جب سنی محرم منایا کرتے تھے


زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ قوموں کی زندگی میں تیس پینتیس سال کی بھلا کیا اہمیت ہوتی ہے۔ 1979 کا تاریخ ساز اور تباہ کن سال گزرے نصف دہائی بیت چکی تھی مگر ابھی ہمارے معاشرے میں اس کا زہر سرایت نہیں کر پایا تھا۔

ہمیں کوئی علم نہیں تھا کہ ہمارے ہم جماعتوں کا مسلک کیا ہے۔ مسلک کیا ہمیں تو ان کی ذات کے بارے میں بھی علم نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے یونی لیب سکول میں طلبا کو پہلے دو ناموں سے ہی پکارا جاتا تھا۔ ہمارے نام کے ساتھ خان نہیں لگتا تھا۔ ایسے میں جب پانچویں یا چھٹی جماعت میں ایک ٹیچر نے بے خیالی میں ایک ہم جماعت کا پورا نام پکار دیا تو سارے ہم جماعت بے تحاشا ہنسنے لگے۔ تنویر سعید باجوہ۔ باجوہ؟ باجوہ کیا ہوتا ہے؟ تنویر کے نام کے ساتھ یہ کیوں لگا دیا گیا ہے؟ باجوہ سے ملتا جلتا لفظ جو ہم بچوں نے اس وقت تک سنا تھا وہ باجرا تھا، یہی گمان گزرا کہ ٹیچر نے کچھ غلط پڑھ دیا ہے۔ معصومیت سی معصومیت تھی۔

بڑے ہوئے تو پھر ذات پات کا علم ہوا اور یہ پتہ چلا کہ برصغیر کے ہزاروں سال قدیم رواج نے یہ حکم لگایا ہے کہ کچھ ذاتیں اونچی ہوتی ہیں اور کچھ کم تر۔ جب مزید بڑے ہوئے تو یہ علم ہوا کہ ذاتیں نہیں یہ انسان ہوتے ہیں جو بڑے یا چھوٹے ہوتے ہیں۔

ایسے میں مذہب و مسلک کا کیا سوال۔ ان دنوں نصابی کتابوں کو مشرف بہ اسلام نہیں کیا گیا تھا۔ سائنس کی کتاب میں سائنس ہوتی تھی اور ریاضی میں ریاضی۔ ہاں اردو میں پہلے صفحے پر حمد اور دوسرے پر نعت ہوا کرتی تھی۔ باقی سارا اسلام صرف دینیات کی کتاب میں ہوا کرتا تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ احادیث اور آیات ہمیں دینیات کی کتاب میں نویں دسویں میں ہی دکھائی دی تھیں۔ سکول میں ایک پیریڈ قرات کا ضرور ہوا کرتا تھا جس میں نہایت ہی شفیق قاری یونس صاحب ہمیں تیسواں پارہ پڑھاتے تھے۔

ایک ہم جماعت ہوتے تھے اظہر حسین۔ صرف انہی کے بارے میں علم تھا کہ وہ شیعہ ہیں۔ اب یہ مزید الجھن کا باعث تھا کہ شیعہ کیا ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھا اور نرم دل لڑکا تھا۔ اسے دیکھ کر ہمارے ذہن نے یہی بتایا کہ شیعہ اچھے ہوتے ہیں۔ ہاں ہمارے گھر سے جن لوگوں کی دیوار ملی ہوئی تھی، ان کے بارے میں بھی ہمیں یہی علم ہوا تھا کہ وہ شیعہ ہیں۔ باقی ہر طرح سے وہ ہم جیسے ہی دکھائی دیتے تھے۔ ان کا بول چال، رہن سہن وغیرہ ہم جیسے ہی تھے۔ ہاں ایک چیز مختلف تھی۔

چند پراسرار سے دن آتے تھے جنہیں محرم کہتے تھے۔ ان دنوں وہ خاص تیاری کے ساتھ کالے کپڑے پہن کر ہر شام کہیں جایا کرتے تھے۔ ہم کالے کپڑے نہیں پہنتے تھے۔ لیکن دس محرم کو گھر میں ایک دوسری ہلچل ہوا کرتی تھی۔ تانبے کے ایک بڑے سے قلعی شدہ دیگچے میں حلیم نامی ایک خاص کھانا پکا کرتا تھا۔ سال بھر میں صرف ایک دن ایسا ہوتا تھا جب یہ پکتا تھا۔ بہت سی دالیں، گوشت اور نہ جانے کیا الا بلا ڈال کر کئی گھنٹے میں یہ دیگچہ تیار ہوتا تھا۔ اس کے بعد اسے باورچی خانے کے بیچ میں رکھا جاتا تھا اور گھر بھر سے تمام لڑکے اس کے ارد گرد اکٹھے ہو جاتے تھے۔ پھر لکڑی کے کفگیر پر باریاں لگتی تھیں اور ڈیڑھ دو گھنٹے تک کفگیر سے حلیم کو گھوٹا جاتا تھا۔ اس کے بعد ہم پھنس جاتے تھے کیونکہ سب سے چھوٹا ہونے کے سبب محلے کے گھروں میں ایک ایک پلیٹ دینے کی ذمہ داری ہماری ہوا کرتی تھی۔ محلے کے گھروں سے عموماً جوابی پلیٹیں ملا کرتی تھیں۔ پھر سکون سے گھر بیٹھ کر پلیٹ میں حلیم اور دہی ڈال کر اسے چمچے سے کھایا جاتا تھا۔

اس وقت صرف پی ٹی وی کا ایک چینل ہوا کرتا تھا۔ محرم کے دس دنوں میں ہم شوق سے بیٹھ کر علامہ طالب جوہری اور دوسرے ذاکرین کی مجلس سنتے تھے۔ حسینؓ اور اہل بیت کے غم سے سنیوں کے دل بھی بوجھل ہوا کرتے تھے۔ مصائب اہل بیت پر تاسف ہوا کرتا تھا کہ نبی ﷺ کے خانوادے کے ساتھ کیا بھیانک ظلم ہوا ہے۔ نبی کے لاڈلے حسینؓ سب کے ہوا کرتے تھے۔

ہمارے چند عزیز راجگڑھ میں رہتے تھے۔ نو محرم کی رات کو ہم تعزیے کا جلوس دیکھنے خاص طور پر ادھر جاتے تھے۔ ان دنوں وہ علاقے بھی مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے اور کرشن نگر اور ساندہ کہلاتے تھے۔ فل رونق ہوا کرتی تھی۔ جلوس میں شیعہ شامل ہوتے تھے اور علاقے کے سنی ان کی خدمت کے لئے ثواب کی نیت سے جا بجا دودھ اور شربت کی سبیلیں لگاتے تھے۔ محلے کے بچے گھر والوں سے پیسے اینٹھ کر جمع کرتے تھے اور مل کر سبیل لگاتے تھے اور دوسروں کی سبیلوں سے شربت پی پی کر ان کی کوالٹی بھی چیک کرتے تھے۔ جلوس آتا تھا تو ارد گرد کے سنی بھی اس میں شامل ہو جاتے تھے اور کچھ دور تک ساتھ دیتے تھے۔

جلوس کا مرکزی راستہ کچھ دیر کے لئے بند ہوا کرتا تھا۔ وہ بھی سیکیورٹی کے سبب نہیں بلکہ رش کے سبب۔ آدھے پونے گھنٹے میں راستہ کھل جاتا تھا۔ ویسے ہی جیسے ان علاقوں میں بارہ ربیع الاول کے جلوس کے موقع پر ہوتا تھا۔

پھر ایران کو خیال آیا کہ اسے پاکستان کے اہل تشیع کے ذریعے انقلاب ایکسپورٹ کرنا چاہیے۔ سعودیوں کو خیال آیا کہ پاکستانیوں کا ایمان پہلے ہی کمزور اور ناقص ہے، کہیں ایرانی اسے نہ لے اڑیں۔ جنرل ضیا الحق کو خیال آیا کہ پاکستانی بچوں کے ایمان اور نصاب کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ اور یوں ہم اس حال کو پہنچ گئے جس میں کئی کئی دن راستے بند ہوتے ہیں اور شیعہ سنی ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں۔ ظالموں نے شیعاؤں اور سنیوں کے عقیدے تو ”درست“ کر دیے مگر دماغ خراب کر کے ان سے امن اور محبت چھین لئے۔

پہلی تاریخ اشاعت: Oct 1، 2017

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar