اسکول کی دہلیز پر ملاقات


جب میری نظر پہلی بار اس پر پڑی تو وہیں جم کررہ گئی تھی۔

بلا شبہ وہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ اسے دیکھ کر جو پہلا خیال مجھے آیا وہ یہی تھا کہ میں آدمی ہو کر ٹھٹک گیا ہوں پتہ نہیں عورتیں اسے دیکھ کر اپنے دل کیسے سنبھالتی ہوں گی۔

وہ اس جگہ سے جہاں میں موجود تھا کوئی آٹھ یا دس گز کے فاصلے پر راہداری کے دوسرے کنارے پر ریلنگ سے لگ کر کھڑا ہوا تھا۔ اس نے گہرے چاکلیٹی رنگ کی شلوار قمیض کے اوپر ہلکے بھورے رنگ کا دھسا لپیٹ رکھا تھا۔ پاوں میں کھیڑیاں تھیں۔ اس کے بشرے سے کسی قسم کی پریشانی کے آثار ہویدا نہ تھے۔ وہ کسی تن آور درخت کی طرح ایک بے نیازانہ سکون کے ساتھ کھڑا تھا۔ وقفے وقفے سے اس کا داہنا ہاتھ بلند ہو کر اس کے چہرے کے رو برو آتا۔ انگلیوں میں دبا ہوا سگرٹ اس کے لبوں تک پہنچتا۔ وہ ایک کش لگاتا دھویں کا ایک مرغولہ ہوا میں چھوڑتا اور پھر وہ سگرٹ والا ہاتھ اسی طرح سلو موشن میں نیچے آتا اورغائب ہو جاتا۔ اس کی آنکھوں پر ایک بہت نفیس نظر کا چشمہ لگا تھا۔ رنگ کھلتا ہوا گندمی اور نقوش بہت کٹیلے تھے۔ جسم سڈول قد لامبا ہاڑ چوڑا اور کاندھے مضبوط تھے۔ ذرا سی شیو بڑھی ہوئی تھی اور مونچھیں بھی تھوڑی آوارہ ہو رہی تھیں۔

پہلی نگاہ میں وہ نوجوان ایک رائل پرنس نظر آتا تھا جو کہیں اپنی راجدھانی کے دورے پر نکلا ہوا تھا۔

سوائے اس کے کہ وہ اس وقت کچہری میں کھڑا تھا۔ اس کے دائیں اور بائیں پولیس کے دو کانسٹیبل موجود تھے جن میں سے ایک کی توند سے وہ زنجیر بندھی ہوئی تھی کی جس کا دوسرا سرا اس نوجوان کے بائیں ہاتھ میں بندھی ہتھکڑی سے منسلک تھا۔ دوسرے پتلے لمبے کانسٹیبل کی بغل میں ایک فائل دبی تھی جسے پولیس کی زبان میں’مثل مقدمہ‘کہا جاتا ہے۔ مثل بردار کانسٹیبل کبھی اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا اور کبھی سامنے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت کے کمرے کی طرف۔ صبح کے آٹھ بجنے میں بس کچھ ہی دیر باقی تھی۔

اس خوبرو نوجوان کو تھوڑی دیر پہلے ہی میرے سامنے سے گذار کر لا یا گیا تھا اور تب سے ہی میری نظریں مسلسل اس کا طواف کر رہی تھیں۔ اپنے حلیے سے وہ ہرگز کوئی عادی مجرم معلوم نہ ہوتا تھا بلکہ کسی اعلی خاندان کا تعلیم یافتہ فرد لگتا تھا۔ پھر وہ زنجیروں میں کیوں جکڑا ہوا تھا۔ ؟ اس حسین صورت نے ایسا کیا کیا ہو گا کہ آج ملزم کی حیثییت سے یہاں موجود تھا؟ مجھے یقین ہے کہ یہ سوال میرے سمیت وہاں موجود ہراس شخص کے ذہن میں آیا ہو گا جس کی بھی نظر اس نوجوان پر پڑی ہو گی۔

لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں اس وقت ایسی پوزیشن میں نہ تھا کہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرسکتا۔ وجہ یہ کہ میں خود بھی اس وقت ایک ملزم کی حیثییت سے کچہری میں موجود تھا۔ پچھلے ایک سال سے مجھ پر ایک مقدمہ چل رہا تھا جس کی آج حتمی تاریخ تھی۔ میرا ذہن متوقع فیصلے کے دباؤ میں تھا۔ مجھ میں اور اس نوجوان میں فرق صرف اتنا تھا کہ میرے جرم کی نوعیت یا پھر شاید میری اعلی سماجی پوزیشن کا لحاظ رکھتے ہوئے مجھے ہتھکڑی نہیں لگائی گئی تھی۔ میں اس وقت کچہری کے طویل برآمدے میں زینے کے قریب نصب شدہ لکڑی کے اس بنچ پر بیٹھا تھا جس کی وارنش جا بجا اڑی ہوئی تھی اور دوسرے سرے سے ’آرم ریسٹ‘ بھی غائب تھی۔ مجھ سے پہلے اس بنچ پر بیٹھنے والے کئی لوگ کسی تیز دھار آلے کی مدد سے اس پر نقش و نگار بنانے کی ناکام کوشش کر چکے تھے۔ سرکاری وکیل اور اس کا جونیئر ذرا فاصلے پر کھڑے ہو کر مقدمے کی فائل کی جلدی جلدی ورق گردانی کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ دبی آواز میں کچھ تبادلہ خیالات بھی کر رہے تھے۔ بھاری بھرکم قانونی کتابوں کا بوجھ اٹھائے ان کامنحنی سا منشی قریب کھڑا ان کی گفتگو غور سے سن رہا تھا۔ میرے اپنے وکیل صاحب کا کہیں پتہ نہ تھا۔ میں نے کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا۔ عدالت کسی بھی لمحے شروع ہو سکتی تھی۔

کوئی نصف گھنٹہ پہلے جب مجھے یہاں لایا گیا تو کچہری ابھی سردیوں کی صبح کی دھند میں لپٹی نیم خوابی کے عالم میں تھی۔ آس پاس کوئی نظر نہ آتا تھا۔ میں دن کا پہلا ’ملزم‘ تھا اور کوئی دوسری پولیس پارٹی ابھی وہاں نہ پہنچی تھی۔ عدالت کے شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا اس لئے بیٹھ کر انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ سیاہ بند بوٹوں کے اندر موزوں کے باوجود میرے پیروں کی انگلیاں برف کی ڈلیاں بنی ہوئی تھیں۔ پچھلے ایک سال سے مجھے تقریبا ہر مہینے اسی عدالت میں لایا جاتا رہا تھا اس لئے کچہری کے دیوار و در یہاں کی آوازیں اور شکلیں اب مجھے زبانی یاد ہو چکی تھیں۔ یہاں بیٹھ کر سڑک کے دوسری طرف ڈی سی آفس کی تین منزلہ عمارت نظر آتی تھی جس پر ابھی تک مکمل خاموشی کا راج تھا۔ باہر کچہری روڈ پر وقفے وقفے سے تانگوں اورگھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سناٹے کو توڑتی رہتیں تھیں یا پھر ایک آدھ موٹر سائیکل یا کوئی رکشا پھٹپھٹاتا ہوا گزرجاتا۔ کبھی کوئی منی ٹرک بھی ہارن بجاتا ہوا چلا جاتا تھا۔ ایسے ٹرک عموما اس وقت قریبی دیہاتوں سے دودھ کے برتن لاد کے شہر میں لاتے ہیں۔ کچہری کی چار دیواری کے اندر اب اکا دکا خاکروب گرد اڑاتے نظر آ رہے تھے۔ برآمدے کی دوسری جانب سے ملگجے شلوار قمیض پر رنگین سویٹر اور چترالی ٹوپی پہنے ایک چوکیدار چابیوں کا بھاری گچھا چھنچھناتا ہوا نمودار ہوا اور بند کمروں کے تالے کھولنے لگا۔ سامنے ایک اور اہل کار بیرونی دیوار پر لگی رات سے روشن سرچ لائیٹس بند کر رہا تھا۔

کچہری میں جمع ہونے والے افراد کی تعداد اب تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ ذرا دیر پہلے کے اس ویرانے میں اب آوازیں اگ رہی تھیں جیسے یہ عمارت کوئی عظیم الجثہ مکھی تھی جس کی جسامت میں فی سیکنڈ اضافہ ہو رہا تھا اور ساتھ ہی اس کی بھنبھناہٹ بھی بلند تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اب کچہری کے صدر دروازے کی جانب سے آج کے ملزمان کو پولیس گاڑیوں سے اتار کر لایا جا رہا تھا۔ ملزمان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں جن کی جھن جھن کرتی زنجیریں پولیس والوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ ان میں کم عمر لڑکے بھی تھے جوان مرد بھی اور کھچڑی بالوں والے گرگ باراں دیدہ بھی۔ چہرے کے تاثرات سے عادی مجرم بھی تھے اور نووارد بھی۔ ان کے ساتھ ساتھ اور آگے پیچھے سرمئی وردیوں میں پولیس کے کارندے تھے۔ ان کے جلو میں بہت سے وکلا حضرات بھی کالے کوٹ پہنے اپنے اپنے منشیوں اور معاون وکلا کے ساتھ یکے بعد دیگرے احاطے میں داخل ہو رہے تھے۔ برآمدے میں اب نیلی وردیوں اور سرکاری سبز ٹوپیوں میں ملبوس عدالتی اہلکار بھی تیزی سے آ جا رہے تھے۔ ان کی بلند آوازیں ایک ناقابل فہم شور کی لہریں بن کر کانوں کے پردوں سے ٹکراتی تھیں۔ چادروں اور کھیسوں کی بکلیں مارے ہوئے آس پاس کے دیہاتوں سے ’تریخوں‘ پر آنے والے بہت سے پریشان چہرے بھی اس ہجوم میں شامل نظر آئے۔

اتنے میں جج صاحب کی عدالت سے آواز پڑ گئی۔ اس نوجوان نے جلدی سے اپنا سگرٹ ریلنگ کے پیچھے پھینکا اور موٹے پولیس اہلکار کے پیچھے چل پڑا۔ دوسرا لمبا تڑنگا کانسٹیبل ان دونوں کے عقب میں تھا اور چاروں جانب یوں نظر دوڑاتا ہوا جا رہا تھا گویا اسے کسی طرف سے حملے کا خطرہ تھا۔ میں ان تینوں کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے تک دیکھتا رہا۔ اتنے میں میرے وکیل صاحب بھی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے راہداری میں داخل ہوئے اور میری جانب بڑھے۔ ان کے پیچھے ان کی جونیئر وکیل جو ناٹے قد کی مگر ایک بہت صحتمند قسم کی خاتون تھی مقدمے کی فائلیں اور حوالہ جاتی کتابیں اٹھائے چلی آ رہی تھی۔ علیک سلیک کے بعد میرے وکیل صاحب نے بتایا کہ عدالت شروع ہو چکی ہے مگر کاز لسٹ میں ہمارا کیس نمبر پانچ پر ہے اس لئے اطمینان سے چلیں گے۔ پھر انہوں نے مخالف وکیل سے سلام دعا کی۔ چند منٹ کے وقفے سے ہمارا قافلہ بائیں جانب کے زینے سے اوپر کی منزل کی طرف روانہ ہو گیا جہاں احتساب عدالت نمبر2 میں مجھے ملزم کی حیثییت سے پیش ہونا تھا۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6