ایک طوائف، ایک شرمیلا دولہا اور ایک ڈرائیور


”یہ تو خود چلی جاتی ہیں۔ رِشکے (رِکشے) میں بیٹھ جائے گی، باہر سے۔ “
”نہیں! میں اسے چھوڑ کے آنا چاہتا ہوں۔ “ مستقیم کے دِل میں پتا نہیں کیا تھا۔

”اچھا؟ جیسے آپ کی مرضی۔ “ بشیر حکم کا غلام تھا۔
مستقیم سوچ رہا تھا، کہ واپسی پر بشیر ڈرائیور کو دو تین ہزار تھمادے گا، کہ وہ اپنی بہن کی شادی کے لیے رکھ لے، لیکن اُس سے کہا نہیں۔

دونوں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ مستقیم کا جی ابھی تک بھرا نہیں تھا۔ ساتھ بیٹھے اپنے ہاتھ سے اُس کی رانیں سہلا رہا تھا۔
”چل بس بھی کردے۔ آج ہی تھوڑی ہے۔ “ اس نے مستقیم کے کان کے قریب سرگوشی کی۔

بشیر ڈرائیور بظاہر اُن سے بے نیاز سڑک پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اتنی صبح سڑک پہ اِکا دُکا گاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ کہیں کہیں میونسپل کمیٹی کے بھنگی سڑک پہ جھاڑو لگاتے دکھائی دیے۔ مستقیم نے جیب سے بٹوا نکالا، تو اس میں کل تین ہزار رکھے تھے۔ ارادہ تھا کہ یہ بشیر ڈرائیور کو دے گا، لیکن فوری ارادہ بدل گیا۔ ریما نے نوٹوں پر اک سرسری نظر ڈالی اور باہر دیکھنے لگی۔ مستقیم نے بٹوے سے سب نوٹ نکال لیے، اور اپنا بازو اس کی گردن کے گرد حمائل کر کے اُس کے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ وہ چونکی، کنکھیوں سے ڈرائیور کو دیکھا، لیکن مزاحمت نہیں کی۔ مستقیم نے نوٹ اُس کی انگیا میں رکھ کے اپنی انگلیوں سے نرم گرم جلد کو مسلا۔ وہ لال ہوتے منمنائی۔

”نہ کر۔ کیا سوچے گا، وہ۔ “
”تیرا انعام ہے، یہ۔ رکھ لے۔ “
”رکھ تو دیے ہیں۔ اب ہاتھ تو نکال۔ “
اُس نے ایسے کہا، جیسے یہ پروا نہ ہو، کہ مستقیم اُس کے گریبان سے ہاتھ نکالے یا نہ نکالے۔

”پھر ملے گی؟ “
”کب؟ “
”جب بلاوں گا!“

”آ جاوں گی۔ میر نمبر رکھ لے۔ اُسے دَلے کو مت کہنا، وہ اپنا کمیشن لیتا ہے۔ “
کار کچی آبادی میں داخل ہونے سے پہلے گندے نالے کے پاس پہنچی، تو وہ بولی۔
”بس یہیں روک دے۔ میں چلی جاوں گی، آگے خود۔ “

بشیر نے کار روک دی۔ مستقیم نے ماحول پر نظر کی۔ نالے پر چھوٹی سی پلیا بنی ہوئی تھی، اور نیچے نالے کے غلیظ پانی میں کچرے کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اُس نے اُترنے سے پہلے مستقیم کے گال پر اتنی تیزی سے بوسہ لیا کہ مستقیم کچھ سمجھ ہی نہ پایا کہ کیسے جواب دے۔ پھر اتنی ہی روانی سے ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالا، اور وہی تین ہزار کے نوٹ نکال کے بشیر ڈرائیور سے مخاطب ہوئی۔
”یہ لے! یہ رکھ لے۔ تیری بہن کی شادی ہے، ناں! میری طرف سے اُسے کچھ لے دینا۔ “

بشیر نے کسی پس و پیش کے بغیر وہ نوٹ تھام لیے۔ وہ شکریے کا موقع دیے بغیر کار کا دروازہ کھول کے پلیا کی طرف بڑھ گئی۔
”گشتی۔ “

مستقیم دل ہی دل میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا۔ ایک لمحے اسے یہ احساس ہوا کہ اُس کی دی گئی رقم کی توہین کی گئی ہے، لیکن یہ احساس زیادہ دیر نہ رہا۔ بل کہ اس کی جگہ اس احساس نے لے لی کہ ہم سے اچھی تو یہی ہے، جسے کسی غریب کا خیال ہے۔ بشیر ڈرائیور کو جیسے رات بھر کی کمائی وصول ہو گئی تھی، وہ کار موڑ رہا تھا، اور مستقیم غلیظ پانی پر بنی اس پلیا پر سے گشتی کو کولھے مٹکاتے ہوئے جاتے دیکھنے لگا۔ اِرد گرد کا سارا ماحول گندگی کا نمونہ پیش کر رہا تھا، لیکن مستقیم کو اُس ماحول میں وہ گشتی بڑی اُجلی دکھائی دے رہی تھی؛ ایسے ہی جیسے کیچڑ کے بیچ میں کنول تیر رہا ہو۔

 

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran