ایک طوائف، ایک شرمیلا دولہا اور ایک ڈرائیور


”کیوں؟ کچھ غلط کَہ دِیا؟ شادی پہ پانچ سو رُپیا سلامی دے کے، پوری دیگ کھا جانے والوں میں سے ہے، یہ تیرا یار۔ اس کی تو بھک نئیں مکنی، پوری رات میری ہڈیاں چچوڑے گا، کتورا۔ اچھا تو تو ہے، جو کھلی دیگ سامنے پڑی ہے، اور ہاتھ نئیں لگا رہا۔ “

”جب کہ اس دیگ کی قیمت میں نے ہی دی ہے۔ “ مستقیم چہکنے لگا۔
”وہ تو مجھے پتا ہے، یہ حرامی کسی نہ کسی کو گھیر لاتا ہے۔ تجھے بھی گھیر لایا۔ پہلی وار تھوڑی ملی ہوں، اِس سے۔ “
”اچھا؟ “

مستقیم کے لیے یہ کوئی خبر نہ تھی، کہ نجیب پہلے بھی آتا جاتا رہتا ہے۔ وہ نجیب کے منہ سے کئی ’کارنامے‘ سن چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ یہاں تھا۔ اُس کو پیسے خرچ کرنے کا غم بھی نہیں تھا۔ وہ تو اپنا ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا، کہ وہ اِس قابل ہے کہ عورت کو راضی رکھ سکے۔

”تو سوئی نئیں تھی، جھوٹ موٹ کی ایکٹنگ کر رہی تھی!؟ “
”ہاں! اس لیے کہ شاید تو ہمت پکڑے۔ پر تو تو۔ “

”سچ بتاوں؟ یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔ “
”کیوں؟ کیا مسئلہ ہے؟ “
’مسئلہ کچھ نہیں! بس! نئیں ہو گا۔ “

”گولی لے لیتا ناں۔ آج کل تو انڈیا کی گولی آ رہی ہے۔ سستی بھی ہے۔ اچھا ٹھیر! مجھے طریقہ آتا ہے، ایک دم لوہا کر دوں گی۔ “
وہ یہ کہتے، جھک کے اُس کی طرف بڑھی۔ جھکنے سے اُس کے بدن کے نقوش بدل کے کچھ سے کچھ اور طرح کے دکھائی دینے لگے۔ وہ جونھی مستقیم کے قریب آئی، مستقیم نے اُس کو سینے سے لگا کے بھینچ لیا۔ اُسے اپنے تن بدن میں بجلیاں سی دوڑتی محسوس ہوئیں۔ لبوں سے لب ملے تو مستقیم کی سانسوں میں بدبو کا بھبھوکا بھر گیا۔ یک دم سے اُسے پرے دھکیل دیا۔ وہ حیرت سے مستقیم کو دیکھنے لگی۔

”اب کیا ہوا؟ تو تو بڑا نخرے باز ہے۔ “
”بو آ رہی ہے، تیرے منہ سے۔ “
اُس کا منہ غیر یقینی انداز میں کھلے کا کھلا رہ گیا، پھر وہ ہنسنے لگی۔
”پہلی واری عورت کو اتنے قریب سے دیکھا ہے، ناں! عورت تو ہے ہی بَو کا گھر۔ “

مستقیم حیرت سے اُس کو تکنے لگا۔
”عورت نشہ ہے، چاہے اِس سے باس آتی ہو۔ “
”مجھ سے نہیں ہوگا۔ “ مستقیم نے اعتراف کیا۔
”مجھے پتا ہے۔ اِسی لیے تو کہا، لا آج میں تیری عزت لوٹ لوں۔ “

مستقیم کو پہلے تو سمجھ نہیں آیا، کہ اُس نے کہا کیا ہے، جب سمجھا تو اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ وہ بھی ہنسی میں شریک تھی۔
”شادی ہے، تیری؟ “
”ہوں؟ “

مستقیم چونکا، کہ اِسے کیسے خبر ہوئی۔ حرام زادے نجیب نے بتادیا ہوگا۔ وہ اِٹھلائی۔
”جب کسی مرد کی شادی ہوتی ہے، ناں؛ تو اُسے فکر لگی ہوتی ہے۔ پتا نئیں وہ سہاگ رات کو کچھ کر بھی سکے گا، یا نئیں۔ بس! اِسی لیے شادی سے پہلے کسی اور کے ساتھ سونا چاہتا ہے۔ تو بھی ویسا ہی ہے۔ “

”ہاں! تو؟ “ مستقیم رُوٹھ سا گیا۔
”تو یہ کہ مجھ سے شادی کرلے۔ “
”گشتی سے؟ “ مستقیم رہ نہ سکا۔

”گشتی ہوں، تو کیا ہوا؟ ایکس پَرَٹ ہوں۔ مزہ نہ آئے تو کہنا۔ “ گشتی نے بغیر برا مانے آنکھ ٹِکاتے ہوئے جواب دِیا۔
”پر میری شادی ایک شریف لڑکی سے ہو رہی ہے۔ گھریلو لڑکی ہے۔ “

”گھریلو تو میں بھی ہوں۔ شریف بھی ہوں۔ کسی کو دھوکا نئیں دِیا، چوری نئیں کی، کسی کا مال نئیں کھایا۔ حلال کر کے کھاتی ہوں۔ “ وہ اب مستقیم کو زِچ کرنے پر تلی تھی۔
”تو شریف ہے؟ “ مستقیم نے استہزائیہ لہجے میں پوچھا۔
”تو نئیں ہوں؟ “ اُس کی آنکھوں کی پتلیوں میں اُداسی کی ایک لہر آ کے گزر گئی۔

”پتا نئیں کس کس کے ساتھ سوئی ہوگی۔ “ مستقیم نے بھی چھیڑنے کے لیے کہا۔
”اب تو گنتی بھی یاد نہیں! اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تو مجھے اچھا لگا ہے۔ ایک بات تو بتا۔ “
وہ مستقیم سے جڑ کے بیٹھ گئی۔

”خون نہ نکلے تو عورت، عورت نئیں رہتی؟ یا شریف نئیں ہوتی؟ بول؟ “
مستقیم کے پاس کیا جواب ہو سکتا تھا۔
”مجھے کیا پتا!“

”تو آج میرے ساتھ سونے آیا ہے۔ کل اُس کے ساتھ سوئے گا، جس سے تیری شادی ہونی ہے۔ تو کیا تو شریف نئیں رہے گا؟ اور تو شریف نئیں رہے گا، تو کسی شریف لڑکی کے ساتھ کیوں سوئے گا؟ “

مستقیم اُس کا لیکچر سننے تو آیا نہیں تھا۔ اُسے یہی سمجھ آیا کہ اُس کا منہ بند کر دے۔ ایک بار پھر اُس کے ہونٹوں سے ہونٹ ملادیے۔ اس بار منہ کی باس کا احساس نہیں ہوا۔ ایسے ہی جیسے شراب کے دوسرے تیسرے پیگ پر اُس کی بو اپنا احساس کھو دیتی ہے۔ مستقیم میں تحریک پیدا ہو گئی تھی۔ وہ بھی پوری طرح ساتھ دے رہی تھی، جیسے کہ وہی اُس کا محبوب ہے۔ اُس نے مستقیم کو بستر پر گرایا اور اُس کی پتلون کا بٹن کھول کے نیچے سرکا دی۔ اس بار مستقیم نے مزاحمت نہ کی۔ پائنچہ اُتارتے ہی اُس نے مستقیم کے پیر کے انگوٹھے کو اپنے لبوں میں کس لیا۔ مستقیم کے پورے بدن میں ایک جھنجھناہٹ سی دوڑ گئی۔ لطف کی ایسی کیفیت میں تھا، کہ مچلے بغیر نہیں رہ پایا۔ وہ اُس کی پنڈلیوں پر زبان پھیرتی، ران تلک آئی تو مستقیم اپنی اِنتہا پر پہنچ گیا۔ اس کا قہقہہ مستقیم کی ندامت کو دو چند کر گیا۔ بے ساختہ مستقیم کے منہ سے نکلا۔
”سوری“۔

یہ سُننا تھا کہ وہ ہنستے ہنستے وہیں دُہری ہو گئی۔ مستقیم کی ساری مردانگی بستر کی چادر پر پھیلی اُس کا مذاق اُڑا رہی تھی۔ دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی۔
’ارے کیا چل ہا ہے، اندر؟ ‘
نجیب کی پھسپھسی سی آواز سنائی دی۔ مستقیم کو اپنی فکر پڑ گئی۔ بے تابی سے لجاجت کے سے انداز میں منمنایا۔
”اب اسے کچھ نہ بتانا، میں تجھے کچھ پیسے اور دوں گا۔ “
وہ اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔ نجیب سے انتظار نہیں ہورہا تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran