ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے گلاب اور دہشت کا مذبح خانہ


گھر سے باہر کی زندگی کا سب سے دلچسپ کردار میرا سرکاری ڈرائیور نواز تھا۔ بیس بائیس برس کا پتلا لمبا اور سانولا لڑکا جو ہر وقت ذرا جھینپا سا رہتا تھا۔ اس کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو اس کے کان تھے جو اس کے چہرے کے تناسب سے غیر معمولی طور پر بڑے اور باہر کو نکلے ہوئے تھے۔  اسے پہلی بار ملنے والے کے لئے اپنی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ شاید اسے بھی اس بات کا ادراک تھا جبھی وہ تھوڑا شرمندہ شرمندہ سا رہتا تھا۔

لیکن میں نے جلد ہی اندازہ کر لیا کہ لڑکا بہت اچھا ہے۔  سیدھا بھولا اور تابعدار۔ اور ڈرائیور بھی اچھا تھا۔ میری پسند کے عین مطابق گاڑی ذرا تیز چلاتا تھا۔ لہذا میں نے ڈرائیوروں کے پول میں سے اسے ہی اپنی گاڑی چلانے پر مقرر کیا۔ وہ اس انتخاب پر پھولے نہیں سماتا تھا اور سراپا تشکر تھا۔ اس نے دفتری اوقات کے بعد بھی ڈیوٹی کرنے میں کبھی نخرے نہیں دکھائے۔  شروع میں اس کے ساتھ زبان کا تھوڑا مسئلہ ہوا لیکن پھر کچھ میں نے سیکھ لیا اور کچھ اس نے سمجھ لیا تو گفتگو میں آسانی ہو گئی۔

میری تعیناتی کے پہلے دو مہینوں کے اندر ہی اس نے سرکاری جیپ میں مجھے پورے ضلع کا مکمل اور تفصیلی دورہ کروا دیا اور یوں میں نے اپنے پیشہ ورانہ امور کے حوالے سے اس علاقے کے بارے میں بیش بہا معلومات اکٹھی کر لیں۔  یہی نہیں بلکہ وہ کئی بار مجھے اور رعنا کو قریب سے گزرتے ہوئے شیر دریا تک بھی لے گیا جس کے کنارے ہم نے کئی حسین ترین شامیں گذاریں۔

وہ گرمیوں ایک شام تھی اور چھٹی کا دن۔ ایسے صحرا نما علاقوں میں دن شدید گرم لیکن شامیں ٹھنڈی اور پرسکون ہوتی ہیں۔  میں چیلسی میں کرسی میز لگائے اپنے پسندیدہ مصنف کی کتاب ہاتھ میں لئے محو مطالعہ تھا۔ رعنا کسی کام سے گھر کے اندر گئی ہوئی تھی جب میں نے مین گیٹ سے دو لوگوں کو اندر آتے دیکھا۔ ان میں سے ایک تو نواز تھا اور دوسرے شخص کو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ جب وہ ذرا قریب آئے تو میں نے دوسرے شخص کو بغور دیکھا۔ اس کی شکل نواز سے کافی مشابہت رکھتی تھی۔ نواز کی طرح وہ بھی طویل قامت اور سانولا تھا لیکن نواز کے برعکس وہ ایک لحیم شحیم آدمی تھا۔ نواز کلین شیو تھا جب کہ اس کی گھنیری مونچھیں تھیں۔  بہرحال یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ نواز کا ہی بھائی تھا۔

وہ دونوں میرے قریب آ کر با ادب اور خاموش کھڑے ہو گئے۔

میں نے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور سوالیہ انداز میں نواز سے پوچھا۔

 ’ہاں بھئی نواز؟ ‘

نواز جھجھکتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھا اور قدرے جھک کر لجاجت بھرے لہجے میں اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا

 ’ ساب۔ یہ ہمارا بڑا بھائی اے۔  ریاض محمد‘

 ’ اچھا آآ۔ ‘ میں نے گھمبیر لہجے میں کہا اور ریاض محمد پر ایک بھرپور نظر ڈالی۔ اس کے بشرے پر اس کی حاجت پوری طرح نقش تھی۔

 ’ ساب۔ اسے کوئی نوکری دلا دو ساب۔ ‘ نواز نے کہنا شروع کیا۔  ’یہ بھی اماری طرح ڈرائیور اے۔  ایک سیٹھ کی گاڑی چلاتا تھا اودر کراچی میں۔  سیٹھ باہر ملک چلا گیا تو اس کی نوکری خلاص ہو گئی۔ بچارا بوت پریشان اے۔  چھوٹا چھوٹا بچہ اے اس کا۔ ‘

 ’ ہوں۔  تو یہ بات ہے، ‘ میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔  ’دیکھو نواز۔ سرکاری نوکری ملنی تو بہت مشکل ہے۔  سر کار نے پابندی لگا رکھی ہے۔  لیکن میں کسی پرائیویٹ جگہ پر کہہ دوں گا تمہارے بھائی کے لئے۔  آگے اس کا نصیب۔ ‘

 ’ ساب آپ کچھ کرو نا۔ ‘ نواز آبدیدہ ہو گیا اور ہاتھ جوڑ دیے۔  ریاض کی آنکھیں بھی ڈبڈبا گئیں۔  ’ساب آپ ہمارے مائی باپ ہو آپ سب کچھ کر سکتے ہو۔ ‘

 ’ بھئی کہا نا کوشش کرتے ہیں۔ ‘ میں نے ذرا سخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا۔  ’اب جاؤ تم دونوں۔  کچھ ہو گا تو تمہیں پتہ چل جائے گا۔ ‘

وہ دونوں سلام کر کے الٹے قدموں مڑنا ہی چاہتے تھے کہ رعنا باغ میں داخل ہوئی۔ وہ اپنے گیلے ہاتھوں کو کپڑے سے پونچھتی ہوئی چلی آ رہی تھی۔ اس کے پیچھے ملازمہ چائے اور دیگر لوازمات کی ٹرے ا ٹھائے ہوئے نمودار ہو رہی تھی۔

 ’ بیگم ساب سلام‘ نواز نے ماتھے تک ہاتھ لے جا کر رعنا کو سلام کیا۔ ریاض نے اس کی تقلید کی۔

 ’ و علیکم السلام‘ رعنا نے کہا ’کیسے ہو بھئی نواز؟ اس کی نظریں استفہامیہ انداز میں پہلے ریاض اور پھر میری طرف اٹھیں تو میں نے چند جملوں میں سارا ماجرا بیان کر دیا۔ رعنا میری بات سن کر کچھ دیر تک ایک گہری سوچ میں رہی پھر گویا ہوئی۔ ‘ دیکھو نواز تمہارے بھائی کی نوکری کا بندو بست ہونے میں تو کچھ شاید وقت لگ جائے۔  اگر تمہارا بھائی چاہے تو ہمارے پاس مالی کا کام کر سکتا ہے اس وقت تک۔ اس طرح اسے کچھ پیسے مل جائیں گے۔  ’مجھے رعنا کی تجویز مناسب لگی۔

 ’ پر بیگم ساب۔ ام تو ڈرائیور اے تو مالی کا کام کیسے۔ ‘ ریاض پہلی بار گویا ہوا۔ اس کے کھردرے مضبوط جثے کے مقابلے میں اس کی آواز خاصی ملائم اور با ادب تھی۔

 ’ اس کی فکر نہ کرو۔ رعنا نے کہا۔ ‘ فتح تم کو سب سکھا دے گا۔ تم چاہو تو کل سے آ جاؤ کام پر۔  ’

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7