ہم جنسیت جرم نہیں


محترمہ نادرہ مہرنواز ہم سب کے لئے مستقل لکھنے والوں میں سنجیدہ، حقائق پر مبنی اور مدلل مصنفہ کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ چالیس برس قبل ناروے منتقل ہونے سے پہلے کراچی میں ایک باوقار خاتون صحافی کے طور پر اپنی شناخت رکھتی تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے انہیں تجویز دی کہ اہل پاکستان کو ناروے کی تاریخ، سیاست، معیشت اور معاشرت سے متعارف کروانے کے لئے مضامین کا ایک سلسلہ شروع کریں۔ ناروے انسانی ترقی کی درجہ بندی میں دنیا بھر کے 189 ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔ ناروے میں فی کس سالانہ آمدنی 68 ہزار ڈالر ہے (پاکستان میں فی کس آمدنی 1360 ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ) ناروے کی کل آبادی 53 لاکھ ہے جس میں پاکستانی نژاد تارکین وطن کی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ ہے۔ ناروے میں آباد پاکستانیوں کی بڑی تعداد کھاریاں اور گجرات سے تعلق رکھتی ہے۔ ناروے میں مقیم پاکستانی شہریوں کو قانون پسند، دیانت دار اور محنتی کمیونٹی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ میری اس تجویز کا مقصد یہ تھا کہ ”ہم سب“ کے اردو قارئین ایک ایسے ترقی یافتہ ملک کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں جہاں ان کے اپنے ہم وطنوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔ نیز یہ کہ انہیں ایک ترقی یافتہ ملک میں سیاست، معیشت اور معاشرت کا باہم تعلق سمجھ آ سکے۔

محترمہ نادرہ مہرنواز نے ناروے کی تاریخ اور سیاسی بندوبست پر چند مضامیں لکھنے کے بعد 24 فروری کو ”ناروے میں گے، لیزبین اور ٹرانس جینڈر افراد کیسے رہتے ہیں؟“ کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون لکھا۔ اس مضمون میں ناروے کے متعلقہ قوانین اور معاشرتی ارتقا کی ایک معروضی تصویر پیش کی گئی تھی۔ مصنفہ نے زیر بحث موضوع پر کہیں بھی اپنی ذاتی رائے نہیں دی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جہاں پڑھنے والوں کی بڑی تعداد نے اس تحریر کی پذیرائی کی، وہاں کچھ پڑھنے والوں نے اپنے تبصروں میں نہایت ناشائستہ زبان استعمال کی، بزرگ مصنفہ پر ذاتی حملے کیے اور اپنی موضوعی رائے کی روشنی میں اخلاقی فتوے جاری کیے۔ ”ہم سب“ اظہار کی آزادی، رواداری اور روشن خیال اقدار کے فروغ کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامیں کی بڑی تعداد سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی اور تمدنی موضوعات پر مبنی ہوتی ہے۔ ادارہ اپنی بیان کردہ اقدار سے اختلافی آرا کی اشاعت میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

مدیر نے محترمہ نادرہ مہرنواز کی دل آزاری کے ردعمل میں ضروری سمجھا کہ قانون، تاریخ اور ادب کا ایک طالب علم ہونے کے ناتے ہم جنسیت کے اہم موضوع پر اپنے ذاتی خیالات پر مبنی ایک تحریر شائع کرے۔ واضح رہے کہ ادارہ ”ہم سب“ کے دیگر ارکان کا اس تحریر کے مندرجات سے اتفاق لازم نہیں۔ نیز یہ کہ ان خیالات سے اختلافی نقطہ نظر رکھنے والی تحریریں بڑی تعداد میں ”ہم سب“ پر شائع ہو چکی ہیں۔

*** ***

بھارتی سپریم کورٹ نے 6 ستمبر 2018 کو اپنا 2013 کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے ہم جنس پرستی کو جرائم کی فہرست سے نکال دیا اور کہا کہ ”جنسی رجحان کی بنیاد پر کسی قسم کا تعصب برتنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے“۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے اور ناانصافی سے بچنے اور امتیاز سے جان چھڑانے کے لئے اس کی عملی تفہیم کی جانی ہو گی۔ سماجی اخلاقیات کو بنیاد بنا کر کسی ایک بھی فرد کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی ہے۔ برطانوی راج کے دور کے سیکشن 377 کے تحت ہم جنسی پرستی کو ”غیر فطری“ قرار دے کر اس پر دس سال قید کی سزا دی جاتی تھی۔ عوامی جمہوریہ چین نے 1997 میں ہم جنس پرستی کو جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔ انڈیا کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ایشیائی باشندوں کی اکثریت کے لئے ہم جنس پرستی ایک جرم نہیں رہی۔ تاہم بھارت سمیت براعظم ایشیا میں ہم جنس پرستوں کے خلاف مار پیٹ، جنسی حملے، بلیک میلنگ، بدمعاشی اور استحصال کے واقعات عام ہیں۔

 2 جولائی 2009ء کو ہندوستان میں دہلی ہائی کورٹ نے ایک اہم قانونی مقدمے ناز فاؤنڈیشن بنام دہلی سرکار میں فیصلے سناتے ہوئے ہم جنسوں کے درمیان تعلقات کو جائز قرار دے دیا تھا۔ بھارتی عدالت کے اس فیصلے سے ہندوستان کے لاکھوں ہم جنس پرستوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی تاہم ملک کی تقریباً تمام مذہبی تنظیموں نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 11 دسمبر 2013 کو دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے 2 فروری 2016 کو قانون تعزیرات ہند کی دفعہ 377 پر تفصیلی سماعت کے لئے چیف جسٹس دیپک مسرا کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بنچ قائم کر دیا۔ اس بنچ نے بالآخر 6 ستمبر 2018 کو دفعہ 377 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بھارت میں ہم جنسیت کو جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا۔

2018 کے ابتدائی مہینوں میں سماعت کے دوران بھارتی عدالت نے کہا تھا کہ عوام کا کوئی حلقہ یا کچھ لوگ صرف اس وجہ سے خوف میں زندگی نہیں گزار سکتے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق رہنا چاہتے ہیں۔ نہ ان کی پسند قانون کی حدود کو پار سکتی ہے اور نہ قانون، آئین کی شق 21 کےتحت انھیں حاصل اختیارات کو سلب کرسکتا ہے۔ قبل ازیں گذشتہ برس اگست میں بھی سپریم کورٹ نے ’پرائیویسی‘ کے سوال پر فیصلہ دیا تھا کہ ’سیکس کے معاملے میں پسند ناپسند لوگوں کا نجی معاملہ ہے۔۔۔

اس معاملے پر بھارتی حکومت کا ردعمل کسی قدر محتاط رہا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون تعزیرات ہند کی دفعہ 377، جس کے تحت ہم جنسوں کے درمیان جنسی فعل ایک قابل سزا جرم ہے ، آئین کے منافی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ دفعہ 377 سے فرد کی انفرادی آزادی مجروح ہو تی ہے جو کہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے چنانچہ دو بالغ ہم جنسوں میں اپنی مرضی سے جنسی تعلق جرم نہیں ہے۔ البتہ عدالت نے زبردستی جنسی فعل یا 18 برس سے کم عمر بچوں سے جنسی فعل پر دفعہ 377 کے اطلاق کو برقرار رکھا۔

قانون تعزیرات ہند کی دفعہ 377 ایک سو اکسٹھ برس پرانا ایک قانون ہے جس کے تحت صرف مرد اور عورت کے درمیان روایتی جنسی تعلق ہی کو جائز جنسی فعل مانا گیا ہے۔ جب کہ دیگر تمام طریقوں کو نہ صرف غیر فطری قرار دیا گیا ہے بلکہ انہیں غیرقانونی اور قابل سزا فعل کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ ہم جنسیت کی پرچارک اور حقوق انسانی کی تنظیمیں ایک عرصے سے بھارتی حکومت سے یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ وہ دفعہ 377 کو ختم کر دے۔ ان کی دلیل تھی کہ ہم جنسیت سماج کی ایک حقیقت ہے اور اسے بدلتے ہوئے علمی، تمدنی اور ثقافتی حالات میں قانونی طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔

جنوبی ایشیا میں بھارت پہلا ملک تھا جہاں ہم جنسیت کو مجرمانہ فعل کی بجائے معمول کی انسانی سرگرمی قرار دیا گیا۔ البتہ چین 1997 میں ہی اس معاملے پر قانون سازی کر چکا تھا۔ اس سے خطے میں سری لنکا ، نیپال، بنگلہ دیش اور پاکستان میں قانون، سماجی رویوں اور اجتماعی مکالمے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خالص قانونی نتائج کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں جن اقدار، قانونی نظائر اور معاشرتی نصب العین سے استخراج کیا ہے وہ جنوبی ایشیا میں ایک نئے سماجی منظر کے رونما ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔ عدالت نے 1946ء میں آل انڈیا کانگرس کی طرف سے قرارداد مقاصد پیش کیے جانے کے موقع پر پنڈت نہرو کی تقریر سے استنباط کیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آزاد بھارت کے بانیوں کا آدرش ایک ایسا بھارت تھا جہاں تمام شہریوں کو آزادیوں اور حقوق سے مستفید ہونے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔عدالت نے رائے دی ہے کہ قانون تعزیرات ہند کی دفعہ 377 شہریوں کے مابین جنسی ترجیحات کی بنا پر امتیازی سلوک کے مترادف ہے چنانچہ یہ قانون بھارتی آئین کی دفعات 14 ، 15 اور 21 میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3