پشتون تحفظ موومنٹ اور وزیرستان


اپنے آبائی علاقے میں اس قدر لا قانونیت اور ظلم نے انور کو بقول ان کے پشتون تحفظ موومنٹ کی تائید کرنے والا پہلا سرکاری ملازم بنایا۔ یہ تحریک جب فروری 2018، میں ایک احتجاج کے دوران وجود میں آئی۔ تحریک نے اسلام آباد میں ایک پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کی کراچی پولیس کی حراست کے دوران قتل کے خلاف دھرنا دیا تھا۔

اس وقت سے پشتون تحفظ موومنٹ نے اپنے پرامن مطالبات کے حصول کے لئے لاکھوں نوجوانوں کی تائید حاصل کرچکی ہے جو پاکستان میں بسنے والے تین کروڑ ستر لاکھ پشتونوں کی بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی اور ان کی حفاظت پر مبنی ہیں۔ نقیب محسود کے خاندان کو انصاف دلانے کے علاوہ پشتون تحفظ موومنٹ پشتونوں کی سرزمین پر خون ریزی، سکیورٹی چیک پوسٹوں پر لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے، پشتونوں کا ماورا عدالت قتل کا خاتمہ، لاپتہ افراد کو رہا یا پھر ان پر فرد جرم عائد کرنے اور وزیرستان اور باقی علاقوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی کے مطالبات کرتی آرہی ہے۔

حکام نے پہلے پہل پشتون تحفظ موومنٹ کے تحفظات کو دور کرنے کا وعدہ کیا لیکن جب موومنٹ نے مارچ 2018 میں بلوچستان کے پشتون علاقوں میں بڑے جلسوں کا انعقاد کیا تو حکام اپنی روایتی پوزیشن پر واپس چلے گئے جو گزشتہ تقریباً سات دہائیوں سے چھوٹی قومیتوں کے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو غدار یا ریاست کا دشمن کے القابات سے نوازتے آرہے ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے نعرے جو زیادہ ترفوج کے خلاف تھے نے بہت سے اعلی فوجی افسران کو مشتعل کر دیا اور انور ان چند سرکاری ملازمین میں سے تھے جنہیں پشتون تحفظ موومنٹ کا ساتھ دینے کی پاداش میں نوکریوں سے نکال دیا گیا۔

اپنے قیام کے محض ایک سال کے اندر ہی پشتون تحفظ موومنٹ نے وزیرستان کے لوگوں کے دلوں میں ایک بہتر اور باوقار زندگی گزارنے کا دیا روشن کیا۔ غیرملکی اور غیر علاقائی لوگوں نے پشتونوں کو جنگجو اور جنگ پسند کے طور پر پیش کیا ہے لہذا پشتوں تحفظ مومینٹ اس غیر حقیقی شبیہ کو بدلنے کی کوشش کررہی ہے۔ پی ٹی ایم دنیا کو بتانا چاہتی ہے کہ پشتون باوقار لوگ ہیں جنہوں نے سالہا سال دہشت گردوں کے ظلم اور فوجی آپریشن کے نتیجے میں جان اور مال کی قربانی دی ہے۔ موومنٹ نے وزیرستان کے اس تصور کو بدل دیا ہے کہ یہ علاقہ شدت شدت پسندوں کا گڑھ ہے بلکہ وہاں پر اب پاکستان کے مستقبل پر مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔

اس تحریک کا ایک نمایاں چہرہ علی وزیر ہیں جو ایک پرجوش رہنما ہیں۔ رواں صدی کے ابتدا میں ان کے خاندان احمد زئی وزیر وانا کے نمایاں خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ ان کے مرحوم والد میر زالم وزیر ایک جانے مانے سردار تھے۔ لیکن جب علی وزیر قانون کی تعلیم۔ حاصل کر رہے تھے تو ان کے خاندان کو ایک شدید سانحے کو برداشت کرنا پڑا جب ان کے بڑے بھائی فاروق وزیر کو 2003 میں دن دھاڑے قتل کر دیا گیا۔ وہ نوجوان سیاسی کارکن طالبان اور القاعدہ کے ہاتھوں مرنے والا پہلا پشتون ایکٹوسٹ تھا۔

اس کے بعد بھی علی وزیر نے دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں اپنے درجن سے زیادہ رشتہ داروں کو گنوایا جن میں ان کے والد، بھائی، چچا اور چچازاد بھائی بھی شامل تھے۔ مارے جانے والوں کا واحد مطالبہ یہی تھا کہ حکام عسکریت پسندوں سے نجات حاصل کر کے علاقے میں امن قائم کریں۔ علی وزیر کی والدہ خواژہ مینا آج بھی جولائی 2015 کا وہ دن یاد کرتی ہیں جب ان کے خاوند اور بیٹے کو قتل کیا گیا تھا۔ وانا میں ان کے گھر کے قریب ہونے والے اس حملے میں ان کے دو بہنوئیوں اور ان کے دو بچوں کو بھی گھات لگا کر مار دیا گیا تھا۔ اس نے صحافی عدنان بیٹنی کو بتایا کہ ”ہمارا سارا آنگن شہداء کے جسم سے رسنے والے خون سے سرخ تھا“۔ ہمارے گھر میں اس وقت بیجد خاموشی اور خالی پن تھا جب میتوں کو قبرستان میں دفنانے کے لئے لے جایا جا رہا تھا۔ ہمارے آنگن میں صرف چھوٹے بچوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔

جب ان کے خاندان کو قتل کیا گیا تو علی کو سامراجی دور کے ظالمانہ قانون ایف سی آر کے تحت پابند سلاسل رکھا گیا تھا اور انہیں اس وقت رہا کیا گیا جب ان کے پیاروں کی تدفین ہوچکے تھی۔ ان کی ماں کہتی ہیں ”میں نے انہیں بتایا کہ ماتم مت کرو کیونکہ وہ سب بے گناہ تھے جو اپنی عزت اور وطن کا تحفظ کرتے ہوئے مارے گئے“۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس وقت علی کو ایک پشتو ٹپہ سنایا تھا جس کا مفہوم ہے ”جو لوگ اپنے وطن کی دفاع کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں میدان جنگ میں ان کی تلواریں ہمیشہ چمکتی رہتی ہیں“۔

مینا نے اپنے یتیم بچوں اور نواسوں کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک رشتہ دار کے ہاں بھیج دیا۔ لیکن انہوں نے خود اپنے آبائی گھر میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا جو مٹی سے بنا ایک قلعہ نما تعمیر تھی جسے سیب کے درختوں نے گھیرا ہوا تھا۔ ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ علی کی والدہ اب بھی کمرے کا دروازے بندکیے بغیر سوتی ہیں تا کہ پھر سے کوئی دستک دے کر انہیں نے درد بھری خبر نہ سنا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں میں ہمارے خاندان کے مردوں کی قتل کی وجہ سے سات عورتیں بیوہ ہوئیں۔ میں نے ہمیشہ انہیں بتایا کہ رونا نہیں تاکہ ہمارا دشمن اپنی کامیابی کا جشن نہ منا سکے۔

علی کا کہنا ہے صرف اس کے خاندان پر ہی سانحہ نہیں بیتا بلکہ اس علاقے کے ہر خاندان کو اس سانحے سے گزرنا پڑا۔ علی کہتے ہیں کہ صرف پشتون شہریوں کو نقصان اٹھانا پڑا، طالبان، القاعدہ اور سیکیورٹی کے اداروں نے ملکر ان کے خلاف گٹھ جوڑ کیا تھا۔ علی جو اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں ہیں ابھی بھی ہمت ہارنے کو تیار نہیں ہہیں۔ انہیوں نے پر امن جدوجہد کا آغاذ کیا اور 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں حصہ لے کر بہت سے نوجوانوں کو اپنی پرجوش تقاریر سے متاثر کیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7