کشمیر کی اصل کہانی کیا تھی؟


میرے قیامِ برطانیہ کے دوران، مجھے اپنے بچوں کے حوالے سے جن اچھے اچھے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، ان میں ایک بہت اچھی اور سلجھی ہوئی فیملی، شال فیملی ہے۔ پروفیسر نذیر احمد شال، ان کی اہلیہ شمیم شال اور ان کے بچے برطانیہ کی کشمیری کمیونٹی کے لئے یہ نام نئے نہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آنے والے ان لوگوں نے اپنی شناخت کو اپنے وطن کی آزادی کی تحریک کے ساتھ متواتر مربوط رکھا ہے۔ پاکستان کے وہ عوام بھی جو کشمیر کی جدوجہد آزادی سے کسی بھی طرح سے مربوط ہیں یا اس میں دلچسپی رکھتے ہیں یا جو جدوجہد آزادی کشمیر کو حقیقی معنوں میں کوئی تحریک سمجھتے ہیں۔ ان کے لئے بھی یہ نام نئے نہیں۔ کیونکہ ان دونوں میاں بیوی نے (اللہ ان کو اپنی زندگی ہی میں اپنی جدوجہد کی کامیابی کا مژدہ دکھائے اور سنائے) اپنی پوری زندگی اسی تحریک کے نام کردی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بہت تکالیف بھی برداشت کیں۔ جسمانی بھی، مالی بھی اور روحانی (ذہنی) بھی لیکن سب کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔ اسی اثنا میں اپنے بچوں کو پڑھایا، لکھایا اور اچھی تربیت سے انہیں معاشرے کے اچھے افراد کی صف میں شامل بھی کیا۔ اللہ ان کو اس جدوجہد کو قبول فرمائے۔

پروفیسر نذیر احمد شال نے تو تقریر کے ساتھ ساتھ اپنی تحریر سے بھی بین الاقوامی کمیونٹی کو کشمیر کے مسئلے کی سنجیدگی اور سنگینی سے آگاہ کیا ہے اور اس سلسلے میں نظم و نثر دونوں کا سہارا لیا ہے۔
اس وقت اُن کی بہترین تصنیف

Kashmir…………….
Tormented Past
and
Bruised Present

میرے سامنے ہے۔ اُن کی اجازت سے میں نے کوشش کی ہے کہ اس کتاب کے مندرجات کو حسبِ استطاعت اردو میں ڈھال کر قارئین کے سامنے پیش کروں۔ تاکہ پڑھنے والوں کے سامنے یہ تحریک اپنی پوری جزئیات کے ساتھ واضح ہوجائے کہ یہ محض ڈھونگ اور خالی خولی باتوں پر مشتمل کوئی ڈرامہ نہیں جس کے مختلف ایکٹ صرف لوگوں کی توجہ بٹانے کے لئے دھرائے جاتے ہیں۔ یہ وہ خونچکاں حقیقت ہے جس کو پاکستانی قوم خصوصاً ہمارے حکمران جتنی جلدی سمجھ لیں اتنا ہی اچھا ہے کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے“ اور جب شہ رگ آپ کے ازلی اور ابدی دشمن کے ہاتھ میں ہو تو آپ کی زندگی ہمہ وقت خطرے میں ہوتی ہے۔

برِصغیر کی تقسیم میں جو ناانصافیاں برٹش گورنمنٹ کی طرف سے ہوئی ان میں ریاست جوناگڑھ، دکن، تقسیم بنگال اور تقسیم پنجاب سرفہرست ہیں۔ تقسیم پنجاب ہی سے کشمیر کا المیہ وجود میں آیا کہ کشمیری تو پہلے ہی برطانیہ کی حکومت کے ہاتھوں سکھ راج کے بیچے جا چکے تھے اور ان کی آزادی کی تحریک 1931ءسے شروع ہو چکی تھی اور اب جو اپنی مرضی سے اور خوشی سے الحاق کی آزادی ملی تو وہ اکتوبر 1947ءمیں بھارتی حکومت کے غاصبانہ قبضے اور تسلط سے ملیا میٹ ہوگئی۔

پروفیسر صاحب نے اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ایسے وقت میں ان کی اس ”تحریک آزادی کشمیر، اس کے واقعات، اسباب اور موجودہ حالات (جنہیں بھارتی حکومت کمال عیاری اور مکاری سے عالمی دنیا سے چھپائے ہوئے ہے) پر مبنی“، حقائق کو منکشف کرتی ہوئی تصنیف کا منظرِ عام پر آنا نہایت ضروری تھا تاکہ وقت کی گرد اور بھارت کی ضد اور ہٹیلے پن سے جو مسئلہ، اس ”گلوبل ویلج“ والے زمانے میں بھی بین الاقوامی برادری کی نظروں میں غیر اہم بن چکا تھا اور بیشتر لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا انہیں اس مسئلے کی سنجیدگی، سنگینی اور چار کشمیری نسلوں کی بیچارگی کا احساس ہو سکے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6