پشتون تحفظ موومنٹ اور وزیرستان


1992 میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عمران خان نے فاٹا کا دورہ کیا تھا اور اس بارے میں ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ عمران خان نے قبائلی علاقوں کے لئے قومی وسائل کی تقسیم سے قابل قدر حصہ دینے کا وعدہ کیا اور صحت، تعلیم روزگار اور اصلاحات کی کئی سکیموں کا اعلان بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہم نے قبائلی علاقوں میں امن بحال کرنے کے لئے بیحد قربانیاں دی ہیں“۔ ہم افغانستان میں بھی امن بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر افغانستان میں امن ہو گا تو ہمارے قبائلی علاقوں پر اس کا مثبت اثر پڑے گا۔ عمران خان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو مسلط کردہ سمجھتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ ”ہمیں اس طرح کی کوئی جنگ پاکستان کے اندر نہیں لڑنی چائیے“۔

 کچھ دنوں بعد البتہ فوج کے ترجمان آصف غفور باجوہ نے پشتون تحفظ موومنٹ کو متنبہ کیا کہ ریڈ لائنز عبور نہ کریں۔ انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم نے ان کے درد کو سمجھا، ان کی مشکلات کو بھی سمجھا۔ اس لئے ابھی تک پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا گیا لیکن انہیں وہ لکیریں عبور نہیں کرنی چائیں جہاں ریاست کو صورتحال پر قابو پانے کے لئے طاقت کا استعمال کرنا پڑ جائے“۔

 پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں نے اس بیان پر تنقید کی اور پوچھا کہ کیا سیکیورٹی طلب کرنا، احتساب، اور آئین پاکستان میں دی گئی بنیادی انسانی حقوق کے مطالبات ریاستی اداروں کو طاقت استعمال کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ پشتین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر پاکستان ہمارا ملک ہے تو اسے ہمارے مسائل حل کرنے چاہیے۔ لیکن اگر یہ آقا اور غلام کا مسئلہ ہے تو وہ مظالم ڈھانے کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں اور ہم ان کا سامنا کریں گے

 جنوری میں مقتدر قوتوں کے رویے میں تبدیلی آئی۔ آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ کو ہاتھ ملانے کے لئے کہا تاکہ فاٹا میں خوشحالی اور ترقی لائی جا سکے۔ پاکستانی نجی ٹی وی چینل اے آر وائی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”پشتون تحفظ موومنٹ ایک پر امن تحریک ہے جو اپنے مطالبات کے لئے مہم چلا رہی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور وہ لوگ جو ان کی حمایت کرتے ہیں ریاست سے بحالی کے حصے میں مدد کریں جس کا مقصد انہیں سہولیات اور خدمات فراہم کرنا ہے“۔

 لیکن پھراسی ماہ پشتون تحفظ موومنٹ پر اس وقت انتہائی سخت کریک ڈاون کیا گیا جب اس کے ممبران اس تحریک کی پہلی سالگرہ منانا چاہ رہے تھے۔ 21 جنوری کو کراچی میں احتجاج کے دوران بیشمار کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں یونیورسٹی گریجویٹ عالمزیب محسود بھی شامل تھے جو جبری گمشدگیوں پر تحقیق کر رہے تھے اور بارودی سرنگ کے متاثرین کی تکالیف کو اجاگر کی مہم چلاتے رہے ہیں۔ پھر بہت سے اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے ساتھی کے قتل کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ پشتون تحفظ موومنٹ نے الزام لگایا کہ 35 سالہ کالج لیکچرار ارمان لونی کو ایک پولیس آفیسر نے دو فروری کو ہلاک کر دیا۔ وہ لورالائی میں پولیس پردہشت گرد حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ 5 مارچ کو پاکستانی سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے پولیس کو اس کی موت کی تفتیش کرنے کا حکم جاری کیا۔

 پشتون تحفظ موومنٹ کے وزیرستان کے کارکنان اسلام آباد کے وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی دھمکیوں کے آگے جھکنے کو تیار ہیں۔ وانا میں انور طویل جدوجہد لڑائی کے لیے تیار ہہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”وزیرستان سے اٹھنے والی تحریکیں ہمیشہ کامیاب رہی ہیں“۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7