی نواب کالا باغ سٹائل کی مونچھیں ہوتی تھیں۔ ان کی زبان میں لکنت تھی، اس وجہ سے ان پر وقت کی قید عائد نہیں کی جاتی تھی۔ غضنفر گل نے کوئی نصف گھنٹہ پنجابی زبان میں ہیر کی حمایت میں تقریر کی۔ وہ جب تقریر کرنے ڈائس پر آئے تو ایک صاحب کتابوں کی ایک ٹرے اٹھائے ان کے ساتھ تھے جس طرح وکیل کے منشی نے کتابیں اٹھائی ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تاریخ کے حوالوں سے ثابت کریں گے کہ نہ ہٹلر، نہ غالب، بلکہ ہیر ہی جنت کی واحد خالی نشست کی حقدار ہیں۔ ان کی تقریر کا اثر تھا کہ بعد میں منظور ہونے والی قرارداد ہیر کے حق میں تھی۔

گورنمنٹ کالج کی گوتھک طرز کی عمارت، اس کا اوول، اوپن ایر تھیئٹر، ٹینس لانز، لاجیا، جو شاید اب نہیں رہا، ان سب میں ایک عجیب قسم کا فسوں ہے جو اپنے سحر میں جکڑلیتا ہے اور پھر کبھی اس سے نکلنے نہیں دیتا۔ طالب علم تعلیم مکمل کرنے پر کالج سے نکل جاتا ہے لیکن گورنمنٹ کالج کبھی اس کے اندر سے نہیں نکلتا۔ یہ اس مادر علمی کا فیضان ہے کہ اس دیہاتی طالب علم کو علم و جستجو کی شاہراہ پر سفر کرنے کا حوصلہ میسر آیا؛ اس کے اساتذہ کے چشمہ علم سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ پچاس برس قبل 1967 کا سال تھا، شاید ستمبر کی چار تاریخ اور سوموار کا دن تھا جب کالج میں باقاعدہ تعلیم کے سفر کاآغاز ہوا۔ آج پوری نصف صدی مکمل ہو چکی ہے اور سفر ہنوز جاری ہے۔

ساجد علی – 1967


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).