مدینہ منورہ سے واپسی کا سفر اور گدڑی کے لعل


جہاز نے دبئی لینڈ کیا۔
ہم تینوں نے بہت ہی گرمجوشی سے ایک دوسرے کو خداحافظ کہا۔
سچ مچ لگا کہ دو پرانے دوستوں کو خداحافظ کہہ رہی ہوں۔
لیکن۔
اس سے پہلے مدینے کے ائرپورٹ پر لمبی قطاروں کے بیچ قطار کو توڑتے ہوئے پانچ چھ دیہاتی اور غریب دکھتے سندھیوں کا گروپ اس کتھا میں کیسے بھول سکتی ہوں کہ جب ایک کو میں نے سندھی میں ہلکا سا ڈانٹ کر قطار توڑنے سے منع کیا تو حاضر میری ماں کہہ کر قطار میں کھڑا ہوگیا۔
ہماری قطار جب امیگریشن میں پہنچی تو وہاں کی افراتفری دیکھ کر بڑی معصومیت سے اس نے سندھی میں مجھ سے پوچھا کہ تیرے کاغذ وغیرہ تو پورے ہیں نا؟
میں بے اختیار ہنس دی۔

مجھ سے بات کرتا دیکھ کر اس کے ساتھیوں نے اسے معنی خیز انداز میں خبردار کیا کہ خیال کر، شہر کی عورت ہے۔
جواب میں اس نے اسی معصومیت کے ساتھ کہا کہ شہر کی عورت نہیں ہے۔ اپنی سندھیانی ہے۔ میرا فرض ہے نا اس کا خیال رکھنا۔ اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ کاغذ پورے ہیں نا اس کے؟

اور پھر وہ مسافروں کی وہیل چیئر کھینچنے والا انڈین لڑکا، جو ابھی کچھ دیر پہلے مجھے دبئی ائرپورٹ کی لفٹ میں ملا تھا۔ صرف ایک منزل نیچے جانے تک اس نے انگریزی میں پوچھا کہ آپ پاکستانی ہیں؟
اپنا بتایا کہ میں انڈین ہوں۔
میں نے مسکرا کر کہا ہم پاکستانی اور انڈینز آپس میں دوست ہی ہیں۔
اس نے کہا کہ ہاں گورمنٹ دشمن ہوتی ہے، پبلک آپس میں دوست ہے اور رہے گی۔
ہم دونوں گویا گورمنٹ پر جملہ کستے ہوئے ہنس پڑے۔
بس لفٹ نیچے پہنچ گئی۔

لفٹ سے نکلتے ہوئے اس نے فضا میں ہاتھ بلند کرکے گرمجوشی کے ساتھ کہا، اوکے میڈم! بائے۔
میں نے بھی ہاتھ بلند کرکے اسے بائے کہا۔
جیسے وہ پورا انڈیا ہو!
اور میں پورا پاکستان!

اس وقت جب میں یہ تحریر مکمل کررہی ہوں، جہاز کراچی پر لینڈ کررہا ہے۔
میں سوچ رہی ہوں کہ ہمارے اردگرد کے عام لوگ گدڑی میں پڑے لعل ہیں دراصل۔
بس ضرورت اس جوہر کو پہچاننے والے جوہریوں کی ہے!
انسان لعل و جواہر کی طرح ہے آج بھی۔
مگر انہیں تراشنے والے جوہری اس مادہ پرست دنیا سے اٹھ گئے ہیں۔
کارپوریٹ کلچر میں ہم انسانیت کی تو بات کرتے ہیں مگر انسان کے ساتھ ہم نوالہ و ہم پیالہ نہیں ہوتے۔
ورنہ ضرورت صرف ایک مسکراہٹ کی ہے۔

کیا مرد کیا عورت!
کیا مولوی کیا لبرل!
انسان کو انسان کے ساتھ صرف جُڑ بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
اپنی اپنی مچان سے نیچے اترنے کی ضرورت ہے۔
انسان نام کی مخلوق نیچے کھڑی ہے۔
اوپر صرف ہمارا زعم ہے۔

Published on: Mar 10, 2019

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments