پُراسرار نینا ۔ فلم نگری کی جاگتی راتیں


شاہدہ جو کہ محسن عبداللہ کی فرماں بردار بیوی تھی اور اپنے گھرمیں خوش تھی اس لیے کہ علی گڑھ میں میاں بیوی کی محبت ہوئی تھی اور یہ محبت ان دونوں کے دلوں میں ایک عرصے تک برقرار رہی۔ شاہدہ اس قسم کی لڑکی تھی جو اپنے خاوند کے سوا اور کسی مرد کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی لیکن محسن عبداللہ ایسا نوجوان تھا جومختلف میوے چکھنے کا عادی تھا۔ شاہدہ کو اس کی اس عادت کا علم نہیں تھا۔ ویسے وہ جانتی تھی کہ اس کے خاوند کی بہنیں بڑی آزاد خیال ہیں، مردوں سے بڑی بے باکی سے ملتی ہیں۔ ان سے جنسیات کے بارے میں گفتگو کرنے سے بھی نہیں جھجکتیں مگر اسے ان کے یہ انداز پسند نہیں تھے۔

محسن کی ایک بہن (ڈاکٹر رشید جہاں) نے تو ایسے پر پرزے نکالے تھے کہ حد ہی کردی تھی۔۔۔۔۔۔ میں ان دنوں ایم۔ اے۔او کالج، امرتسر میں پڑھتا تھا۔ اس میں ایک نئے پروفیسر صاحبزادہ محمود الظفر آئے۔ یہ ڈاکٹر رشید جہاں کے خاوند تھے۔ پروفیسر صاحبزادہ محمود الظفر بڑے خوش شکل نوجوان تھے۔ ان کے خیالات اشتراکی تھے۔ اسی کالج میں فیض احمد فیض صاحب جو بڑے افیمی قسم کے آدمی تھے، پڑھایا کرتے تھے، ان سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ ایک ہفتے کی شام کو انہوں نے مجھ سے کہا وہ ڈیرہ دون جا رہے ہیں۔ چند چیزیں انہوں نے مجھے بتائیں کہ میں خرید کرلے آؤں، میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی، اس کے بعد ہر ہفتے ان کے حکم کی تعمیل کرنا میرا معمول بن گیا۔ وہ دراصل ڈیرہ دون میں ڈاکٹررشید جہاں سے ملنے جاتے تھے۔ ان سے غالباً ان کو عشق کی قسم کا لگاؤ تھا۔ معلوم نہیں اس لگاؤ کا کیا حشر ہوا مگر فیض صاحب نے ان دنوں اپنی افیمگی کے باوجود بڑی خوب صورت غزلیں لکھیں۔ یہ تمام عقبی مناظر ہیں۔

محسن عبداللہ کو کسی دوست کی وساطت سے بمبئی ٹاکز میں ملازمت مل گئی۔ ان دنوں یہ فلمی ادارہ بڑا وقار رکھتا تھا۔ اس کے روح رواں ہمانسورائے تھے۔ وہ تنظیم اور اچھی فضا کے بہت قائل تھے۔ ان کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ وہ پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے اسٹوڈیو میں جگہ دیں۔ محسن عبداللہ کو لیبارٹری میں جگہ مل گئی۔ ہمانسورائے آنجہانی کے احکام کے مطابق اسٹوڈیو کے کسی اعلیٰ اور متوسط کارکن کو’’ملاڈ‘‘( جہاں کہ یہ نگار خانہ تھا) سے دور رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ قریب قریب سب اسٹوڈیو کے آس پاس ہی رہتے تھے۔ محسن عبداللہ اپنی بیوی شاہدہ کے ساتھ قریب ہی ایک چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی کوٹھی میں مقیم تھا۔ محسن لیبارٹری میں بڑی توجہ سے کام کرتا تھا۔ ہمانسو رائے اس سے بہت خوش تھا۔ اس کی تنخواہ اتنی ہی تھی جتنی اشوک کمار کی تھی۔ جب وہ اس لیبارٹری میں ملازم ہوا تھا مگر وہ اب کامیاب ایکٹر بن رہا تھا۔ ان دنوں آزوری اور ممتاز بھی وہیں تھے۔ مسٹر مکر جی جو اس وقت مسٹر واچا ساؤنڈ ریکارڈسٹ کے اسسٹنٹ تھے، سب خوش باش آدمی تھے۔ ہر سال ہولی کے موقع پر بڑا دلکش ہنگامہ برپا ہوتا، سب ایک دوسرے پر رنگ پھیکنتے اور بڑی پیاری رنگ رلیاں مچتیں۔

پراسرار نینا

’’پزملن‘‘ کی شوٹنگ شروع ہوئی تو ہمانسورائے نے سنہہ پربھا پردھان کو جو خاصی پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ اپنے اس فلم کے لئے ہیروئن منتخب کیا۔ ان دنوں خواجہ احمد عباس وہاں پبلسٹی کا کام کرتے تھے۔ محسن اور عباس دونوں اس لڑکی پر عاشق ہوگئے جو سندھ کی رہنے والی تھی اور بمبئی میں نرسنگ کا کورس مکمل کر چکی تھی۔ محسن اور عباس دونوں چاہتے تھے کہ پربھا ان کے جذبات کی نرسنگ کرے مگر وہ بڑی تیز نشتر تھی، وہ دونوں کو چرکے لگاتی تھی۔

محسن اس کے عشق میں کچھ ایسا مبتلا ہوا کہ اس نے بے تحاشا جواء کھیلنا شروع کردیا۔ اسے جتنی تنخواہ ملتی، سب قمار بازی کی نذر ہو جاتی۔ شاہدہ سخت پریشان تھی۔ اس کو اپنے گھر سے ہر مہینے کچھ نہ کچھ منگوانا پڑتا تھا۔ اس کے ایک بچہ بھی ہو چکا تھا جو آئے دن بیماررہتا۔ اس کے علاج پر کافی خرچ کرنا پڑتا تھا۔ شاہدہ نے ایک دن اس سے بڑے شریفانہ انداز میں کہا۔’’محسن تم میرا خیال نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ کم از کم اپنے بچے کا تو کرو۔‘‘ وہ اس پر بہت برسا اس لیے کہ اس کے سر پر جوئے اور سنہہ پربھا پردھان کا عشق سوار تھا۔

میں ان دنوں نانو بھائی ڈیسائی کے ہندوستان سنے ٹون اسٹوڈیو میں ملازم تھا۔ شانتا رام نے جو پربھات فلم کمپنی میں کئی شاندار فلم تیار کر چکے تھے۔ مجھے دعوت دی کہ تم پوُنا آؤ۔ کئی صحافی اور افسانہ نویس وہاں جا رہے تھے۔ یہ خیر سگالی قسم کی دعوت تھی۔ مدعو کئے گئے لوگوں میں ایک صاحب ڈبلیو زیڈ احمد بھی تھے جوغالباً سادھنا بوس کی ٹیم میں کام کرتا تھا۔ مجھے اتنا یاد ہے احمد نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ بنگالی کے مکالمے اردو میں ترجمہ کرتا ہے۔ ہم پونا میں دوروز رہے۔ اس دوران میں مجھے اس کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ اس لیے کہ وہ اپنے چہرے پر خول چڑھائے رکھتا تھا۔ اس کی ہنسی، اس کی گفتگو۔ اس کا ہر انداز مصنوعی سا دکھائی دیتا تھا۔ ایک اور بات جو میں نے نوٹ کی تھی، وہ یہ تھی کہ وہ مشہور یہودی ڈائریکٹر ارنسٹ بھوشن کی طرح ہر وقت منہ میں ایک لمبا سا سگار دبائے رکھتا تھا۔

اس کے بعد میری اور اس کی ملاقات راماشکل ایکٹر کے مکان پر ہوئی۔ وہ میرا دوست تھا۔ میں جب اس کے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک کونے میں ڈبلیو زیڈ۔ احمد بیٹھا راما کی محبوب شراب رم پی رہا تھا۔ اس سے علیک سلیک ہوئی، بڑی رسمی قسم کی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ کسی سے کُھل کر بات کرنے کا عادی نہیں۔وہ ایک کچھوا ہے جو اپنی گردن جب چاہے اپنے سخت خول کے اندر چھپا لیتا ہے۔ آپ ڈھونڈتے رہے مگر نہ ملے۔ میں نے اس سے کہا۔’’احمد صاحب! آپ کچھ بات تو کیجئے۔‘‘ وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنسا۔’’ آپ راما شکل سے باتیں کررہے ہیں۔ کیا یہی آپ کے لئے کافی نہیں ہے۔‘‘ یہ جواب سن کر مجھے بڑی کوفت ہوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں کسی سیاست دان سے ہم کلام ہوں۔ سیاست سے مجھے سخت نفرت ہے۔ احمد سے راماشکل کے فلیٹ پر متعدد مرتبہ ملاقات ہوئی لیکن وہ کھل کر پھر بھی نہ بولا۔۔۔۔۔۔ وہ کونے میں کرسی پربیٹھا رم پیتا رہتا تھا، میں اور راماشکل بکواس میں مشغول رہتے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7