سیاہ حاشیے۔ فسادات پر منٹو کی مختصر کہانیاں


انتساب

اس آدمی کے نام
جس نے اپنی خونریزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔
”جب میں نے ایک بڑھیا کو مارا تو مجھے ایسا لگا مجھ سے قتل ہوگیا ہے۔ “

ساعتِ شیریں
اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مہاتما گاندھی کی موت پر اظہارِ مسرت کے لیے امرتسر، گوالیار اور بمبئی میں کئی جگہ لوگوں میں شیرینی بانٹی گئی۔


مزدوری

لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا، اس گرمی میں اضافہ ہوگیا جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔

ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اٹھائے خوش خوش گاتا جا رہا تھا۔ ”جب تم ہی گئے پردیس لگا کر ٹھیس او پیتم پیارا، دنیا میں کون ہمارا۔ “

ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈالے بھاگا جا رہا تھا، ٹھوکر لگی تو پاپڑوں کی ایک گڈی اس کی جھولی سے گر پڑی۔ لڑکا اسے اٹھانے کے لیے جھکا تو ایک آدمی نے، جس نے سر پر سلائی مشین اٹھائی ہوئی تھی، اس سے کہا۔ ”رہنے دے بیٹا رہنے دے۔ اپنے آپ بھن جائیں گے۔ “

بازار میں دھب سے ایک بھری ہوئی بوری گری۔ ایک شخص نے جلدی سے بڑھ کر اپنے چھرے سے اس کا پیٹ چاک کیا۔ ۔ ۔ آنتوں کی بجائے شکر، سفید سفید دانوں والی شکر ابل کر باہر نکل آئی۔ لوگ جمع ہوگئے اور اپنی جھولیاں بھرنے لگے۔ ایک آدمی کرتے کے بغیر تھا اس نے جلدی سے اپنا تہبند کھولا اور مٹھیاں بھر بھر اس میں ڈالنے لگا۔

”ہٹ جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہٹ جاؤ“۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک تانگہ تازہ تازہ روغن شدہ الماریوں سے لدا ہوا گزر گیا۔
اونچے مکان کی کھڑکی میں سے ململ کا تھان پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا۔ شعلے کی زبان نے ہولے سے اسے چاٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سڑک تک پہنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا۔

”پوں پوں۔ ۔ ۔ پوں پوں۔ “۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موٹر کے ہارن کی آواز کے ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں۔
لوہے کا ایک سیف دس پندرہ آدمیوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور لاٹھیوں کی مدد سے اس کو کھولنا شروع کیا۔

”گو اینڈ گیٹ۔ “ دودھ کے کئی ٹین دونوں ہاتھوں پر اٹھائے اپنی ٹھوڑی سے ان کو سہارا دیے ایک آدمی دکان سے باہر نکلا اور آہستہ آہستہ بازار میں چلنے لگا۔
بلند آواز آئی۔ ”آؤ آؤ لیمونیڈ کی بوتلیں پیو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گرمی کا موسم ہے۔ “ گلے میں موٹر کا ٹائر ڈالے ہوئے آدمی نے دو بوتلیں لیں اور شکریہ اداکیے بغیر چل دیا۔

ایک آواز آئی۔ ”کوئی آگ بجھانے والوں کو اطلاع دے دے۔ ۔ ۔ سارا مال جل جائے گا۔ “ کسی نے اس مفید مشورے کی طرف توجہ نہ دی۔
لوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح گرم رہا، اور اس گرمی میں چاروں طرف بھڑکنے والی آگ بدستور اضافہ کرتی رہی۔ بہت دیر کے بعد تڑ تڑ کی آواز آئی۔ گولیاں چلنے لگیں۔

پولیس کو بازار خالی نظر آیا۔ لیکن دور دھوئیں میں ملفوف موڑ کے پاس ایک آدمی کا سایہ دکھائی دیا۔ پولیس کے سپاہی سیٹیاں بجاتے اس کی طرف لپکے۔ ۔ ۔ سایہ تیزی سے دھوئیں کے اندر گھس گیا۔ پولیس کے سپاہی بھی اس کے تعاقب میں گئے۔

دھوئیں کا علاقہ ختم ہوا تو پولیس کے سپاہیوں نے دیکھا کہ ایک کشمیری مزدور پیٹھ پر وزنی بوری اٹھائے بھاگا چلا جا رہا ہے۔ سیٹیوں کے گلے خشک ہوگئے مگر وہ کشمیری مزدور نہ رکا۔ اس کی پیٹھ پر وزن تھا، معمولی وزن نہیں، ایک بھرئی ہوئی بوری تھی، لیکن وہ یوں دوڑ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کچھ ہے ہی نہیں۔

سپاہی ہانپنے لگے۔ ایک نے تنگ آکر پستول نکالا اور داغ دیا۔ گولی کشمیری مزدور کی پنڈلی میں لگی۔ بوری اس کی پیٹھ پر سے گر پڑی۔ گھبرا کر اس نے اپنے پیچھے آہستہ آہستہ بھاگتے ہوئے سپاہوں کو دیکھا۔ پنڈلی سے بہتے ہوئے خون کی طرف بھی اس نے غور کیا۔ لیکن ایک ہی جھٹکے سے بوری اٹھائی اور پیٹھ پر ڈال کر پھر بھاگنے لگا۔

سپاہیوں نے سوجا۔ ”جانے دو، جہنم میں جائے۔ “
ایک دم لنگڑاتا کشمیری مزدور لڑکھڑایا اور گر پڑا۔ بوری اس کے اوپر آرہی۔
سپاہوں نے اسے پکڑ لیا اور بوری سمیت لے گئے۔

راستے میں کشمیری مزدور نے بارہا کہا۔ ”حضرت آپ مجھے کیوں پکڑتی ہے۔ ۔ ۔ میں تو غریب آدمی ہوتی۔ ۔ ۔ چاول کی ایک بوری لیتی۔ ۔ ۔ گھر میں کھاتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ ناحق مجھے گولی مارتی۔ “ لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔

تھانے میں بھی کشمیری مزدور نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا۔
”حضرت، دوسرا لوگ بڑا بڑا مال اٹھاتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تو فقط ایک چاول کی بوری لیتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت، میں بہت غریب ہوتی۔ ہر روز بھات کھاتی۔ “

جب وہ تھک ہار گیا تو اس نے اپنی میلی ٹوپی سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور چاولوں کی بوری کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر تھانیدار کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہا۔ ”اچھا حضرت، تم بوری اپنے پاس رکھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنی مزدوری مانگتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چار آنے۔ “


تعاون

چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

دفعتاً اس بھیڑ کو چیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کر اس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا۔ ”بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے، بے شمار قیمتی سامان ہے۔ آؤ ہم سب مل کر اس پر قابض ہو جائیں اور مالِ غنیمت آپس میں بانٹ لیں۔ “

ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں، کئی مکے بھنچے اور بلند و بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔

چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا گروہ دبلے پتلے ادھیڑ عمر کے آدمی کی قیادت میں اس مکان کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا جس میں بے اندازہ دولت اور بے شمار قیمتی سامان تھا۔

مکان کے صدر دروازے کے پاس رک کر دبلا پتلا آدمی پھر بلوائیوں سے مخاطب ہوا۔ ”بھائیو، اس مکان میں جتنا مال بھی ہے سب تمھارا ہے، لیکن دیکھو چھینا جھپٹی نہیں کرنا۔ ۔ ۔ آپس میں نہیں لڑنا۔ ۔ ۔ آؤ۔ “

ایک چلایا۔ ”دروازے میں تالا ہے۔ “
دوسرے نے بآواز بلند کہا۔ ”توڑ دو۔ “
”توڑ دو۔ ۔ ۔ توڑ دو۔ “

ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں، کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔
دبلے پتلے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ توڑنے والوں کو روکا اور مسکرا کر کہا۔ ”بھائیو ٹھہرو۔ ۔ ۔ میں اسے چابی سے کھولتا ہوں۔ “

یہ کہہ کر اس نے جیب سے چابیوں کا گھچا نکالا اور ایک چابی منتخب کرکے تالے میں ڈالی اور اسے کھول دیا۔ شیشم کا بھاری بھر کم دروازہ ایک چیخ کے ساتھ وا ہوا تو ہجوم دیوانہ وار اندر داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔ دبلے پتلے آدمی نے ماتھے کا پسینہ اپنی آستین سے پونچھتے ہوئے کہا۔ ”بھائیو، آرام آرام سے، جو کچھ اس مکان میں ہے سب تمھارا ہے، پھر اس میں افراتفری کی کیا ضرورت ہے؟ “

فوراً ہی ہجوم میں ضبط پیدا ہوگیا۔ ایک ایک کرکے بلوائی مکان کے اندر داخل ہونے لگے، لیکن جونہی چیزوں کی لوٹ شروع ہوئی پھر دھاندلی مچ گئی۔ بڑی بے رحمی سے بلوائی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔

دبلے پتلے آدمی نے جب یہ منظر دیکھا تو بڑی دکھ بھری آواز میں لٹیروں سے کہا۔ ”بھائیو، آہستہ آہستہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نوچ کھسوٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تعاون سے کام لو۔ اگر کسی کے ہاتھ زیادہ قیمتی چیز آگئی ہے تو حاسد مت بنو، اتنا بڑا مکان ہے۔ اپنے لئے کوئی اور چیز ڈھونڈ لو، مگر ایسا کرتے ہوئے وحشی نہ بنو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مار دھاڑ کرو گے تو چیزیں ٹوٹ جائیں گی۔ اس میں نقصان تمھارا ہی ہے۔ “

لٹیروں میں ایک بار پھر نظم و ضبط پیدا ہوگیا۔ بھرا ہوا مکان آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔

دبلا پتلا آدمی وقتاً فوقتاً ہدایت دیتا رہا۔ ”دیکھو بھیا یہ ریڈیو ہے۔ ۔ ۔ آرام سے اٹھاؤ، ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔ یہ اس کے تار بھی ساتھ لیتے جاؤ۔ “

”تہہ کر لو بھائی۔ اسے تہہ کرلو، اخروٹ کی لکڑی کی تپائی ہے۔ ہاتھی دانت کی پچی کاری ہے، بڑی نازک ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں اب ٹھیک ہے۔ “

”نہیں نہیں، یہاں مت پیو، بہک جاؤ گے۔ اسے گھر لے جاؤ۔ “

”ٹھہرو، ٹھہرو، مجھے مین سوچ بند کرلینے دو، ایسا نہ ہو کرنٹ کا دھکا نہ لگ جائے۔ “

اتنے میں ایک کونے سے شور بلند ہوا۔ چار بلوائی ریشمی کپڑے کے ایک تھان پر چھینا جھپٹی کر رہے تھے۔ دبلا پتلا آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ملامت بھرے لہجے میں ان سے کہا۔ ”تم کتنے بے سمجھ ہو۔ چندی چندی ہوجائے گی ایسے قیمتی کپڑے کی۔ گھر میں سب چیزیں موجود ہیں۔ گز بھی ہوگا۔ تلاش کرو اور ماپ کر کپڑا آپس میں تقسیم کر لو۔ “

دفعتاً کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ”عف، عف، عف۔ “ اور چشم زدن میں ایک بہت بڑا گدی کتا ایک جست کے ساتھ اندر لپکا اور لپکتے ہی اس نے دو تین لٹیروں کو بھنبھوڑ دیا۔ دبلا پتلا آدمی چلایا۔ ”ٹائیگر، ٹائیگر۔ “

ٹائیگر جس کے خوفناک منہ میں ایک لٹیرے کا نچا ہوا گریبان تھا، دم ہلاتا ہوا دبلے پتلے آدمی کی طرف نگاہیں نیچی کیے قدم اٹھانے لگا۔

کتے کے آتے ہی سب لٹیرے بھاگ گئے تھے۔ صرف ایک باقی رہ گیا تھا جس کے گریبان کا ٹکڑا ٹائیگر کے منہ میں تھا۔ اس نے دبلے پتلے آدمی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ”کون ہو تم؟ “

دبلا پتلا آدمی مسکرایا۔ ”اس گھر کا مالک۔ ۔ ۔ دیکھو دیکھو تمھارے ہاتھ سے کانچ کا مرتبان گر رہا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4