سلیم احمد کی کتاب ’اقبال ایک شاعر‘ : ایک تنقیدی مطالعہ


سنہ 1981 ء کی بات ہے۔ ہم تین دوستوں (جاوید احمد غامدی، ابوشعیب صفدر علی مرحوم اور خاکسار) نے اپنے محترم بزرگ دوست اور مربی ڈاکٹر فرخ ملک مرحوم کی مالی اعانت سے ایک دو ماہی جریدے الاعلام کا آغاز کیا۔ اس کے دوسرے شمارے (جنوری 1982 ) میں راقم نے ممتاز نقاد اور شاعر جناب سلیم احمد کی کتاب ”اقبال: ایک شاعر“ پر تنقیدی تبصرہ شائع کیا تھا۔ زمانہ طالب علمی کے بعد یہ میری اولین تحریر تھی۔ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ جناب سلیم احمد مرحوم نے میری تحریر کے جواب میں روزنامہ حریت میں پانچ کالم (مئی 1983 ) لکھے تھے۔

٭٭٭        ٭٭٭

سلیم احمد صاحب کا شمار ملک کے مسلمہ دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اقبال پر ان کی یہ کتاب کئی اعتبارات سے اہم اور قاری کو ہر صفحے پر دعوت فکر دیتی ہے۔

پروفیسر کرار حسین اس کتاب پر اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں : ”ایک بڑا آدمی اپنے معاشرے کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ خودفراموشی اس چیلنج سے کنی کاٹنے کے لیے بہت سے حیلے تراش لیتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ سلیم احمد نے اقبال کے اس چیلنج سے کنی نہیں کاٹی ہے بلکہ اس کو قبول کیا ہے“۔ خود سلیم احمد صاحب نے پہلے مضمون ’اقبال۔ اقبالیات اور ہم‘ میں مطالعہ اقبال کے ضمن میں کارفرما مختلف رویوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ رویے مدح و قدح کے ہیں، تجزیہ و تنقید کے نہیں۔ دوسرے اقبالیات کا بیشتر حصہ ”اقبال کے خیالات اور نظریات کی تشریحات پر مشتمل ہے“۔ ان کی مراد اس سے یہ ہے کہ اقبال کے خیالات کا ان کی شخصیت کے پس منظر میں رکھ کر جائزہ لینے کے بجائے انہیں بنی بنائی چیزوں کی طرح لے لیا گیا ہے۔ سلیم احمد صاحب کے نزدیک ان کے خیالات ان کی زندگی کے آئینہ دار ہیں، لہٰذا اقبال کے خیالات پر تنقید و تبصرہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے ان کا تعلق ان کی زندگی سے قائم کیا جائے۔

اب اگر اس دعویٰ کا کتاب کے مطالعہ کے بعد جائزہ لیا جائے تو بڑی افسوس ناک صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ فاضل مصنف نے ضروری تیاری کیے بغیرایک بڑے کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور تنقید اقبال کے ضمن میں جس رویے کا مظاہرہ کیا ہے وہ مدح و قدح کے دونوں رویوں سے زیادہ خطرناک اور اپنے نتائج کے اعتبار سے بڑے دور رس اثرات کا حامل ہے۔ ان کے اسی رویے نے مجھے اس کتاب پر قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔

کتاب کے مشمولات کا جائزہ لینے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ فاضل مصنف کے ان مزعومات کا جائزہ لے لیا جائے جو ان کے تجزیہ و تنقید کی بنیاد ہیں۔

سلیم احمد صاحب نے ایک مکتب نفسیات کا، جو تحلیلِ نفسی، کے نام سے مشہور ہے، سہارا لے کر اقبال کے افکار کا سرچشمہ دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مکتب نفسیات کی رو سے انسان کے شعوری اعمال کے محرکات بھی لاشعوری ہوتے ہیں۔ ایک فنکار اپنی تخلیقی سرگرمی کے ذریعے سے اپنی ناآسودہ خواہشات کی تسکین کرتا ہے۔ فاضل نقاد نے اس طرز تنقید کے ذریعے سے اقبال کے چیلنج کو قبول کرنے اور اس کے افکار کے علمی تجزیہ و تنقید کے بجائے ایک نئی راہ نکالی ہے۔ اس نفسیاتی اصول کے مطابق اقبال کے افکار ”اس کی ذاتی زندگی کی ناکامیوں، بے عملی، جذبے کی کمی، اور مستقل خواہشات کے فقدان“ کے آئینہ دار ہیں۔ لہٰذا خیالات کی حیثیت سے وہ سنجیدہ غور و فکر کے لائق نہیں۔ ان میں دلچسپی کی بات یہ جاننا ہی ہے کہ کون سا خیال کس ذاتی الجھن کا نتیجہ ہے۔

اس طریق تجزیہ کے بارے میں چند معروضات پیش خدمت ہیں :

1۔ مغرب کی جدید علمی دنیا میں یہ نظریہ بہت فرسودہ قرار پا چکا ہے۔ نفسیات کے میدان میں ہونے والی جدید تحقیقات کے نتیجے میں اب یہ نظریہ علم و تحقیق کی آماجگاہ نہیں رہا، علمی نظریات کے عجائب گھر کی زینت بن چکا ہے۔

2۔ محققین اس بات پر متفق ہیں کہ اس مکتبِ فکر کا ایک بھی نظریہ ایسا نہیں جو تجربے کی کسوٹی پر پورا اتر سکا ہو، اور جسے استعمال میں لا کر کچھ قطعی اور حتمی نتائج اخذ کیے جا سکے ہوں، یا مستقبل میں اس کا امکان ہو۔

3۔ اس مکتب فکر کے اصولوں کو استعمال میں لانے کے لیے یہ بات تمام ماہرین کے نزدیک ضروری ہے کہ جس شخص کا تجزیہ مقصود ہو اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہونی چاہییں۔ شخص مذکور زندہ ہو تو اس سے کئی کئی نشستوں میں انٹرویو کیا جانا چاہیے، اگر وہ دنیا سے رخصت ہو چکا ہو تو اس کے بارے میں ہر ممکنہ شہادت فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر فاضل نقاد کی ذہانت و بصیرت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے یہ کام انتہائی کم معلومات کے ہوتے ہوئے بھی انجام دے ڈالا ہے۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں : ”مجھے اقبال کی ذاتی زندگی کا کم سے کم علم ہے“۔ اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ علم کی اس کمی کے باوجود انہوں نے اقبال کے بارے میں ایک انتہائی سنسنی خیز نتیجہ اخذ کیا ہے اور وہ نتیجہ یہ ہے کہ اقبال جنس اور جبلت سے خائف تھے۔ وہ لکھتے ہیں : ”کبھی کبھی میرے دل میں ایک خطرناک خیال آتا ہے۔ لیکن میں کسی ذریعے سے اس کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ کیا اقبال کسی خطرناک جسمانی (جنسی؟ ) عارضے میں مبتلا تھے؟ جنس اور جبلت کا خوف اکثر اسی قسم کے کسی سقم کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے اعتراف ہے کہ ثبوت کے بغیر اس کی حیثیت میری قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہے“۔ معاف کیجیے گا یہ قیاس آرائی نہیں، الزام تراشی ہے۔ بغیر کسی ثبوت کے ایسی بات لکھنے کی جسارت وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے ذوق سلیم اور اخلاق دونوں کو طاق پر رکھ دیا ہو۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5