ایک طوائف، ایک شرمیلا دولہا اور ایک ڈرائیور


”مستقیم، دروازہ کھول۔ اتنی دیر لگادی ہے، تو نے؟ “

مستقیم نے پتلون اُٹھا کر غسل خانے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”کھول دے دروازہ۔ “

”نہ! نہیں کھولنا۔ اِس ماں کے یار کو باہر ہی رہن دے۔ ابھی تو تیرے ساتھ مزہ لوں گی۔ “
اِس سے پہلے کہ مستقیم جواب میں کچھ کہتا، اُس نے دروازے کی طرف منہ کرتے آواز لگائی۔
”یہ کِس پوستی کو لے آیا ہے، یہ تو میری جان ہی نئیں چھوڑ رہا۔ “
یہ کَہ کر وہ خود ہی دبی دبی سی ہنسی ہنسنے لگی۔

بار بار کی دستک سن کے منیجر نجیب کے پاس چلا آیا۔
’سر، کچھ خیال کریں۔ دوسرے کمروں میں لوگ ڈسٹرب ہو رہے ہوں گے۔ شکایت کریں گے۔ پلیز!“
نجیب ہارے ہوئے جواری کی طرح منیجر کے ساتھ لوٹ گیا۔

مستقیم اپنے چہرے پہ سے شرمندگی کی میل دھو کر غسل خانے سے نکلا، تو وہ الف ننگی بیٹھی اُس کا انتظار کر رہی تھی۔
”تو کپڑے تو پہن لے، اب!“ مستقیم نے بیزاری کا اظہار کیا۔
”کیوں؟ تیرا نشہ اُتر گیا ہے؟ ہو گئی تیری ہوس پوری؟ بری لگنے لگی ہوں، اب میں؟ “
بات یہی تھی۔ مستقیم پر احساسِ گناہ کا غلبہ تھا۔

”دروازہ کھول دوں؟ بلا لیتا ہوں، نجیبے کو۔ وہ۔ تیری خواہش وہ پوری کر دے گا۔ “
”میری خواہش تو تو ہے۔ آ بیٹھ اِدھر۔ “ وہ محبوبانہ لہجے میں بولی۔
”تو نے ٹھیک کہا تھا۔ مجھے شادی سے پہلے کسی اور لڑکی سے سیکس نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بے ایمانی ہوگی۔ ‘

”اچھا؟ بڑی جلدی ایمان لے آیا تو؟ “ وہ زیرِلب مسکراتے ہوئے، مستقیم کا چہرہ پڑھ رہی تھی۔ ”آجا! کھا نئیں جاوں گی، تجھے۔ “
مستقیم شکست خوردہ سا بیٹھ گیا۔

”ایسا میں ہر کسی سے نئیں کرتی۔ “
پہلی بار اُس کے چہرے پر حیا کی لالی اُبھری۔
”میں تو لیٹی رہتی ہوں۔ بس بت بنی“۔
”کیا بکواس کر رہی ہے!“ مستقیم نے اسے ڈانٹ دیا۔

”تجھے مست کردیا ناں! میرا بھی دِل کر رہا تھا، تیرے ساتھ۔ پر کوئی بات نئیں خیر ہے۔ تھوڑی دیر میں پھر تیار ہو جائے گا، تو۔ “
”نئیں میں نئیں۔ اب نئیں۔ ایک ہی بار بہت ہے۔ “
”اچھا سن! یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ پریشانی کی بات نئیں ہے۔ پہلی بار سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اِدھر آ۔ جبھی ڈال کے سو جا میرے ساتھ۔ “

اپنی ناکامی کا احساس لے کے مستقیم کا دِل ٹوٹا ہوا تھا، اُس کی ملائم باتوں نے مستقیم کے دِل پر ایسا اثر کِیا کِہ وہ اُس کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا، جیسے ماں کی گود کا سہارا تھا۔
”نام کیا ہے، تیرا؟ “ مستقیم نے دھیرے سے پوچھا۔

”گشتی۔ “ وہ زیرِ لب بولی۔ مستقیم کے لبوں پر بے بسی کی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”بکواس نئیں کر۔ نام بتا۔ “
”کیا فیدہ؟ کیا کرے گا، نام کا۔ سب کو جھوٹے ہی نام بتاتی ہیں، ہم۔ “

”جھوٹا نام کیا ہے، تیرا؟ “
”ریما۔ “
مستقیم ہنس پڑا۔ ”یہ تو فلم والی کا نام ہے۔ “

”ہم ایسا ہی نام رکھتی ہیں۔ فلم والیوں کو دینے کے لیے سب کے پاس اتنا رُپیا نئیں ہوتا۔ ہر کوئی اُن کی۔ کچھ لوگ نقلی ریما کے ساتھ سو کے خوش ہو لیتے ہیں۔ “
”گشتی۔ “ مستقیم نے زیرِلب مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں! یہ ٹھیک ہے۔ یہی اصلی نام ہے، ہمارا۔ نام تو وہی ہوتا ہے جس سے لوگ پکاریں۔ نئیں؟ “

”چل! مذاق کر رہا ہوں۔ ایویں ناں، اُداس ہو۔ “
مستقیم نے اپنی ہتھیلی سے اُس کی چکنی ران سہلاتے ہوئے کہا۔ ریما نے جھک کے اپنے دانتوں سے اُس کی ٹھوڑی کو ہلکے سے کاٹ لیا۔ اُس کی تنی ہوئی چھاتیوں کو اپنے چہرے کے اتنا قریب پا کے، مستقیم نے ہیجان زدہ ہو کے اُنھیں اپنے منہ میں لے لیا۔ ایسے چوسنے لگا، جیسے ازلوں کا پیاسا تھا۔ جوش میں ریما کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگیں۔

نجیب کی شب بہت پریشاں گزری تھی۔ رات گئے بشیر ڈرائیور نے پھر اپنی بہن کی شادی کی بات چھیڑی تو نجیب نے اُسے بری طرح ڈانٹ دیا تھا۔
”تیری بہن کا ٹھیکا لیا ہے، ہم نے کیا؟ چل دوڑ۔ جا کسی اور کو ٹھگ۔ “

منیجر بھی وہیں کھڑا تھا، اُس نے بشیر کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کِیا کہ وہاں سے چلا جائے۔ بشیر کے جانے کے بعد نجیب بڑبڑایا۔
”یہ بہن چ۔ سمجھتے ہیں، پیسا درختوں پر اُگتا ہے۔ ایک وہ حرام زادہ ہے، کہ گشتی سے چمٹا ہوا ہے۔ “
منیجر کھسیانا سا ہنس دِیا۔ وہ کوئی متضاد تبصرہ کر کے اپنے مستقل گاہک کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔

فجر کی اذانیں ہوئیں تو ریما جانے کی تیاری میں تھی۔ نجیب کو رات بھر کا غصہ تھا، زبردستی اُسے گرا لیا، اور جانے سے پہلے اپنا ’انتقام‘ پورا کیا۔ مستقیم کمرے ہی میں تھا، بس اتنا دیکھا کہ ریما بے جان سی بستر پر پڑی اُسے دیکھ کے مسکرا رہی ہے، اور نجیب جنونی ہوا ہے۔ وہ جھٹ سے کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس کی نظر ایک طرف بیٹھے بشیر پہ گئی، جو نیند کے جھونکے میں تھا۔ سیگرٹ سلگاتا، چلتا ہوا اُس کے سر پر جا کھڑا ہوا۔ بشیر ہڑبڑا کے اٹھ کھڑا ہوا۔

”ایک مہینے بعد ہے، تمھاری بہن کی شادی؟ “ مستقیم نے یونھی بات شروع کی۔
”جی ساب۔ “ نجیب سے ڈانٹ پڑنے کے بعد وہ ڈرا ہوا تھا۔

”ہوں!‘ مستقیم نے اتنا ہی کہا، اور کھڑا سیگرٹ کے کش لیتا رہا۔ تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی، پھر بشیر سے پوچھا۔
”چلو گے میرے ساتھ؟ “
بشیر استفسارانہ نگاہوں سے دیکھنے لگا، تو مستقیم نے پہیلی کھولی۔
”یہ لڑکی۔ اِسے گھر چھوڑ کے آئیں گے۔ “

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran