حاصل لاحاصل : وہ لمحہ !


رونا محبت کا نہیں بلکہ Rejection کا تھا۔ کچھ لوگ پوری عمر خود پسندی میں گزاردیتے ہیں اورا پنے آپ کو اعلیٰ و ارفع اور دوسروں سے ممتاز تصورکرتے ہیں۔ اور اس زعم میں مبتلا رہتے ہیں کہ شاید وہ ہر لحاظ سے دنیا کے مکمل ترین انسان ہیں۔ مگر جب کوئی شخص، ان سے بظاہر کم تر، مگر بہت بہترشخص، ان کی رائے سے اختلاف، بے اعتنائی، معمولی قسم کی کوتاہی اورلا تعلقی کا اظہار کرے، حتیٰ کہ اگران کی بات کا صرف جواب بھی دے تووہ Offend ہوجاتے ہیں۔ ان کی انا اور خود سری کے زہریلے پھن کو جیسے کوئی پتھر مار کر زخمی سانپ کی طرح پہلے سے زیادہ زہریلا کردیتاہے۔ اور پھر انسان اس تعلق سے جلدی جان چھڑانے کے لیے مختلف حیلے بہانے اور نقائص تلاش کرتا ہے۔ خامیاں ڈھونڈتاہے۔ عیب اور برائیاں اکٹھی کرنے کی کوشش کرتاہے۔ ہونی انہونی میں اپنی سوچ کے بنائے ہوئے برائیوں اور بدیوں کے پہاڑ جمع کرتا اور پھر ان کو سوچ کر، ان کی بنیاد پر غلاظت اور گندگی کے کوہ ہائے ہمالیہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ نفرت کی وجہ تلاش کرسکے۔

اور ان سچی جھوٹی وجوہات پر اپنی محبت یا تعلق کے خلاف ایک بھرپورقلعہ تعمیر کرتاہے جس کے اندرخود کو محفوظ تصورکرکے اس کی صلیب پر چڑھ کر پھر اپنی سوچ کے تمام تیروں، اس کی اور کوکھینچنے والے تمام مقناطیسوں اور جگر کو پارہ پارہ کرنے والی تلواروں سے جنگ کرتا ہے۔ اور اگر ”یُدھ“ میں جیت جائے تو کسی اور، نئے تعلق کی تلاش میں چل نکلتا ہے ورنہ اس ”مہابھارت“ میں وہ اگلے مقابلے کی تیاری شروع کردیتا ہے۔ نفرت کو بنیاد بنا کر تعلق ختم کرنے اور فراموش کرنے میں ناکامی کے بعد وہ دوسری (Option) اختیار کرتا ہے اور اپنی بے وقعتی کا بدلہ لینے کی سعی کرتاہے۔ اگر خدا خوفی، اپنی کمزوری یا کسی دوسری وقتی سوچ کی بدولت بدلہ یا نقصان پہنچانے کا ارداہ ترک کرتا ہے تو پھر زور بازو یا ہر جائز و ناجائز طریقہ سے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ یہ بھی دراصل انتقام لینے کا ایک طریقہ ہوتاہے۔ کسی کواس کی مرضی کے خلاف صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے جھکنے پر مجبور اور سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرنا بھی دراصل انتقام کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔

اپنی ذات سے ہارنے کے بعد، انسان بدعاؤں کا سہارا لیتاہے۔ اپنی تسکین اور فطری برتری کو تسلی دینے کے لیے اس شخص کو بدعاؤں سے مارتاہے۔ جس کو وہ برسوں اپنی زندگی دینے کی دُعائیں کرتا رہاہے۔ مگرپوری شدت سے زبان سے نکلنے والی دعائیں بھی، بے اثر رہتی ہیں، کیونکہ ان کے ساتھ دل شامل نہیں ہوتا۔ شبانہ روز، وقت بے وقت بدعاؤں اور بنجر الفاظ کی صداؤں میں، ناکامی کے بعد، انسان بے بس ہوکر، اپنے جسم اور روح سے انتقام لیتاہے۔ اپنی سوچ اور حیثیت کے مطابق خود کو آزاردیتاہے اورتکلیف کی شدت سے سکون اوراستراحت ڈھونڈنے کی کوشش کرتاہے۔ جسم، عقل اور روح کی تمام ظاہری اورباطنی کوششوں اور دنیاداری کے تما م خداؤں سے مایوس ہوکر، حضرتِ انسان ایک دوراہے پر پہنچ جاتاہے۔ خدا یا خودکشی۔

اس جنگ میں، لاحاصل کو حاصل کرنے کی اس کشمکش میں، جب ناکامی حصے میں آتی ہے تو پھر صبر کے سب بند اور بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ انسان کی آنکھوں کے سمندر اُبل پڑتے ہیں۔ اس سیلاب ِبلاخیزکے سامنے پھر پورا جسم، عقل، شعور اور فہم و ادراک سب بے بس ہوکر ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ آنسو مسلسل گالوں پر موتی برساتے رہتے ہیں۔ سوتے، جاگتے، محفل، تنہائی، نمازسب میں آنسوؤں کی ارزانی اور فراوانی ہوتی ہے۔ ان کا کوئی وقت معیّن نہیں ہوتا، نہ ہی کسی راہداری اور اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس ٹوٹ پھوٹ میں جب آنسو، دل و خون جگر، آنکھوں کے راستے مسلسل اپنی اصل سے جدا ہورہے ہوتے ہیں۔ تو کب شہ رگ کٹی، کب پنکھے سے کپڑا باندھا، پاؤں کے نیچے ٹیبل رکھا اورجھول گئے، کہاں سے نیند کی گولیاں آئیں، کب مٹھی بھر گولیاں پھانکیں، کیسے کلائی پر بلیڈ مارے، کس طرح دوست سے پسٹل مانگا، چوری گھر میں لے کر آئے اور کنپٹی پر رکھ کر کسی کا تصور کیا اورٹھاہ کی آواز سے گھروالے بیدارہوئے مگر کمرے کی دیواروں پر چھوٹے چھوٹے خون کے لوتھڑوں اورادھ کھلی آنکھوں پر ایک ہی تصویر موجود پائی، نامکمل تصویر۔ !

تصورموت کو کتنا آسان کردیتا ہے یہ کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ انسان اس حدتک لاحاصل کے تصور میں، اپنے حاصل کو بھول کر اپنے اردگرد بہت سے محبت کرنے والوں کو یکسر فراموش کردیتا ہے! اس کو احساس ہی نہیں ہوتا اور وہ مدہوش ہو کر اپنی جان خداکے بجائے خدانما کے حوالے کردیتاہے! جس کو شاید خبر بھی نہیں ہوتی کہ کون کب تک سلگا، پگھلا، برسا اور ترسا۔ انسان جس کے لیے یہ سب کچھ کررہاہوتاہے و ہ ان سب سے بے خبر، اپنے لا حاصل کی اور آنکھیں ٹکائے اپنے ”سیاپے“ میں مصروف ہوتاہے۔ یہ ایک گھن چکر ہے یا گول چکر، جس میں ہم ایک دوسرے کے تصور میں نڈھال اور بدحال ہوئے جاتے ہیں۔ مگر اس سفر میں خال خال ہی کوئی خوشحال نظر آیا ہے۔ تاوقتیکہ وہ مجاز کی سرکنج اُتار کر حقیقت کی اوڑھنی اوڑھ لے۔ ہاں مگرکندن بننے کے لیے مجاز کے کشٹ کاٹ کر، اس بھٹی میں جل اور پگھل کر، اپنی آلائشیں جداکرکے ہی خالص ”من“ لے کر حقیقت تک پہنچا جاسکتاہے۔

وگرنہ اگر یہ منزل اتنی سہل ہو تو، ہر گلی موڑ پر ننگ دھڑنگ بابے، صفائی اور پاکی سے بے پروا سَنت، صوفی، سردی گرمی اور پوشاک سے ماورا درویش، عمر بھر درباروں کی سیٹرہیوں کا حصہ رہنے والے ملنگ، خانقا ہوں اور آستانوں کے جوتوں پر سرٹیکنے والے، زندگی کی لذتوں سے بے پروا بزرگ، یوں جا بجا پروانوں کی طرح بکھرے، ادھ جلے نظر نہ آتے۔ بلکہ ہرکوئی اللہ کے پہلو میں بیٹھ کر، اپنی اپنی تکمیل اپنے اپنے طریقے سے کررہا ہوتا۔ یہ انا اور خودسری سے شروع ہونے والا تعلق، انسان سے سب کچھ چھین کر انسان کو انسان کے تعلق سے ماورا کرکے، انسان والے کے تعلق میں مبتلا کردیتاہے، ہمیشہ سے ہمیشہ کا تعلق۔ ! جس کے بعد انسان کو کسی مادّی تعلق کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی حسن وعشق، نظر، زلف اور کمر کی طلب نہیں ہوتی۔ یہ تعلق زمان اور مکان کی قید سے آزاداور لازوال ہے!

میں بھی گوشت پوست کا انسان ہوں۔ سو میں نے بھی پہلے پہل سوچا کہ تم میرے قابل نہیں۔ تمھارا رنگ تھوڑا سا نولا ہے۔ قد بھی قدرے پست ہے۔ چھ فٹ سے دورتمھیں نظر کچھ نہیں آتا۔ علم و ادب سے تم نابلد ہو۔ بات کرنے کی تمھیں تمیزنہیں، منہ پھٹ اور بے صبری بھی ہو۔ لاتعلق اتنی ہو کہ مرتے کوپانی نہ پوچھو۔ خودپرست اتنی کہ آئینہ اور بناؤ سنگھار تمھیں خود سے آگے دیکھنے نہیں دیتا۔ مہین بن بازو کے کپڑے، جسم کے پیچ و تاب اور رنگ اور انگ کی نمائش ایسے جیسے دوسروں کی آنکھوں کی حرارت سے تمھاری سانس چلتی ہو۔ آرائش گیسو پہ ایک تنخواہ ہر ماہ چاہیے ہوگی۔ رات رات بھر SMS، وائبر اور سکائپ اور انسٹا گرام کی ٹوں ٹوں چلتی رہتی ہے۔ روزانہ نئے انداز، چہرے اور جسم کے مختلف زاویے، کیا، کہاں سے، کیسے، اورکس حدتک دکھانا ہے، اس سب کو سوچ کربنائی جانے والی تصاویر اور پھر فیس بک پر ہزاروں دیوانوں کیLikesاورپرلذت کمنٹس تمہارے لیے باعث تسکین بنتے ہیں۔

پارٹی میں ہر دفعہ نئے شخص کا ہاتھ پکڑ کر ڈانس کرنا۔ راتوں کو چھ چھ دوستوں سے گھنٹوں باتیں کرنا اور نت نئے دوستوں سے گلوریہ جینز، ہاٹ سپاٹ، میکڈونلڈیا گورمے گرل پر ملاقات کرنا اوران ملاقاتوں کی خاموش باتوں کا سوچ کر میں تم سے نفرت کا اظہار کرتاہوں۔ روز نت نئے زاویے سے تیری برائیوں میں اضافے کا بہانہ تلاش کرکے، ان سب کا ماتم بھی کرتاہوں۔ مگر پھر بے بس ہوجاتاہوں۔ چند لمحوں بعد بے بس ہوکر خود سے خود کی اس جنگ اور مکالمہ بازی اور سوال و جواب میں نڈھال اور بے حال ہوجاتاہوں۔ پھر مجھے ان سب سچائیوں کے باوجود یہ پریشانی لاحق ہوجاتی ہے کہ تم ایسی کیوں ہوتمھیں ایسا نہیں ہونا چائیے۔ تمھیں ان تمام برائیوں اور آلائشوں سے پاک ہونا چاہیے۔ ”پوتر“ اور پاکیزہ، معصوم اور مقدس۔ بھلا تم ایسا کیسے کرسکتی ہو۔ میں سب جانتے ہوئے بھی حقیقت کوجھٹلاتاہوں۔ پھر سوچتاہوں اور پھر جب پوری کوشش کے باوجود حقیقت اور افسانے میں ”Reconcile“ نہیں کرپاتاتو۔ !

بدلے کی آگ میں پہلے پہل میں سوچتا ہوں کہ میں بھی تمھاری طرح تم سے بے وفائی کروں۔ تمھاری نئی جان، محبت اور دوستوں کو تمھارے بارے میں سب کچھ بتادوں۔ سب۔ کچھ۔ ! صبح کے پہلے سلام اور کلام، دعائیہ بوسہ، پل پل کے SMS، سکائپ کی خاص اور عام ملاقاتیں، وائبر کی خوبصورت تصاویر، Inboxمیں محفوظ کیے ہوئے مخصوص پیغام اور تصاویر، برگر، آئس کریم، فاسٹ فوڈ پوائنٹ، کمر پر دائیں جانب کا تِل، ٹوٹتی سانسوں کی بے معنی گفتگوکے معانی اور وہ کہانی جو میری اور تمھاری ہے صرف میری اور تمھاری۔ ! مگر ہم دونوں ہی اسے نہیں جانتے!

ہاں کچھ اپنی سوچوں کی خام خیالی، افسانوں کے تڑکے اور نامکمل خوابوں کے چسکے بھی حقیقت کارنگ بھر کر اس انداز سے پیش کروں کہ سننے والا میری سادگی اور سچائی پر صاد اور تمھاری حرکات سے نفرت کرنا شروع کردے۔ میں گھٹیا ترین سوچ کے تما م گھٹیا ترین حربے استعمال کرنے کا پروگرام بناتا ہوں۔ پھر اس ارادے کو یہ سوچ کر ترک کردیتاہوں کہ ”ہرانسان ہر کام اپنے ظرف کے مطابق کرتاہے ہاتھ اور زبان سے اپنے ظرف کے مطابق کام لیتاہے۔ “ سو میراظرف اندرکی ایک طویل جنگ کے بعدمجھے اس نازیبا اور مکروہ حرکت سے باز رکھنے میں کامیاب ہوجاتاہے۔

مسلسل بے بسی، بے اختیاری اور ہیجان انگیزی سے تنگ آکر میں تم سے بدلہ لینے کا سوچتاہوں۔ مختلف کچے پکے، ادھ سوچے ہوئے، انجام سے بے پروا منصوبے بناتاہوں۔ تمھیں کالج جاتے ہوئے راستے سے کیسے اغوا کیا جاسکتاہے؟ تمھاری گاڑی پر فائرنگ کا بھی سوچتاہوں، تمھارے گھر کے دروازے پر فائرنگ کی جائے، کھڑکیوں کے شیشے توڑے جائیں تاکہ ٹوٹتے شیشے کی ہر کرچی کے ساتھ، تمھاری سسکی اور خوف زدہ چیخ کے ساتھ، میری انا کوتسکین پہنچے۔ میرے اندرکا ناگ تمھاری آہ و پکار کی بانسری سے مست ہوکرپرسکون ہو جائے اور تمھاری پریشانی اور رنج کے ساتھ ساتھ میرے اندرکی آگ ٹھنڈی ہونا شروع ہوجائے۔ جتنا تم زیادہ خوف زدہ اور پریشان ہو گی اتنا ہی مجھے اور میری انا کو تسکین پہنچے گی۔ کیونکہ تم میری محبت اور ضرورت ہو نہ ہو، مگر میری ”ضد“ ضرور ہو۔

”ضد“ ایک ایسی ہی صفت ہے جس پر ”اَ۔ ڑ“ کرانسان نہ صرف اپنی منزل کھو دیتاہے بلکہ اپنے اندر کے انسان کو آلودہ کرلیتاہے۔ یہ ایک ایسی راہ، ہٹ، اور پگڈنڈی ہے جس پر بعض لوگ ٹھوکر کھا کر خاک چومتے ہیں اور اپنے دانت تڑوا لیتے ہیں۔ بعض پاؤں کی انگلیاں زخمی کرکے چلنے سے ”اوازار“، بعض اس راہ کے کانٹوں سے زخمی پا ہوکر راستے میں بیٹھ کر اپنے زخموں سے کانٹوں کو چننے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اور منزل کا نشان گم کر دیتے ہیں۔ ضدکے اس پس منظر میں سوچے جانے والے سوال اور خیال سب ندامت سے شروع ہوکرندامت پر ختم ہوتے ہیں۔ البتہ اس کا احساس وقت گزرنے کے بعد ہوتاہے۔ یہ انسان کو اس حد تک اندھا کردیتی ہے کہ وہ اپنی ”سدھ بدھ“ سے ماورا صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے ہر حد پھلانگنے کو نہ صرف تیارہوتاہے بلکہ سب کچھ کر گزرنے کی کوشش بھی کرتاہے۔ اس کے سب مشورے اُلٹے اور سارے کا م ”پُٹھے“ ہوتے ہیں۔ ہٹ دھرمی اورضدانسان کے عقل و شعور کو ماؤف کرکے اُسے حیوان بنا دیتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik