ہم جنسیت جرم نہیں


قانون تعزیرات ہند 1860 ءمیں مدون کیا گیا تھا۔ اس کا مسودہ بنیادی طور پر لارڈ میکالے نے تیار کیا تھا۔ تب انگلستان پر وکٹورین اخلاقیات کا غلبہ تھا۔ وکٹورین اخلاقیات نظم و ضبط اور معاشرتی بندشوں کو انسانی خوشیوں پر ترجیح دیتی تھیں۔ ناگزیر طور پر قانونی تعزیرات ہند پر بھی اسی اخلاقیات کی چھاپ تھی۔ گزشتہ سو برس میں دنیا بھر میں ہم جنسیت کے بارے میں علمی ، طبی ، قانونی اور معاشرتی رویوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ بھارت میں عملی طور پر گزشتہ تیس برس میں کسی شہری کو دفعہ 377 کی خلاف ورزی پر سزا نہیں دی گئی۔ تاہم بدعنوان پولیس اہلکار اس قانون کی مدد سے شہریوں کو ہراساں کرتے تھے۔ نیز قانونی طور پر تحفظ نہ ملنے کی وجہ سے ہم جنسیت کا رجحان رکھنے والے شہری بالخصوص کم عمر لڑکے اور لڑکیاں مجرمانہ رویوں، نفسیاتی پیحیدگیوں اور ذہنی دباﺅ کا شکار ہوتے تھے۔ اس دوران اقوام متحدہ نے بھی متعدد مواقع پر بھارتی حکومت کو تجویز دی کہ ہم جنسیت کو قانونی تحفظ دینے سے ایڈز جیسے مرض کے پھیلاﺅ پر موثر طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جن ممالک میں غیر ضروری قانونی رکاوٹیں موجود نہیں ہیں وہاں ایڈز کے بارے میں عوامی آگہی نیز حفاظتی تدابیر تک باآسانی رسائی کے باعث ایڈز کے خلاف مہم چلانا کہیں زیادہ آسان ثابت ہوتا ہے۔ تاہم بھارت میں مختلف حکومتیں متوقع عوامی ردعمل نیز مذہبی تنظیموں کے احتجاج کے خوف سے اس ضمن میں موزوں اقدام کرنے سے گریزاں رہیں۔

بھارت میں جنسی صحت کے حوالے سے کام کرنے والی ایک این جی او ناز فاﺅنڈیشن نے 2003ء میں دہلی ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کا ہم جنسیت پر اطلاق ختم کر دیا جائے۔ تاہم دہلی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ناز فاﺅنڈیشن کو اس قانون سے متاثرہ فریق قرار نہیں دیا جا سکتا چنانچہ یہ مقدمہ تکنیکی بنیاد پر خارج کر دیا گیا۔ اس میں ستم ظریفی یہ تھی کہ بھارت میں گزشتہ دو عشروں میں کسی شہری کو ہم جنسیت کے الزام میں سزا نہیں دی گئی۔ چنانچہ ایسے درخواست گزار کا تلاش کرنا محال تھا جسے اس قانون سے براہ راست متاثر فریق قرار دیا جا سکے۔ ناز فاﺅنڈیشن نے اس تناظر میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ سپریم کورٹ نے ناز فاﺅنڈیشن کو عوامی مفاد کے اصول کی بنا پر دفعہ 377 کے خلاف جائز فریق تسلیم کر لیا اور دہلی ہائی کورٹ کو حکم دیا کہ اس مقدمے کی دوبارہ سماعت کی جائے۔ یہ امر قابل ذکرہے کہ دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ کا موقف یہ تھا کہ دفعہ 377 کو برقرار رکھا جائے جبکہ بھارت کی وزارت صحت اس قانون کو ختم کرنے کی حامی تھی۔ یہ امر قابل ذکر ہے 2016ء میں سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست پانچ ہم جنس پرستوں نے دائر کی تھی جن کا کہنا تھا کہ وہ خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران بھارت میں ہم جنسی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ دانشوروں کی ایک بڑی تعداد نے بھی اپنی آواز بلند کی۔ نوبل انعام یافتہ بھارتی ماہر معیشت امرتا سین اور عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصنف وکرم سیٹھ نے ایک مشترکہ اپیل جاری کی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ اس مقدمے کا انسانی بنیادوں پر فیصلہ کر کے بھارتی سماج کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔ اس دوران میں بھارت کے بڑے شہروں مثلاً دہلی ، ممبئی، کلکتہ ، بنگلور اور چنائی میں پہلی مرتبہ ہزاروں ہم جنس پرستوں نے مظاہرے کیے اور دفعہ 377 کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ بالآخر 6 ستمبر 2018ء کو بھارتی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ بالغ شہریوں کے درمیان باہم رضامندی سے کیے جانے والے جنسی فعل پر دفعہ 377کا اطلاق نہیں ہوتا۔

John Wolfenden

بھارتی عدالت کا یہ فیصلہ قانونی تاریخ میں وولفنڈن کمیشن رپورٹ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ مختلف قوموں کے معاشرتی اور قانونی ارتقا میں بہت سے ایسے قوانین تشکیل دیے گئے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی افادیت کھو بیٹھے۔ تاہم یہ قوانین بدستور کتاب قانون کا حصہ رہے۔ مثال کے طور پہ مذاہب کی توہین کے قوانین بہت سے ممالک میں آج بھی موجود ہیں لیکن انہیں عملی طور پر غیرموثر سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں بھی جنسی افعال کے حوالے سے مختلف قوانین موجود تھے جن پر عمل نہیں کیا جاتا تھا تاہم 1950ء کی دہائی میں ذرائع ابلاغ کی ترقی کے ساتھ ساتھ شہریوں خاص طور پر معروف سیاست دانوں، فنکاروں اور دانشوروں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کا رجحان بڑھ گیا۔ یکے بعد دیگرے بہت سے نامور شہریوں کے بارے میں سکینڈل سامنے آئے۔ ناگزیر طور پر مخالفین نے قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ ان قوانین کی افادیت پر سوالات پیدا ہوئے۔ بالآخر برطانوی حکومت نے لارڈ وولفنڈن کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا جس نے گہرے غور و خوض کے بعد 4 ستمبر 1957ء کو اپنی رپورٹ (Wolfenden Report) پیش کی۔

وولفنڈن کمیشن کی رپورٹ کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ”قانون کا اصل مقصد امن و امان قائم رکھنا نیز عام شہری کو دوسرے افراد کے ہاتھوں نقصان، استحصال یا بدعنوانی سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ہماری رائے میں قانون کا کام شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت کرنا یا معاشرتی طرزِ عمل کا کوئی خاص نمونہ نافذ کرنا نہیں ہے۔

The law’s function is to preserve public order and decency, to protect the citizen from what is offensive or injurious, and to provide sufficient safeguards against exploitation and corruption of others … It is not, in our view, the function of the law to intervene in the private life of citizens, or to seek to enforce any particular pattern of behaviour.

 باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3