ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے گلاب اور دہشت کا مذبح خانہ


پہلے جب کبھی میں شہر کے دورے پر نکلتا تو گلی کوچوں میں رونق نظر آتی تھی۔ کھیل کے میدان میں نوجوانوں نے فٹ بال کے پڑ جمائے ہوتے تھے۔  بازاروں میں لوگ اشیائے ضرورت کی خریدای میں مصروف رہتے تھے۔  خصوصا کھجور کی دکانوں پر کافی گاہک ہوتے تھے۔  قہوے کے ڈھابے ہمیشہ آباد نظر آتے۔  مرکزی بازار کے خاتمے پر جہاں سڑک ڈی۔ سی ہاوس کی طرف مڑتی تھی ایک پرانے پیڑ کے نیچے علاقے کا مخصوص ’منج‘ پڑا ہوتا تھا جہاں لوگ شام کو چوپال لگاتے تھے اور گپ کرتے تھے۔

ساتھ ہی ان کے اونٹ اور گھوڑے بھی بندھے ہوتے تھے۔  اب جو میں نکلتا تو شام سے پہلے بازار ویران ہو چکا ہوتا۔ دکاندار بیٹھے گاہکوں کی راہ دیکھ رہے ہوتے۔  قہوہ خانوں کی رونقیں ماند پڑ چکی تھیں۔  کھیل کے میدان مغرب سے پہلے خالی ہو جاتے تھے۔  منج پر لگنے والی چوپال بکھر چکی تھی۔ ہر کوئی شام سے پہلے پہلے خود کو گھر کی محفوظ پناہ گاہ میں قید کر لینا چاہتا تھا۔

خوف کے یہ مہیب سائے ملک کے شمال اور شمال مغرب سے اٹھے تھے اور دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے تھے۔  ہمارے پڑوس میں واقع ایک چھوٹے ملک میں ایک عالمی طاقت ایک نا مختتم جنگ لڑنے میں مصروف تھی۔ اربوں ڈالر پھونک دینے اور ہزار ہا معصوم جانوں کو تلف کرنے بعد وہ طاقت اب اپنی تزویراتی مجبوریوں کے باعث اس جنگ کو ہمارے ملک کے اندر دھکیل رہی تھی۔ اور ہم سب ٹک ٹک دیدم دم نا کشیدم کی زندہ مثال بنے یہ سب تماشا دیکھنے پر مجبور تھے۔

میری یاد داشت کے مطابق پہلا بڑا بم دھماکا شمال کے ایک انتہائی دور افتادہ دیہاتی مقام پر ہوا تھا کہ جس کا نام بھی عوام کی اکثریت نے محض ریڈیو اور ٹی وی پر سنا تھا۔ کچھ دن کے بعد پھر ایک دھماکا ہوا۔ اس بار پہلی جگہ سے کچھ دور ایک شہری آبادی میں۔  اور پھر صوبائی دارالحکومت کی باری آگئی۔ ہم یہاں بیٹھ کر یہ خبریں سنتے اور آپس میں اظہار تشویش و افسوس کرتے رہتے تھے لیکن دل کے اس جھوٹے اطمینان کے ساتھ کہ یہ واقعات تو ہم سے بہت دور ہوئے تھے اس لیے ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا۔

اور پھر ہمارے صوبے کے دارالحکومت کے ایک مصروف ترین مقام کو نشانہ بنایا گیا۔ مرنے والوں کی تعداد کئی درجن بتائی گئی تھی اور زخمی اور شدید زخمی اس پر مستزاد تھے۔  چیف سیکرٹری صاحب نے صوبائی سیکرٹریٹ میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں صوبے بھر کے ضلعی انتظامی افسر شامل ہوئے۔  صدارت وزیر اعلی صاحب نے کی۔ پہلا انکشاف جس نے ہمیں دہلا دیا تھا وہ یہ تھا کہ پریس کو شہید اور زخمی ہونے والوں اصل تعداد نہیں بتائی گئی تھی جو کہ اخباری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ تھی۔

اس اجلاس میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اعلی افسران نے خاصا طویل ’دماغی طوفان‘ برپا کیا۔ کئی منصوبے پیش گئے۔  بہت سی تجاویز منظور ہوئیں اور موقع پر احکامات جاری کیے گئے۔  اور یوں اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان منصوبوں کی ابھی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ صوبے کے ایک اور بڑے شہر کو نشانہ بنایا گیا۔ حسب روایت اصل نقصان کو گھٹا کر پیش کرنے کی ہدایات فوری موصول ہو گئیں۔  لیکن اخباروں میں چھپنے والی کچھ تصویریں اصل احوال بتا رہی تھیں۔  خون آلود زمین اورتباہ شدہ عمارت کے ملبے کے ڈھیر میں البتہ گذشتہ اجلاس کے منصوبوں کی دھجیاں کسی کو دکھائی نہ دیں۔

جیسا کہ خدشہ تھا یہ سلسلہ رکا نہیں اور ایک کے بعد ایک شہر اور بستی نامعلوم خود کش بمباروں کی کارروائیوں کا نشانہ بنتی رہی۔ معصوم جانیں ضائع ہوتی رہیں، ہنستے بستے خاندان اجڑتے رہے، ماں باپ بے سہارا اور بچے یتیم ہوتے رہے۔  ادھر سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے اعلی سطحی اجلاس بھی برابر جاری رہے، سیاسی رہنماؤں کی طرف سے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے بھی کیے جاتے رہے لیکن دہشت گردی کی کارروائیاں بھی برابر جاری رہیں۔  اخبارات اب صرف لہو میں ڈوبے لاشے اور ان پر بین کرتے اعزا اور اقربا کی کربناک تصویریں دکھانے پر مامور ہو گئے تھے۔

اور پھر میرے ضلع کی باری بھی آ گئی۔

اس روز جمعہ تھا اور میں نواحی علاقے میں لگنے والے سستے بازار کا دورہ کر رہا تھا۔ اے۔  سی اور مجسٹریٹ صاحبان میرے ساتھ ساتھ تھے۔  ضلع کے حاکم کو اپنے درمیان پا کر کئی لوگ خریداری بھول گئے اور اپنی اپنی شکایتوں کے ساتھ میرے گرد اکٹھے ہونے لگے۔  میں نے اے۔  سی صاحبان کو ان لوگوں کی شکایات سننے پر لگا دیا اور خود آگے بڑھ گیا۔ اتنے میں متصلہ مسجد سے جمعے کی اذان سنائی دی۔ میں نے دورہ مختصر کیا اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مسجد کی طرف روانہ ہو گیا۔ مسجد کے دروازے پر پہنچ کر میں نے ایک سینڈل اتاری اور دوسری اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ سستے بازار میں ایک خوفناک دھماکہ ہو گیا۔

دھماکہ اتنا شدید تھا کہ میں نے مسجد کے گنبد و مینار کو بری طرح لرزتے ہوئے دیکھا۔ بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی نیچے گر گیا۔ چند لمحات کے بعد جب میرے حواس کچھ بحال ہوئے تو دھماکے کی جگہ سے آہ و بکا اور وحشت خیز چیخوں کی آوازیں میرے کانوں تک پہنچنے لگیں تھیں۔  ان آّہوں سے بھی زیادہ ناقابل برداشت انسانی گوشت کے جلنے بو تھی جو تیزی کے ساتھ چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ مجھے ہسپتال لے جانے کی پیشکش کی گئی لیکن میں نے انکار کر دیا۔ مجھے محض معمولی خراشیں آئیں تھیں۔  اس دن میں دیر رات تک گھر نہیں جا سکا اور وہیں موجود رہ کر ریلیف اور ریسکیو آپریشن کی نگرانی کرتا رہا۔ اس دوران وائرلیس پر رعنا نے مجھ سے رابطہ کیا۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ لیکن میں ’میں ٹھیک ہوں۔  ڈونٹ وری‘ کے الفاظ ہی کہہ پایا اور رابطہ منقطع کر دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7