ایک طوائف، ایک شرمیلا دولہا اور ایک ڈرائیور


’ساب، اگلے مہینے ہے۔ ویسے تو ماڑا موٹا جہیز میں نے بنا لیا ہے، پر بارات کے کھانے کے لیے پچاس ہزار چاہیے ہوں گے۔ “ مستقیم کو اُس کے لہجے سے لالچ کی باس آئی تو بے اعتنائی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
”تھوڑی بہت۔ جو بھی آپ مدد کر سکیں۔ دس پانچ یا دو تین ہزار۔ جتنی بھی۔ “
اتنے میں نجیب باہر آ گیا۔ اُس کے تن پر انڈرویئر کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بشیر کی بات ادھوری رہ گئی۔ نجیب نے آتے ہی مستقیم سے کہا۔

”چل آ۔ جا چلا جا، اندر۔ “
”اور تو؟ “ مستقیم منمنایا۔
”میں ہو آیا۔ “

بشیر کو جیسے کوئی کام یاد آ گیا ہو، وہ چپکے سے کھِسک لیا۔ مستقیم کو لگا ساری دُنیا اُس پر ہنسنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ کمرے میں نہ گیا، تو اُس کو نا مرد سمجھ لیا جائے گا۔
”تو ایسا کر، منیجر کے پاس جا کے بیٹھ۔ وہ تیرا واقف ہے، اُس کے ساتھ گپ شپ لگا۔ “
مستقیم نے نجیب کے سامنے تجویز رکھی، تو نجیب ہنس دیا۔
”ہاں ہاں! مجھے پتا ہے، تو شرما رہا ہے۔ میرے سامنے تجھے شرم آتی ہے۔ اچھا چل ٹھیک ہے، جا تو۔ “

نجیب کپڑے پہننے کمرے میں گیا، واپس آیا تو مستقیم کوندے کی طرح لپک کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ بستر پہ وہ الف ننگی بیٹھی اُسے تاڑ رہی تھی۔ مستقیم کی نظر اُس کی جانگھوں کے بیچ میں گئی، تو کھسیا کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
”نیا ہے، تو۔ لگتا ہے پہلی وار ہے، تیری؟ “

”گشتی۔ “ مستقیم نے من ہی من میں گالی بکی۔ کیسی گشتی ہے کہ جان لیا، میری پہلی بار ہے۔
”تمھیں شرم نہیں آتی؟ “
مستقیم نے سیدھا سوال داغ دیا۔
”ایسی ننگی بیٹھی ہو، بے شرموں کی طرح؟ “
”تو ننگا ہی کرے گا، ناں۔ تیری لیے آسانی ہے، کپڑے اُتارنے کا ٹیم بچے گا۔ چل آ جا۔ “

اُس کی یہ بات اُس پر ایسا اثر کر گئی، کہ وہ اُس کے سامنے بیڈ کی پٹی پر بیٹھ گیا۔ چور نظروں سے اُس کے پستان دیکھنے لگا۔ بڑے بڑے سیاہی مائل دو سرخ دھبے، اُن کے کناروں پر ذرا فاصلے فاصلے پر اُگے دو چار بال۔ بائیں پستان کے اُبھار پر سیاہی مائل گلابی رنگت کے دو ایسے ہلال جن کی نوکیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں۔
”یہ کیا ہے؟ “
”کاٹ لیا، کتے نے۔ “
”کتے نے؟ “

”ہاں! سالے حرامی نے یہاں دانت گاڑ دیے۔ ماں کا دودھ پینے کا شوق ہے، ناں۔ “
”کتنی گندی زبان ہے، تمھاری۔ تمیز سے بات نہیں کر سکتیں!؟ “
”کام ہی گندا ہے۔ اِس کام میں تمیز کیسی؟ اب دیکھو ناں، یہاں نشان ڈال دیا؛ کل کہیں اور دھندے پہ جاوں گی، تو گراہک (گاہک) نفرت کرے گا۔ تو تو نہیں کاٹے گا؟ “

مستقیم کو لگا، اس کو بھاگ جانا چاہیے، لیکن وہ بیٹھا رہا۔
”چل آ ناں۔ سوچ کیا رہا ہے!“
”نئیں۔ میں ٹھیک ہوں۔ بس بیٹھا رہن دے۔ “
”کیوں؟ شرم آ رہی ہے؟ چوری چوری دیکھتا ہے، سیدھا دیکھ ناں! کچھ ہو نئیں رہا تجھے؟ مرد بھی ہے، یا؟ “

”اپنا منہ بند رکھ۔ “ مستقیم نے سرزنشی لہجے میں کہا۔
”ہے تو شریف آدمی۔ میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔ کسی لڑکی سے بھی زیادہ شرماتا ہے، تو۔ “
”کچھ دیر خاموش نہیں رہ سکتیں؟ “ مستقیم کے لہجے میں جھنجلاہٹ نمایاں تھی۔

اسے اپنی نامردی کا طعنہ قبول نہ تھا۔ سچ بات یہ تھی، کہ آج وہ یہاں اِس لیے تھا، کہ اپنی مردانگی کا امتحان لے۔ کچھ ہفتوں بعد اُس کی شادی تھی، اور وہ دیکھنا چاہتا تھا، اُس میں کوئی کمی تو نہیں ہے۔
”میں سو جاؤں، کیا؟ “
”کیوں؟ پیسے دیے ہیں، ہم نے۔ “
پتا نہیں اُس کے منہ سے یہ کیسے نکل گیا۔

”ہاں! تو کر ناں پیسے پورے۔ آ جا! اِدھر دیکھ! میری طرف غور سے دیکھ۔ “
مستقیم اُسی حالت میں بیٹھا رہا۔
”اوئے چِکنے، دیکھ تو! پھر ہی تو کچھ ہو گا۔ دِکھا مجھے، تو مرد بھی ہے، یا نئیں!“
یہ کہتے اُس نے مستقیم کی پینٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
”خبردار! اُدھر بیٹھی رہ آرام سے۔ “

مستقیم کا جی متلانے لگا تھا۔ پتا نہیں اُس کی باتوں سے یا شراب کی بد ہضمی تھی۔ وہ اُٹھ کے غسل خانے کی طرف بڑھا۔ جاتے ہی معدہ خالی کر دیا۔ حلق سے کریہہ آوازوں کے ساتھ سب کھایا پیا باہر آ گیا۔ واش بیسن سے بد بو کا بھبھوکا اُٹھا، اُس نے نل کھول دیا۔ تھوڑی دیر صفائی میں لگ گئی۔ پلٹ کے کمرے میں آیا، تو وہ ٹانگیں پھیلائے سو رہی تھی۔ الف ننگی۔ مستقیم کو جیسے ہوش آنے لگا تھا۔ غور سے اُس کا بدن دیکھنے لگا۔ ٹانگوں کی بیچ کی لکیر سے اُوپر پیٹ کچھ اُبھرا اُبھرا تھا، اُس پر سلوٹیں تھیں، جو مستقیم کو ذرا نہ بھائیں۔ سیدھے لیٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے پستان اپنے ہی وزن سے دائیں بائیں لٹکے آرام کر رہے تھے۔ وہ لڑکی کا چہرہ بغور دیکھنے لگا، کچھ خاص نہ تھا۔ سب سے پہلا خیال جو دِل میں آیا، وہ یہ تھا کہ عورت کا بدن کتنا بد صورت ہوتا ہے۔ اُس کو پھر سے اُبکائی آنے لگی۔ کسی نہ کسی طرح اپنے طبیعت پر قابو پایا، وہ ایک بار پھر قے کرنے کی اذیت سے نہیں گزرنا چاہتا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔

”ابے کیا کر رہا ہے، کھول بھی۔ “ نجیب باہر سے پکار رہا تھا۔
مستقیم نے دیکھا کہ گشتی جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی ہے، اور مدد طلب نظروں سے اُسے دیکھ رہی ہے۔
”اِسے اندر مت آنے دینا۔ مادر چ۔ ہے۔ پھر نوچے گا، مجھے۔ “

بے اختیار مستقیم کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”انتظار کر! ابھی نئیں کھلنے والا۔ “ مستقیم نے وہیں کھڑے کھڑے جواب دیا۔
”کر کیا رہا ہے، تو اندر؟ اِتنی دیر؟ “ نجیب نے شکایتی لہجے میں پوچھا۔
”سالے! یہی تو مرد ہے۔ تیری طرح زنخنا نئیں، کہ چڑھا اور اُتر کے بھاگ گیا۔ کتے کی طرح۔ “

مستقیم حیرت سے اُس کو دیکھنے لگا، کہ یہ کیا چیز ہے۔ گشتی ہی سہی، لیکن تھوڑی بہت حیا تو ہو۔ کس بے باکی سے نجیب کو نیچا دکھا رہی ہے۔ نجیب بھی اُس کی آواز سن کے چپ سا رہ گیا۔ دوسرے مرد کے سامنے اپنی مردانگی کی توہین کم تو نہیں ہوتی۔
”کیا چیز ہو، تو!“ مستقیم قدرے شوخ لہجے میں مخاطب ہوا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran