عاطف میاں کا معاشی منصوبہ سامنے آ گیا


عمران خان کے اقتصادی مشاورتی کونسل کے لئے منتخب کردہ ممبر عاطف میاں نے اپنا اقتصادی منصوبہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے…

پاکستان کے یوم آزادی پر اس بات کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ آخر کیوں پاکستان اب تک معاشی طور پر آزاد نہیں ہوسکا؟

میں پچھلے پانچ برس کی معاشی پالیسیوں کو بطور مثال لے کر اس پر اپنے تجزیے کے ذریعے دکھاتا ہوں کہ ماضی میں کیسی پالیسیاں اختیار کی گئیں جو نقصان دہ ثابت ہوئیں۔

معاشی ترقی کا مکمل انحصار کسی بھی ملک کی مقامی پیداوار کی نمو پر ہوتا ہے۔ سب سے اہم امر یہ ہے کہ افراد اور اداروں کی بہترب پر سرمایہ کاری کی جائے۔

مگر پاکستان کی حکومت نے ہمیشہ ترقی کے لئے دوسرے ممالک کی جانب دیکھا ہے۔ میں اسے درآمد شدہ ترقی کہوں گا جو ہمیشہ ناکام ہوتی ہے۔

یہ نظریہ کہ دوسرے ممالک کو ملکی ترقی کی ذمہ داری سونپی جائے اور وہ آپ کے ملک کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کریں، یا آپ کے ملک کے ادارے تعمیر کریں اور ہم پھر معجزات کا انتظار کریں کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتا۔

اس رویے کی حالیہ مثال 2013 میں شروع ہوئی جب مسلم لیگ ن حکومت میں آئی اور اس نے پاکستان کی ترقی کا ٹھیکا چین کو دے دیا۔ میں ان پانچ برسوں کی معاشی پالیسیوں کو بطور ثبوت پیش کروں گا کہ آخر کیوں ایسی پالیسیاں ناکام ہوتی ہیں۔

پاکستان کی حکومت نے چین کے ذریعے سی پیک کے انفراسٹرکچر کے پراجیکٹس کو فنڈ کیا جس سے پاکستان کا قرضہ 62 ارب ڈالر سے بڑھ کر 90 ارب ڈالر تک چلا گیا۔ اتنی بڑی مقدار میں بیرونی قرضہ لینے سے مقامی طلب میں مصنوعی اضافہ ہوگیا جس سے مہنگائی بڑھی اور پاکستان کی برآمدی لاگت میں اضافہ ہوگیا۔

معاشی طور پر مشہور ’ڈچ بیماری‘ اسے ہی کہتے ہیں۔ پاکستان بھی اس کا شدت سے شکار ہوگیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی حقیقی شرح تبادلہ یا پیداواری لاگت دوسرے مسابقتی ممالک سے 20 فیصد بڑھ گئی مگر پاکستان کی برآمداد میں پچھلے پانچ برس میں کوئی بھی اضافہ نہ ہوسکا۔

معاملات تب مزید بگڑ گئے جب پاکستان کے وزیر خزانہ نے سٹیٹ بینک کی خود مختاری سلب کر کے روپے کی قیمت کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی شدید ناقص پالیسی اختیار کی۔ اب پاکستان کی ’ڈچ بیماری‘ سٹیرائڈز پر تھی چل رہی تھی۔

اسی دوران سی پیک پر کسی بھی قسم کے آزادانہ تجزئے پر مکمل پابندی رہی۔ آپ اس پر کوئی بھی سوال پوچھیں تو آپ کو قومی مفاد کے منافی سازش میں شریک متصور کیا جاتا۔

میڈیا اس جنون میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے اس منصوے کو ’گیم چینجر‘ بتاتا رہا جو راتوں رات پاکستان کی قسمت بدل دے گا۔

اس سے اور تو کچھ نہ ہوا بلکہ گوادر میں زمین کی مصنوعی طلب بڑھ گئی۔ جب کہ گوادر  ابھی تک محض ریتلا صحرا ہی ہے۔

اس زمین کی قیمتوں کی مصنوعی بڑھوتری سے ملک میں مقامی طلب مصنوعی طور پر بڑھ گئی اور شرح تبادلہ کی ناقص پالیسی کی وجہ سے پاکستان کی ’ڈچ بیماری‘ معیشت کی جڑوں میں بیٹھ گئی۔

یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ابھی ہم نے اس بات کا تجزیہ نہیں کیا کہ جو قرضہ ڈالر میں لیا گیا ہے پاکستان اسے واپس دینے کی پوزیشن میں ہے بھی کہ نہیں؟ معیشت کی تباہی تو اس کی واپسی سے پہلے ہی شروع ہوچکی ہے۔

تو اب قرضوں کی واپسی پر بات کرتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ ڈالر میں قرض لے رہے ہیں جب کہ تمام پراجیکٹس میں جو آمدن ہوگی وہ روپے میں ہوگی۔ جیسے کہ مقامی طور پر ٹرانسپورٹ یا انرجی کے منصوبوں سے ہونے والی آمدن۔

جو بڑی پریشانی ہے اس کی دو وجوہات ہیں۔

پہلی بات یہ ہے شرح مبادلہ اس سارے معاملے پر اثر انداز ہوگی۔ اگر مستقبل میں پاکستانی روپے کی قیمت کم ہوتی ہے، جو ناقص شرح مبادلہ کی پالیسی کا لازمی نتیجہ ہوگی، تو ایسے میں ان منصوبوں سے حاصل ہونے والا منافع کم یا ختم ہو جائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ملک کو وافر مقدار میں اضافی برآمدات پیدا کرنی ہوں گی ورنہ وہ ایکسپورٹ بڑھانے کی خاطر مزید غریب ہونے پر مجبور ہو جائے گا تاکہ پیسہ واپس کر پائے۔

قرضوں کی واپسی سے متعلق ایک اور بڑا سوال یہ ہے کہ سی پیک سے متعلق قرضوں کی شرائط کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ کیا ہو رہا ہے۔

مثال کے طور پر سی پیک کے سرمائے کی کیا قیمت ہے؟ ایک قرض لینے کے معاہدے میں تو لکھا ہوگا کہ وہ یہ محض دو فیصد آسان سود پر دیا جا رہا ہے۔ مگر کیا یہ صرف دو فیصد ہے؟

ان منصوبوں کے لئے کھلے عام بولی نہیں لگائی جاتی اور تمام کے تمام منصوبوں سے متعلق چینی کمپنیاں فیصلہ کرتی ہیں۔ وہ ہمیں تو 100 ڈالر چارج کرتے ہیں مگر کم قیمت ساز و سامان استعمال کرتے ہیں جو انہیں بس 80 ڈالر کا پڑتا ہے۔

جس سے اس سرمائے کی جو قیمت ہے وہ 27.5 فیصد تک پہنچ جاتی ہے کیوں کہ ہم نے تو دراصل 80 کا ہی مال لیا مگر ادا کئے 102 ڈالر۔

یہ بھی درست ہے کہ پاکستان اور چین ایک دوسرے سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر معاہدے سوچ سمجھ کر اور ملک کی جاری معاشی صورت حال کو دیکھ کر کرنے پڑتے ہیں۔ مگر افسوس ایسا بالکل بھی نہ کیا گیا۔

ہم اس بات کی تمنا رکھ سکتے ہیں کہ اس بار معاشی پالیسیوں میں دانائی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

یہ مضمون عاطف میاں کی ٹویٹس کے ایک سلسلے کا ترجمہ ہے جو “ہم سب”  نے کیا ہے۔

اسی بارے میں

عاطف میاں کا معاشی منصوبہ سامنے آ گیا

اقتصادی مشاورتی کونسل کے ایک تیسرے رکن نے بھی استعفی دے دیا

عاطف میاں کے بعد پروفیسر عاصم اعجاز خواجہ  نے بھی اقتصادی مشاورتی کونسل سے استعفیٰ دے دیا

عاطف میاں نے استعفی دینے کی وجوہات بتا دیں

عاطف میاں کو معاشی کونسل سے علیحدہ کرنے کے فیصلے کی اندرونی کہانی

جماعت احمدیہ نے عاطف میاں کے معاملے پر اپنا آفیشل موقف دے دیا

عمران خان نے عاطف میاں کا نام واپس لے لیا

عمران خان نے عاطف میاں کو اقتصادی کونسل سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے، ان کا نام اسد عمر نے شامل کیا: فرحان ورک

عاطف میاں کو اکنامک ایڈوائزری کونسل میں لگایا گیا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل میں نہیں: فواد چوہدری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments