حاصل لاحاصل : وہ لمحہ !


اس جدوجہد میں ہارنے کے بعد میں تمھارے لیے بددعائیں کرنے کا سوچتا ہوں۔ کہ تم نے مجھے اتنی تکلیف، رنج اور دکھ دیے ہیں توتمھاری زندگی میں بھی سکھ کبھی نہ آئے۔ جسے تم چاہو وہ بھی تم سے بے وفائی کرے، تمہارا سب کچھ چھین کر، تمہیں کھوکھلا کرکے، نوچ کر اور کھاکر بے رحمی سے بیچ منجدھار چھوڑدے اور تم عمر بھر اپنے لٹے ہوئے اور کھوئے ہوئے حصے کو حاصل کرنے کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتی پھرو، بے قرار رہو، چہرہ چہرہ ڈھونڈتی پھرومگرتمہاری آنکھو ں اور سانسوں کو تسکین کبھی میسر نہ آئے۔ تمہیں خود سے نفرت ہو جائے۔ اپنے جسم، سوچ، فہم اور احساس سے نفرت، اپنے افکارسے نفرت۔ تم بھی میری طرح جلتی رہو عمر بھر اپنا سب کچھ کھو کر بھی اپنے لاحاصل کو حاصل نہ کرنے کے غم میں لمحہ لمحہ مرتی رہو اور سکون کی متلاشی رہو۔ اسی تلاش میں۔ بھسم ہو کر کسی گلی کے کونے میں۔ مدہوش۔ ! مگر کیا کروں مجھے تو دعائیں نہیں آتیں بددُعائیں کہاں آئیں گی۔ میری دُ عامیں اثر ہوتا تو میں آج تمہارے ساتھ ہوتا۔ جب دُعا میں اثر نہیں تو پھر بددُعا ”چہ معنی دارد“۔

ہر انسان کی زندگی کے دکھ اور سکھ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرا اس میں اضافہ کرسکتاہے اور نہ کمی۔ ہاں ہم صرف ایک دوسرے کی اتنی مدد کرسکتے ہیں کہ جب کوئی پریشانی میں مبتلا ہو اس کو الفاظ کی تسلی اور سہارا دے دیں۔ باقی کاٹتا ہر کوئی اپنا اپنا ہی ہے۔ پریشانی میں محبت کے دو بول صدقہ کرنا بھی بڑے پن کی بات ہے اور یہ کام صرف بڑے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ وہی لوگ جن پر خداکی خاص عنایت، عطا اور رحمت ہوتی ہے۔ وگرنہ کسی کو دکھ میں دیکھ کر اکثر ہم یہی سوچتے ہیں کہ ”ہن پھسیاتے پتا لگیاں ناں“ چاہے ہمارا ان سے کوئی دورکا واسطہ بھی نہ ہو۔

دوسرے کو دکھ میں دیکھ کر ایک عجیب طمانیت اور نفسیاتی سکون سا میسر آتاہے۔ یہ ہماری غلاظت اورانسان بنانے والے سے دوری کی دلیل ہے کہ ہم انسان، تمام حیوانوں والے کام کرکے اپنے لیے مسرت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ حیوان، حیوانیت کے بجائے قناعت پر اکتفا کرکے راضی بہ رضا رہتے ہیں۔ انسان ہمیشہ دوسرے کے دکھ پر خوش اور سکھ پر پریشان اور بے چین رہتاہے۔ اللہ کے مقبول بندے دوسروں کے سکھ کے ساتھ سکھی اور تکلیف کے ساتھ تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور ہمیشہ خوشیوں میں اضافہ اور دکھوں میں کمی کا سامان کرکے خلق ِ خدا کو آرام پہنچاتے ہیں۔ اور اکثر دوسروں کے دکھ اپنے دامن میں چھپا کر راضی بہ رضارہتے ہیں۔ اللہ انسان کو مشکل میں تنہا نہیں چھوڑتا۔ اس لیے پریشانی میں جو بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہو وہ ”خدا“ ہے۔ اور خدائی اوصاف بھلا عام انسان میں کیسے آسکتے ہیں، دوسروں کے دکھ میں شامل ہونا سیکھئے اپنے دُکھ خود ہی سکھ بن جائیں گے۔

انسان کے لیے کوئی شخص اس وقت تک خاص ہوتاہے جب تک اس کا متبادل میسر نہیں آجاتا۔ سومیں نے تمہارامتبادل ڈھونڈنے کی کوشش کی، بہت کوشش کی کہ کوئی ایسا ملے جسے تم سا کہہ سکوں۔ یوں انتقامی کارروائی کے اگلے مرحلے میں، میں نے دیدہ ودانستہ بہت ساری محبتیں کرنے کی کوشش کی۔ جسم اور جسم کے اعضا سے محبتیں۔ تجھ سے نفرت کا اظہارمیں نے اپنی روح اور جسم کو بے اختیار کرکے کیا۔ اور اپنا سب کچھ ہر مانگنے والے، دیکھنے والے، چاہنے والے اور کھیلنے والے کے حوالے کردیا۔ مگر اس سے کیا حاصل ہوتا۔ تمہارا سب کچھ تمھارے پاس شایدبچایا نہیں مگر میرا سب کچھ لٹ گیا۔ بیچ بازارسب کچھ برباد ہوگیا۔ جسم کے زخم بھر جائیں گے، تارتاردامن سل جائے گا، پاؤں کے آبلے کئی بارہرے ہوئے مگر بھر جائیں گے۔ لیکن روح کے دکھ اور زخم آج بھی زندہ ہیں۔ جواب بھی مجھے تمہارے زندہ ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں اور مجھے مرنے دیتے ہیں نہ میری محبت کو۔ !

میں کوشش کے باوجود بھی تم سے انتقام نہ لے سکا۔ لیکن میں نے اپنی تنہائیوں، رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کوگلے لگا کر اپنے جسم، فکر اورسوچ سب کچھ کو بیچ چوراہے رکھ کر، خود سے انتقام لیاہے۔ خود کو آزار دیا ہے۔ اپنے روئیں روئیں کو رسوا کیا ہے۔ اپنی ذات کو جلا کر اس کی راکھ کو اڑایا ہے، شاید کوئی ذرہ تمہارے پاؤں کے ساتھ بھی اٹک جائے۔ شاید اس دھول میں سے کبھی اور کہیں، کوئی باس، کوئی خوشبو، کوئی پرانی مانوس مہک، تمہاری سانسوں کے ذریعے تیرے جسم کا حصہ بن جائے۔ حسرت اسی لیے حسرت ہوتی ہے کہ وہ پوری نہیں ہوسکتی، سوتمہارے پاؤں کی مٹی میرا نصیب اور مجھے نصیب کب ہوسکتی ہے۔ ۔ ذات کا انتقام تو ذات تک محدود رہ جاتاہے۔ حاصلِ ذات اس سے اکثر بے خبر رہتے ہیں۔ سوتم بھی بے خبر رہناوگرنہ زمانے کے رائج اصول اور کہاوتیں غلط ثابت ہوجائینگی۔ سوتم بھی مت آنا۔ لوٹ کے مت آنا۔ !

میں نے اُس ایک لمحے کو بھلانے کی پوری کوشش کی۔ غیرت کے طعنے، برائیوں اور بے حیائیوں کے ننگے الزام، بددُعاؤں، انتقام اور پھر خود سے انتقام لینے کی کوشش کی۔ جب میں اس کوشش میں ہار گیا، زبان اور الزام کے کنکروں اور پتھروں سے کچھ بھی نہ حاصل کرسکا تو صبرکے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ بے صبری لگ گئی۔ دنیا کے تمام خداؤں اور داناؤں سے جس حد تک ممکن تھا رابطہ کیا اور مشاورت کی، رویا، پاؤں پکڑے، جادوٹونے کرائے، ٹوٹکے کیے مگر سب کے سب بے سود۔ پُتلے بنانا، قبروں میں جاکر ہڈیاں دبانا، رنگدارسیاہی سے مختلف رنگ کے کاغذوں اور جانوروں کی کھالوں پر لکھے تعویذ، مختلف طریقوں سے پڑھے جانے والے منتر، بابوں اور عاملوں کی فیس، سب جتن کیے مگر کوئی عمل، عامل، موکل ”محبوب کو قدموں میں تو دور کی بات میرا سر اُس کے قدموں میں نہ لاسکا۔ “

ناکامی، مسلسل ناکامی۔ ! انسان کو بے بس کردیتی ہے اور نا اُمیدی موت کو گلے لگانے پر مجبور کردیتی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ دنیا کے تمام خداؤں کے پاس باری باری اپنی حاجت روائی کے لیے ضرور جاتاہے۔ مگر انسان جب بھی دنیا کے خداؤں سے تھک جاتا ہے، ناکام و نامراد ہو کر مایوسی کی طرف لوٹتا ہے تو پھر وہ دو کام کرتاہے۔ یا تو خودکشی یا کسی مسجد اور دربار کی سیڑھیوں پر زندگی بھر کا سفر۔ !

خودکشی کے لیے انسان کا نڈراور بہادرہونا ضروری ہے اورعشقِ رسوا یا سودا کی وجہ سے خودکشی کرنے والے شاید تصورمیں زندگی سے بہت آگے جاچکے ہوتے ہیں۔ سوان کو ادراک نہیں ہوتا اور خود پر اختیار نہیں ہوتا۔ وہ اپنے قول، فعل، حرکات و سکنات اورمعاملات سے بے پروا ہوتے ہیں۔ بس وہ ہوتے ہیں۔ ! شاید زندہ ہوتے ہیں یا۔ ! میں بزدل تھا۔ سومیں نے آسان راستہ چنا۔ مہینوں روزے رکھے، تہجد پڑھی، نمازپنجگانہ اداکی، داتادربارؒاور بی بی پاکدامنؒتما م منتیں مانیں، نوافل پڑھے۔

انسان ہمیشہ اللہ کے سامنے اس وقت ماتھا ٹیکتاہے جب بے بس ہو جاتا ہے۔ اور یہ اللہ کی کبریائی ہے کہ وہ پھر بھی، انسان کی تما م غلاظتیں، آلائشیں اورگندی ضرورتیں اور خواہشیں جانتے ہوئے بھی اس کو دھتکارتا نہیں۔ بلکہ اس کے لیے تسکین کا باعث بنتاہے۔ اگرانسان کو اپنی کرتوتوں کی وجہ سے دکھ اور تکلیف نہ پہنچے تو شاید وہ پوری زندگی اللہ کو یاد نہ کرے۔

میں نے صوم و صلوٰۃاور گھنٹوں سجدوں میں اللہ سے اس کو مانگا۔ اتنا شاید میں اللہ سے اللہ کو مانگ لیتا تووہ مجھے گلے لگا لیتا۔ مگرانسان اور رحمن میں اتنا ہی فرق ہے۔ انسان کبھی معاف نہیں کرتا، جبکہ رحمن قدم قدم پرمعافی نامہ لے کر کھڑا ہوتاہے۔ اگر انسان میں انسان کی سوچ پڑھنے کی اہلیت ہوتی تو یقینا قتل و غارت کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا اور بے صبرا انسان چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتلِ عام کرکے بھی نہ تھکتا۔ دنیا کی یہ ریل پیل ختم ہوجاتی۔ یہ صرف خداکریم کی رحمت ہے وگرنہ جتنی غلاظت کے بعد ہم سجدہ کرکے عارضی اور مطلبی دنیا کے حصول کے لیے اللہ سے مانگتے ہیں اور وہ صبر سے سب کچھ جانتے ہوئے بھی سنتا ہے اور قبول بھی کرتاہے، اگرانسان سے مانگتے تو وہ یقینا ٹھوکریں مار مار کرہماری پیشانی کوخون آلود کرکے، سنگسار ہی کردیتا۔ رحمن تو رحمن ہے! میرے تمام آلودہ خیالات، نفسانی خیالات، کسی کے پیکرورخسارکے تصورمیں اداہونے والے سجدے اور نماز کے باوجود اس نے مجھے ہمیشہ اپنی آغوش میں لے لیا۔ ہمیشہ سے ہمیشہ تک اور میرے دکھ میں شامل ِحال رہا۔ دُکھ انسان کی اور سکھ رحمن کی عطا ہے۔

کئی برس بیت گئے، اس ایک ملاقات کو ’اس ایک لمحے کو، ان پانچ فقرو ں اور دو کارڈوں کو، میں نے پوری کوشش کی، تمھیں حاصل کرنے، بھلانے اور پالینے کی، مگر شاید تم میرے نصیب میں نہیں تھیں یا تیرے نصیب کے لیے میں موزوں شخص نہیں تھا۔ مگراب، جب کہ میں قریب الموت ہوں، میری سانسیں اکثر اکھڑجاتی ہیں، الفاظ آپس میں گڈمڈ ہوجاتے ہیں، ہاتھوں میں رعشے کی وجہ سے گلاس ہونٹوں تک نہیں پہنچتا۔ آنکھوں میں تیرا عکس رہ گیا ہے، باقی سب نظارے مدھم اور بے جان ہوگئے ہیں۔ بس ایک سانس کی ڈوری چل رہی ہے، وہ بھی ایسے، جیسے کسی دور دراز پہاڑی علاقے کی کچی ناہموار سٹرک پر، پرانی گاڑی، جس کے کاربوریٹرمیں کچرا آجائے، تو وہ جھٹکے سے کبھی چل پڑتی ہے اور کبھی رک جاتی ہے، اپنی مرضی سے۔ ! سودیکھیں، باقی اعضاکی طرح یہ آکسیجن بنانے والا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کشید کرنے والا کارخانہ کب بند ہو۔ اوراس گورکھ دھندے سے کب میری جان چھوٹے۔ ! تاکہ میں خداسے جاکر تجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مانگ سکوں۔ ہمیشہ کے لیے۔ !

آج اُس سے بچھڑے ہوئے پچپن سال گزرگئے۔ ! خیر ملے ہی کب تھے جوبچھڑتے! مگر شہرکی ہرسڑک، چوک، مے خانہ، کوٹھا اور آستانہ، پیر، فقیر، بزرگ اور دیوانہ سب مجھے جانتے ہیں۔ مگرمیں صرف تمھیں جانتاہوں۔ تمھیں، صرف تمھیں۔ ! (یہ کہتے ہی خان افسر کی گردن ڈھلک گئی۔ ) میں ادھ کھلی آنکھیں بند کرکے ان کے رشتہ داروں کو اطلاع کرنے کی نیت سے، یہ سوچتاہوا چل نکلا کہ ”انہوں نے زندگی میں سب کچھ ہونے کے باوجود بھی دیوانوں کی طرح ساری زندگی بسر کردی، صرف اس کے لیے جس کے ساتھ شاید ان کا ساتھ صرف پندرہ منٹ کا تھا۔ ! ۔ “

انسان لاحاصل کو حاصل کرنے کی کوشش میں حاصل کو بھی گنوا بیٹھتاہے اور پھر نہ حاصل رہتاہے اور نہ لاحاصل۔

کتاب حاصل لاحاصل سے اقتباس۔ کتاب خریدنے کے لیے اس  لنک پر کلک کریں 

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik