شادی کے بعد وہ کتنا بدل گیا ہے


مسز نصیر نے بہت بجھے لہجے سے بتایا کہ شادی کے ایک سال میں ہی ان کا بیٹا پہلے جیسا نہیں رہا۔ کیا کیا تبدیلیاں آپ نے اپنے بیٹے میں محسوس کیں؟ میں نے سوال کیا۔ اب اس کا زیادہ وقت اپنی بیوی کے ساتھ گزرتا ہے، ویک اینڈ ہو تو کئی کئی گھنٹے بیوی کے ساتھ باہر گزارتا ہے، شام کو گھر آئے تو مجھ سے تھوڑی بہت بات کر کے بیوی سے گپ شپ لگاتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں بری طرح نظر انداز ہورہی ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا شادی سے پہلے آپ کے بیٹے کے کیا معمولات تھے؟ جواب آیا کہ پہلے وہ دوستوں کے ساتھ نائٹ میچز کھیلتا تھا۔ چھٹی کے روز دیر سے سو کر اٹھتا تھا۔ جب جاب ہوئی تو شروع میں کافی دیر سے گھر آتا تھا کبھی کبھی تو اتنا تھکا ہوتا تھا کہ اپنی پسند کا پکا ہوا کھانا بھی نہیں کھاتا تھا اور سو جاتا تھا۔ میں نے جواب سن کر کہا کہ جب وہ نائیٹ میچز کے لئے باہر ہوتا تھا تب آپ نظر اندازی کو محسوس نہیں کرتی تھیں؟ جب وہ دفتر سے آتے ہی کھانا کھائے بنا سو جاتا تھا جب کہ آپ نے اس کا من پسند کھانا پکایا ہوا ہوتا تھا تب آپ کو فکر محسوس نہیں ہوتی تھی؟ جب وہ دوستوں کے ساتھ باہر ملنا ملانا وقت گزاری میں مصروف رہتا تھا تب آپ کو ایسا محسوس نہیں ہوا کہ یہ رشتے داروں اور گھر کو وقت دینے کے بجائے دوستوں کو زیادہ وقت دے رہا ہے؟

مسز نصیر نے جواب دیا تب تو وہ شادی شدہ نہیں تھا ناں، لاپرواہ تھا مجھ پر انحصار کرتا تھا اب شادی کے بعد سے بہت سنجیدہ اور خاموش سا رہنے لگا ہے۔ میں نے کوئی تاثر دیے بغیر سپاٹ لہجے میں کہا وہ اب زندگی کو سنجیدہ لینے لگ گیا ہے اب اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ جو ذمہ داری اس سے وابستہ ہے اس کے ساتھ زندگی بہتر گزرے تو وہ اسے معیاری وقت دینے کی کوشش کر رہا ہے اب اس طرح سے کیوں نہیں سوچتیں؟ مسز نصیر کے پاس اب کوئی جواب نہیں تھا۔

میری دوست کی والدہ کا انتقال ہوا تو والد اور اس کا چھوٹے بھائی کی ذمہ داری اس پر آ پڑی وہ نوکری بھی کرتی تھی اور پھر گھر کی ہانڈی روٹی کی فکر بھی اسے رہتی تھی۔ بہت سی لڑکیوں کی طرح اس کا رشتہ بھی ایک مسئلہ بنا ہوا تھا ایسے میں اس نے یہ فیصلہ لیا کہ اپنے پیچھے وہ بھائی کو کیوں قربان کرے اور پھر اس نے خوب رشتے ڈھونڈنے کے بعد ایک ایسی لڑکی کو اپنی بھابی بنایا جو اس کے نزدیک اپنے گھر میں سگھڑ اور مثالی بیٹی تھی۔ بھائی کی شادی کے ایک سال بعد جب اس سے ملاقات ہوئی تو سننے کو ملا کہ بھائی اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ شوہرکے دفتر جاتے ہی بیوی دوبارہ سو جاتی ہے۔ گھر پر صفائی کے لئے کام والی آتی ہے۔ تب بھابی دوپہر میں بھرپور نیند لے کر اٹھتی ہے دل کیا تو ہانڈی چولہے پر چڑھ جاتی ہے ورنہ نہیں۔ شام کو شوہر آئے تو وہ اس کے لئے چائے بناتی ہے کھانا بنا ہو تو میز پر آجاتا ہے ورنہ شوہر اپنے ابا اور بہن کو یہ کہہ کر کہ ہم ذرا باہر جا رہے ہیں بتا کر کئی گھنٹوں کے لئے چلا جاتا ہے اور پھر وہ دونوں رات کا کھانا باہر ہی کھا کر گھر کو لوٹتے ہیں۔

شکایتوں کا ایک انبار تھا جو میری سہیلی کے پاس تھا۔ میں نے پوچھا کیا بھابی اپنی اور ابا جان کی خدمت کے لئے لائی تھی؟ جواب نفی میں آیا پھر پوچھا کہ کیا تم امید رکھتی ہو کہ وہ کچھ کر کے دے گی؟ جواب نفی میں آیا پھر سوال کیا کہ کیا تمہارا بھائی ایک بار بھی تمہارے پاس آیا کہ وہ اپنی بیوی کے رویے سے نالاں ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے تم دونوں کے لئے بھی سب کچھ کرنا چائیے؟ اس بار بھی جواب نفی میں آیا۔ میں نے کہا کہ جب نہ کوئی امید ہے نہ کوئی آس تو شکوہ کس بات کا؟ ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ تمہارا بھائی اس کے ساتھ خوش ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ والد کی خدمت کے لئے ان کی بیٹی اس گھر میں موجود ہے کھانا بھی بن جائے گا، صفائی بھی ہورہی ہے۔ کوئی بھوکا نہیں بیٹھا نہ ہی گھر الٹا پڑا ہے تو ایسے میں مزید بہتر اور بہترین کی امید اگر رکھوگی تو غلطی کرو گی۔ لیکن ان سب کے بعد ایک جملہ سماعتوں سے ٹکرایا نہیں سدرہ تم اپنی جگہ درست ہو لیکن اب بھائی پہلے جیسا نہیں رہا۔

کچھ روز قبل کھانے کی میز پر ہم بہنیں کھانا کھانے ساتھ بیٹھیں تو ذکر نکلا ان خواتین و حضرات کا جو شادی کے بعد تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چھوٹی بہن نے مذاقاً کہا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک لڑکی جو صبح کا ناشتہ وقت پر کر کے یونیورسٹی نہ جاتی ہو جس کی وقت پر کھانا کھانے کے لئے والدین منت و سماجت کرتے ہوں گے وہ لڑکی شادی کے بعد شوہر کو فون پر یہ ڈائیلاگ کیسے بول دیتی ہے کہ سنیں کھانا ساتھ کھائیں گے آپ کو پتہ ہے مجھے آپ کے بغیر کھانے کی عادت نہیں۔ اسی طرح وہ لڑکا جس کا شادی سے پہلے کمرہ بے ترتیبی میں اپنی مثال آپ ہو وہ جب میکے بیوی کو چھوڑنے آئے تو یہ ڈائیلاگ ادا کرتا ہے جلدی آجانا تمہیں پتہ ہے کہ مجھے صبح دفتر جاتے ہوئے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ میری ضرورت کی اشیاء کہاں کہاں رکھیں ہیں۔ ان باتوں کے بعد زور دار قہقہہ لگا میں نے اپنی بہن سے جو بہت موڈ میں تھی دریافت کیا کہ کیا کوئی لڑکی شادی کے بعد اپنے شوہر کو یہ کہہ سکتی ہے کہ پہلے کیسے کھاتے تھے؟ پہلے کون کرتا تھا؟ جو اب تم مجھ پر انحصار کرنے لگے۔ اب کیا ڈرامے بازی لگائی ہوئی ہے۔ میری بہنوں نے فورا جواب دیا کہ نہیں بھئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ بات تو انتہائی غیر مناسب ہے۔

ہم ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور لوگوں کو سمجھنے میں بہت کم وقت لگاتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر لوگ جب کسی شادی کی تقریب میں جاتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ جس تقریب میں بطور مہمان شریک ہوئے ہیں ان کی خوشی میں شامل ہوکر ان کو دعائیں دیں، مسکرائیں۔ لیکن نہیں ہم یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ہال میں کس کونے میں کون سا رشتے دار تناؤ کی کیفیت میں کھڑا ہے؟ کون خفا سا لگ رہا ہے؟ کس کے کپڑے سستے اور کس کے سب سے مہنگے ہیں، کھانا زیادہ کیوں نہیں ہے۔ میزبانوں سے کہاں غلطی ہوئی ہے ہم منفی پہلووں پر غور کرنے میں اور اسے ڈھونڈنے میں رات نو سے بارہ بجا دیتے ہیں اور پھر گھر آکر دو گھنٹہ میڈیا کے خدائی اینکرز کی طرح لکیر پیٹتے رہتے ہیں۔ میرے والد جب بھی کسی شادی سے ہوکر آتے تھے تو میں ان سے پوچھتی تھی کہ کیسی رہی شادی کیا کھایا؟ جواب آتا بہت اچھا کھانا تھا، سب اچھا تھا، اللہ لڑکی کا نصیب اچھا کرے اور اسے اپنے گھر خوش رکھے۔

ایک ہی طرح کا جملہ مجھے بور کرنے لگا تو ایک ایسی شادی جہاں میں بھی اپنے والد کے ساتھ گئی گھر واپس آنے پر میٹھا دوبارہ نہ ملنے کا شکوہ کیا۔ ابو نے مجھے مسکرا کر کہا کہ مجھے بتاتی میں لا دیتا۔ ساتھ ہی بڑے پیار سے ایک مثال دی کہ بیٹا مجھے ان لوگوں سے بڑی تکلیف ہوتی ہے جو کسی کی شادی کا کھانا کھا کر گھر آئے ہوں اور دانتوں میں سے خلال کرتے ہوئے کہیں چاول ٹھنڈے تھے، قورمہ مزے کا نہ تھا کوئی بڑا پکوان کر والیتے۔ اس ایک دن کی تقریب کے لئے جو تین سے چار گھنٹے کی ہوتی ہے والدین نے سالوں کی تیاری کی ہوتی ہے، پیسے جوڑے ہوتے ہیں کئی تو قرض بھی لیتے ہیں اور اگر کوئی بہت بڑے رئیس خاندان کی بھی شادی ہے تو دباؤ یکساں ہی ہوتا ہے۔ شرکت کرو، دعا دو اور گھر آجاؤ۔ یہ کیا کہ شکوہ یہ اچھا نہیں تھا فلاں ٹھیک نہیں لگا۔

ایک بہت عالیشان شادی جس کی مہینہ بھر تقاریب جاری رہیں وہ دو ماہ میں ختم ہوگئی چونکہ وہ رشتے دار تھے اور والد نے جب ان سے شادی ختم ہونے کی وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ نندوں اور ساس کو لڑکی کی سمجھ نہیں آئی۔ میرے والد حیران ہوئے پوچھا کہ کیوں لڑکی نے کیا کردیا؟ تو جواب آیا کہ اس نے تو آتے ہی ہمارا بھائی اور ہمارا بیٹا جو کوئی بھی قدم ہماری مرضی کے بغیر نہیں اٹھاتا تھا اسے یکسر تبدیل کردیا۔ وہ دونوں لاونج میں شام کے وقت سب کے ساتھ چائے پیتے تو رات میں لان میں بیٹھ کر چائے پینا بھی معمول بنالیا اب ایسی کیا باتیں تھیں جو گھر والوں سے ہٹ کر ایک مخصوص وقت پر کی جاتی تھی۔ شادی میں ہماری طرف سے دیے جانے والے کپڑوں کی باری چار روز بعد آتی اور اپنے میکے سے ملنے والے کپڑے روز پہنتی تھی، کوئی بھی بات ہوتی تو فوراً کہتی میری بڑی بہن فلاں ڈش بہت اچھی بناتی ہے میری امی ہم بہنوں کی شاپنگ فلاں مارکیٹ سے کرتی تھیں ہم اس کا میکہ نامہ سن سن کر پک گئے تھے۔ شادی ہوتے ہی ہفتے میں دو مرتبہ میکے گئی پھر فون پر بھی خوب باتیں کرتی تھی تو ہم نے ٹھان لی کہ اب ہمیشہ کے لئے ہی بھیج دیا جائے۔

میرے والد نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے شادی پر کیا پہننا ہے کہاں سے سلوانا ہے، کہاں سے خریدنا ہے، تھیم کیا ہوگی؟ گانے کیا ہوں گے؟ کون ناچے گا، کھانے کا مینیو کیا ہوگا، زیور کیسا دینا ہے کس ڈیزائنر سے کپڑے بنیں گے، ان سب پر آٹھ سے دس ماہ لگا ڈالے اور لڑکی کو طلاق دینے میں صرف دو ماہ، کیا اسے سمجھنے میں یہاں کے ماحول میں ڈھلنے کے لئے مزید وقت نہیں دیا جاسکتا تھا۔ ایک لڑکی اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک نئے گھر میں جب آتی ہے تو اسے وہاں ان کا ہونے میں کچھ تو وقت درکار ہوگا ایک بچے کا اسکول بھی اگر تبدیل ہوجائے تو نئے اسکول میں نئے اساتذہ کو سمجھنے اور دوست بنانے میں اسے کچھ وقت لگتا ہے یہ تو پھر شادی ہے۔ لیکن وہی بات کہ برداشت کم اور سمجھنے، پرکھنے کا پیمانہ اپنی مرضی کا ہو تو گھروں کا سکون تہس نہس ہم خود کرتے ہیں اور پھر شکوہ وہی کہ پہلے جیسا کچھ نہیں رہا۔

بات پھر وہی آتی ہے جو بیٹا آپ کو بدلا ہوا لگتا ہے وہ بھی تو اپنے جیون ساتھی کی مرضی سے اور کچھ اپنی مرضی سے ڈھلنے کے مراحل میں ہوتا ہے۔ پھٹی جینز اور کئی کئی دن پرانی ٹی شرٹ میں ملبوس لڑکا اگر اب ڈریسنگ کا خیال رکھتا ہو۔ چائے کے ڈھابوں پر بیٹھ کر وقت گزاری کرنے والا بیٹا اگر اب شام ڈھلے آتے ہی بیوی کے ہاتھ کی بنی چائے پینا چاہتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جو لڑکا اپنے دوستوں کے ساتھ باہر کھانا کھا کر کبھی انجوائے کرتا تھا اب اگر بیوی کے ساتھ ڈنر کر کے ایک خوشگوار تجربہ کر رہا ہو یا جو پہلے اپنے دفتر کے معاملات آپ سے بیان کرتے ہوئے جھجھکتا ہو کہ آپ پریشان نہ ہوجائیں اب اسے بیوی کی صورت میں دلجوئی کرنے والا ساتھی گھر ہی میں میسر آگیا ہو تو اس میں برا ہی کیا ہے؟ آ پ نے اپنے شوہر کے ساتھ زندگی کے نشیب و فراز دیکھے۔ لڑائیاں ہوئیں تو کہیں بہت کچھ گھر کے سکون کے لئے نظر انداز بھی کیا کہیں آپ کو محسوس ہوا کہ گزارہ مشکل ہے تو سسرال سے علیحدہ بھی ہوئیں۔ شوہر کے ساتھ اچھے لمحات دیکھے تو کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بڑھاپے میں ایک دوسرے کا مزید سہارا بنے۔ ایسے میں آپ کا بیٹا اور بہو بھی تو ایسی ہی زندگی کی شروعات کرنے جارہے ہیں جو آپ کئی برسوں قبل کر چکے تھے ان کی زندگی کو تین دہائی قبل سے موازنہ کرنا اور بات بے بات ٹوکنا گھروں میں فاصلے پیدا کردے گا۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ گھر بناتے وقت جہاں بیٹی کو سب دیتے ہیں چاہے وہ تعلیم ہو یا جہیز کی صورت میں وہاں اس میں یہ احساس بھی بیدار کریں کہ وہ جہاں بیاہ کر جارہی ہے وہاں شوہر ہی سب کچھ ہے لیکن اس گھر میں بسنے والے لوگ بھی اسی طرح ہیں جیسے اس کے والدین کے گھر ہوا کرتے تھے۔ شادی کے وقت ساری نصیحتیں لڑکی کے لئے نہیں ہونی چائیے بیٹی کے ساتھ ساتھ بیٹے کو بھی یہ سمجھائیں کہ وہ بھی برابری رکھتے ہوئے سب کے حقوق ادا کرے۔ لیکن ان سب میں میرا ماننا ہے کہ عورتیں پھر بھی اپنے تحفظات کا، شکووں گلوں اور محرومیوں کا اظہار اپنی بہن، ماں، دوست سے کر ہی لیتی ہیں ہاں کہیں کہیں لڑ کر بھی بتادیتی ہیں کہ زیادتی اور نا انصافی ہورہی ہے لیکن مر د ان سب میں کہیں کچھ کہہ نہیں پاتا، اظہار کر نہیں پاتا اور اگر کرتا ہے تو اس کا نتیجہ غصے کی صورت میں سامنے آتا ہے جس سے گھر کا ماحول اور خرابی کی طرف جاتا ہے۔ لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ اگر اس کا گھر بس جائے اور اسے اچھی شریک حیات مل جائے تو اس کے ساتھ گزرنے والی اچھی زندگی اور اس میں آنے والی مثبت تبدیلیاں کہیں یہ ہنگامہ برپا کر رہی ہوتی ہیں کہ میرا بیٹا بدل گیا ہے۔ میرا بھائی اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اگر ہم تھوڑا وقت دیں اور منفی کے بجائے مثبت پہلووں کو دیکھنے کی عادت اپنائیں تو شاید یہ شکایت ختم نہ بھی ہو لیکن کم ضرور ہوجائے گی۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar