The 25th Hour ۔ وجاہت مسعود کا فلمی تبصرہ بھی مسترد ہو گیا


رومانیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی کہانی ہے۔ جوہان مورٹز نامی ایک سادہ، محبت کرنے والے اور محنتی کسان کی کتھا ہے۔ ہنگری، بلغاریہ، یوکرائن اور بحر اسود میں گھرے رومانیہ کا محل وقوع ہی دوسری عالمی جنگ میں اس کا المیہ ٹھہرا۔ جنگ چمچماتی وردیاں پہن کر کاغذ پر بنے نقشوں پر چھڑی کے اشارے سے احکامات صادر کرنے والے جنرلوں کا کھیل نہیں، جنگ ان بدحواس کسانوں، تھکی ہوئی ماؤں، سہمی ہوئی لڑکیوں اور خوفزدہ بچوں کی روداد ہے جن کی کھیتی تاراج ہو جاتی ہے، جن کے گلی کوچے جل جاتے ہیں، جن کی طناب کٹ جاتی ہے، جن کا خیمہ اکھڑ جاتا ہے۔

جوہان مورٹز کا گاؤں بھی غلط جگہ واقع ہوا تھا کیونکہ اس کی بیوی سوزانہ خوبصورت تھی اور گاؤں میں پولیس کا چیف کانسٹیبل بدقماش تھا۔ قومی مفاد کے تقاضے پورے کرنے کے لئے لازم ٹھہرا کہ غیر ضروری پارسائی کی آڑ میں مزاحمت کرنے والی سوزانہ کے شوہر کو منظر سے ہٹا دیا جائے۔ پولیس کانسٹیبل کے لئے مسیحی جوہان مورٹز کو یہودی جیکب مورٹز قرار دے کر کنسٹریشن کیمپ میں بھیجنا کیا مشکل تھا؟ اس عقوبت خانے میں اذیتیں سہتا ہوا مورٹز چند یہودی قیدیوں کے ساتھ مل کر ہنگری فرار ہونے کا منصوبہ بناتا ہے۔ قسمت کی خرابی کہ فرار ہو کر حقیقی یہودی تو اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف نکل گئے۔ غریب مورٹز رومانیہ کا باشندہ ہونے کی بنا پر ہنگری کے قید خانے میں پہنچ گیا۔

نازی جرمنی ہنگری سے جبری مشقت کے لئے افرادی قوت کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اس جھمیلے میں مورٹز صاحب جرمنی پہنچا دیے گئے۔ جرمن عقوبت خانے میں نام نہاد آریہ نسل کا ایک ماہر قیدیوں کا معائنہ کرتا ہے اور حیران کن طور پہ مورٹز کو مکمل آریائی نسل قرار دیتے ہوئے گسٹاپو میں بھرتی کر لیتا ہے۔ اب مورٹز صاحب جرمن عقوبت خانے میں پہرے دار کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس دوران روسی فوجیں جرمنی کو شکست دے دیتی ہیں۔ مورٹز کانسٹریشن کیمپ کا اہل کار ہونے کی بنا پر روسیوں سے مار کھاتا ہے۔ گسٹاپو کے لیے کام کرتے ہوئے مورٹز کی تصویر بڑے بڑے اشتہاری پوسٹروں پر شائع کی گئی تھی۔ یہ پوسٹر امریکیوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ مورٹز انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں نیورمبرگ پہنچ جاتا ہے۔ مقدمے کی سماعت شروع ہوتی ہے تو جج قیدی سے پوچھتا ہے ’کیا تم جانتے ہو کہ آج اس کٹہرے میں کیوں کھڑے ہو؟‘ قیدی جواب دیتا ہے ’حضور یہ سوال تو آٹھ سال سے میں خود پوچھ رہا ہوں‘۔

انگریزی زبان میں گیارہویں گھنٹے کی ترکیب عام ہے۔ کوئی کام اس وقت کرنا جب مزید تاخیر کی گنجائش باقی نہ رہے۔ پچیسواں گھنٹہ کسی قدر کم معروف اصطلاح ہے۔ مطلب اس کا یہ کہ پانسہ پھینکا جا چکا ہے۔ وہ نشان عبور کر لیا گیا ہے جس کے بعد حالات و واقعات کسی کے اختیار میں نہیں رہیں گے۔ ایک بحران سے دوسرا بحران برآمد ہو گا۔ ایک الجھن کا در کھولیں گے تو ان دیکھی الجھنوں کی بہت سی کھڑکیاں کھل جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ہماری قومی تاریخ میں پچیسویں گھنٹے کا نشان کب گزرا ؟

اگست 1947 میں جب فرنٹئیر حکومت برطرف کی گئی؟ 1954 میں جب دستور ساز اسمبلی توڑی گئی۔ 1958ء میں جب ملک کا پہلا آئین توڑا گیا۔ 1972 میں جب بھٹو صاحب نے صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ اپریل 1979ء میں جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی؟ 1985 میں جب غیر جماعتی انتخابات کرائے گئے؟ دسمبر 2000 میں جب نواز شریف کو جلاوطن کیا گیا؟ دسمبر 2007ءمیں جب بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا؟ جولائی 2018ء میں جب تحریک انصاف بے حد شفاف انتخابی عمل کے نتیجے میں اقتدار تک پہنچی؟ میاں نواز شریف کو آمریت کا پروردہ قرار دیا جاتا ہے تو دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ ناموں کی فہرست سازی سے کیا حاصل؟ شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے۔ آمریت قوم کی ایسی جامع بے حرمتی ہے جس میں کسی ادارے کا وقار، کسی شہری کا کردار اور کسی اصول کی توقیر قائم نہیں رہتی۔

میاں نواز شریف یا آصف زرداری کا دفاع مقصود نہیں، کہنا صرف یہ ہے کہ تاریخ کی سوئیاں شاید ایک بار پھر پچیسویں گھنٹے پر آ کھڑی ہوئی ہیں۔ 2018ء میں ہم نے، صحیح یا غلط، جو بھی کیا، اگلے چند برس کی سیاسی تاریخ ان فیصلوں کے نتیجے میں مرتب ہو گی۔ ہمیں تین بڑے بحران درپیش ہیں۔ ہماری معیشت کا حال اچھا نہیں۔ ہر معیشت اتار چڑھاؤ سے گزرتی ہے، ہمارا روگ یہ ہے کہ ہم معاشی بحران کی مبادیات کو سمجھنے ہی سے انکاری ہیں۔ اگر بحران کی تشخیص ہی سے گریز ہو گا تو حالات میں بہتری آنا مشکل ہو گی۔

ہمارا دوسرا چیلنج سیاسی بندوبست سے تعلق رکھتا ہے۔ ملک کا آئین قائم ہے اور رو بہ عمل بھی ہے۔ لیکن ہم نے حرف دستور کے ساتھ ایسی کھلواڑ کی ہے کہ آئینی بندوبست غالب کے لفظوں میں موئے آتش دیدہ بن چکا۔ عصائے سلیمان جسے دیمک نے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت کو منتخب ہوئے چند ماہ ہی گزرے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ دستور، وفاق اور پارلیمینٹ اس حکومت کی ترجیحات میں دور دور تک موجود نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پیچیدہ ہے۔ اسے کسی حکم کی مدد سے تابع فرمان نہیں کیا جا سکتا۔ کمزور پارلیمانی اکثریت سے قائم ہونے والی حکومت اپنی تحدیدات سمجھنے کی بجائے تمکنت کی پہاڑی پہ جا بیٹھی ہے۔ اس سے آئندہ سیاسی عمل کی راہیں کھوٹی ہوں گی۔

ہمارا تیسرا بڑا بحران خارجہ پالیسی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے اخبارات کی سرخیوں پہ ایک نظر ڈالنے سے قوم کے اعتماد کا حال معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ہر دوسری خبر میں مژدہ سنایا جاتا ہے کہ یہ خبر پڑھنے سے آپ کے دل خوش ہو جائیں گے۔ گویا صحافی انار کلی سے باہر فٹ پاتھ پر کپڑا بچھائے بیٹھا ہے۔ فال نکالنے والے طوطے کے سامنے صرف مثبت خبر دینے والے پتے رکھے ہیں۔ صحافی کا طوطا جس پتے پر بھی چونچ رکھے، خوش خبری کی نوید ملتی ہے۔ لیکن اس خوشی کی مدت صرف اتنی ہے کہ نجومی کے سامنے سے ہٹتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کم بخت نے بھی جیب ہی کاٹی ہے۔ شاہ محمود قریشی خطے کے چار ملکوں کا دورہ کر کے واپس وطن پہنچ چکے ہیں۔

آج کل قومی منظر پہ شاہ محمود قریشی صاحب کی آواز زیادہ سنائی نہیں دے رہی۔ وجہ یہ کہ قوم کو درپیش تینوں مشکلات کا بار اسد عمر ، شاہ محمود قریشی اور اسد قیصر کے کندھوں پر آن پڑا ہے۔ جو لوگ اس مشکل کی گرہ کشائی میں مدد دے سکتے تھے، ان میں سے کچھ قید میں ہیں اور کچھ قید ہونے والے ہیں، باقی کے گلے میں ففتھ جنریشن وار کا طوق لٹکا دیا گیا ہے۔ یہ پچیسواں گھنٹہ ہے۔

یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ 1967ءمیں بننے والی فلم دی ٹوئنٹی ففتھ آور (The 25th Hour) میں مورٹز کا کردار انتھونی کوئن (Anthony Quinn) نے ادا کیا تھا۔ پولیس کانسٹیبل کا کردار ادا کرنے والے کا نام اب کوئی نہیں جانتا۔ پانسہ پھینکنے والوں، فال نکالنے والوں، بھرتی کرنے والوں اور فیصلہ سنانے والوں کو تاریخ یاد نہیں رکھتی۔ یہ لوگ جس المیے کی بنیاد رکھتے ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).