فرعون کی بیٹی کی چیخ


وہ غیر معمولی طور پر عجیب و غریب مقدمہ تھا۔ قاہرہ تو کیا پوری دنیا کی کسی بھی عدالت میں اس قسم کا مقدمہ کبھی نہیں پیش کیا گیا۔ یہاں تک کہ جج اور عدالت کے اہلکار بھی اپنی حیرانی نہیں چھپارہے تھے۔ مقدمے کی نوعیت ایسی تھی کہ صرف قاہرہ اور مصر کے ہی عوام نہیں بلکہ تمام دنیا کے لوگ اس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ عدالت کی تاریخ جاننے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت انوکھا اوربالکل منفرد تھا۔

روزنامہ ”الاہرام“ کے مطابق این میری خلیل نام کی اٹھائیس سالہ انگریز عورت فراعینِ مصر کے میوزیم میں چھپ گئی تھی۔ میوزیم کے تمام اہلکاروں کے میوزیم سے چلے جانے کے بعد رات کی تاریکی میں اس انگریز عورت نے فراعین کی ملکاؤں کے کپڑے اُتاردیئے اور تقریباً سب کو ننگا کردیا۔ ہزاروں سال سے پوشیدہ شہزادیوں، ملکاؤں کے ان نسوانی اعضا کی تصاویر کھینچیں جن کا وقت بھی کچھ نہیں بگاڑسکتا تھا۔

ملکہ نیفرتیتی، ملکہ اشاتی، ملکہ احمس، طوطخ امن کی ملکہ اور دیگرتمام ملکائیں ننگی پائی گئیں۔ اخبار نے باوثوق ذرائع کے حوالے سے لکھا تھا کہ این میری خلیل نے ملکاؤں کی ننگی تصویریں کھینچیں مگر فلش گن کے چمکنے سے خودکار الارم بج اُٹھے اورمسلح چوکیداروں نے رات کو ہی این میری کو گرفتار کرلیا تھا۔ دوسرے دن سے ہی اخباروں میں اس واقعے کی تشہیر شروع ہوگئی۔ ابتدائی گرفتاری کے بعد سے این میری پولیس کے حوالات میں تھی اور پولیس نے مقدمہ بنا کر عدالت کی ابتدائی کارروائیاں مکمل کی تھیں۔

آج این میری کو عدالت میں پیش کیا جارہا تھا۔

قاہرہ کے ایک اور روزنامے نے خبر دی تھی کہ این میری خلیل نام کی اس انگریز عورت کوچار دن قبل قاہرہ ایئرپورٹ پر اس وقت روک دیا گیا جب وہ اپنی چھ سالہ بیٹی آمنہ کو اس کے باپ کی مرضی کے خلاف مصر سے لندن لے جارہی تھی۔ مصر کے معروف کاروباری خاندان الخلیل کے انوار الخلیل کی شکایت پر این میری خلیل کو ایئرپورٹ پر روک دیا گیا اورآمنہ کو اس کے گھر بھیج دیا گیا تھا باپ کے ساتھ۔ این میری خلیل کے پاس برطانوی پاسپورٹ تھا جس کی وجہ سے اسے گرفتار کیے بغیر ملک چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی مگر وہ لندن جانے کے بجائے قاہرہ کے ایک ہوٹل میں رُک گئی تھی۔ ہوٹل سے ہی وہ فراعینِ مصر کے میوزیم میں گئی جہاں اس نے یہ بے ہودہ حرکت کی تھی۔

قاہرہ سے ہی نکلنے والے ایک مذہبی روزنامہ ”الاخوان“ کی خبر کے مطابق این میری خلیل ہزاروں سال پرانی مصری ملکاؤں کے ساتھ خود بھی ننگی لیٹ گئی تھی۔ اخبار کے اداریے کے مطابق آج کل ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے مرد عورت عجیب و غریب قسم کے جنسی رویوں کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ یورپ اورامریکا میں عورت عورت اور مرد مرد کے درمیان جنسی تعلقات کو قانونی شکل دے دی گئی ہے۔ جاپان میں ایڈز سے متاثر ہونے والے معاوضے کے عوض جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں۔

جاپانیوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اس طرح سے ایڈز کے مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ اخبار میں یہ بھی لکھا تھا کہ جاپان اور دوسرے امیر ملکوں سے ایڈز کے مریض پاکستان میں دریائے سندھ میں پائی جانے والی بلائنڈ ڈولفن کے ساتھ بھی جنسی تعلقات قائم کرنے کے لئے پاکستان جاتے ہیں تاکہ اس مرض سے نجات حاصل ہو۔ پاکستان میں یہ کاروبار بہت منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور ایک ڈولفن کے ساتھ ہفتے بھر کے تعلقات کے لئے تقریباً آٹھ سو سے ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔

اداریے میں خبردار کیا گیا تھاکہ دنیا بھر میں غیر اسلامی لوگ انتہائی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ ساتھ ہی غیر ممالک میں موجود مصری نوجوانوں سے کہا گیا تھا کہ وہ این میری کی طرح کی فاحشہ لڑکیوں کو شادی کرکے مصر نہ لائیں۔ حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس قسم کی شادیوں پر فوری پابندی عائد کی جائے۔ والدین کو مخاطب کرتے ہوئے اخبار نے لکھا تھا کہ آج کی دنیا میں اگر اسلام کے راستے کو مضبوطی سے نہیں پکڑا گیا تو مصری سماج انتہائی انتشار کا شکار ہوکر مغربی ممالک کی طرح جنس زدہ ہوکر رہ جائے گا۔ وقت آگیا ہے کہ مناسب اسلامی نظام کا نفاذ کیا جائے، اس سے پہلے کہ وقت ہمارا ساتھ چھوڑدے۔

پچھلے چند دنوں کے دوپہر کے اخباروں میں این میری خلیل کی ذاتی تصویریں چھاپی گئی تھیں جن میں اسے پیراکی کے لباس میں دکھایا گیا تھا۔ کسی بھی اخبار میں این میری خلیل کے شوہر انوارالخلیل کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا گیا تھا۔

اخبارات کی غیر معمولی دلچسپی کی وجہ سے اور ساتھ ہی بی بی سی، سی این این، الجزیرہ ٹیلی ویژن اور دوسرے بڑے ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی خبروں کی وجہ سے بھی این میری خلیل کے مقدمے کی بہت تشہیر ہوگئی اور بے شمار عدالت کی کارروائی دیکھنے اور سننے آئے تھے۔ عدالت میں کرسیاں کم پڑگئی تھیں اور عدالتی اہلکاروں نے مزید کرسیوں کا انتظام کیا۔ اس روز قاہرہ کی عدالت کا وہ کمرہ کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔

جب این میری خلیل پولیس افسروں کے ساتھ عدالت میں داخل ہوئی تو عدالت کی بھنبھناہٹ یکایک خاموشی میں تبدیل ہوگئی۔ بہت سارے لوگوں نے اسے چونک کر دیکھا، وہ ایک حسین عورت تھی۔ این میری کا کوئی بھی وکیل نہیں تھا اور اس کے خاندان کا کوئی بھی فرد عدالت میں موجود نہیں تھا۔ وہ عدالت میں آگے کی بنچ پر خاموشی سے بیٹھ گئی۔ عدالت میں تصویر کھینچنے کی اجازت نہیں تھی مگر اخبار کی طرف سے نامزد فن کاروں کو آزادی تھی کہ وہ پنسل سے ملزموں اورعدالتی اہلکاروں کا اسکیچ بناسکتے ہیں۔ اخباری نمائندے اپنے قلم کاغذ کے ساتھ جج کے انتظار میں بیٹھ گئے اور فنکاروں نے این میری کی تصویر بنانی شروع کردی۔

تھوڑی دیر بعد ہی جج نے عدالت کی بڑی میز پر بیٹھنے کے بعد عدالت کی کارروائی شروع کی تھی۔

ملزمہ این میری خلیل سے پوچھا گیا کہ اس کا وکیل کون ہے؟

”جناب عالی! میں خود اپنی مدافعت میں بولوں گی۔ “ اس نے سر سے پیروں تک سیاہ کپڑا پہنا ہوا تھا۔ اس کے بال سرخی مائل سیاہ تھے اوراس کے چہرے پر اس کی اُداس آنکھیں بہت نمایاں تھیں۔ عدالت میں زیادہ تر لوگ صرف اس کو ہی دیکھ رہے تھے یا دیکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ اپنے تمام تر پُرملال چہرے کے باوجود وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔ سیاہ کپڑوں میں اس کا سفید رنگ بہت نمایاں تھا۔ وہ یونان کے کسی میوزیم میں ایستادہ مجسمے کی طرح پُروقار تھی۔

”تم پر الزام ہے کہ تم نے ہزاروں سال پرانے فراعینِ مصر کی ملکاؤں کی ممیوں کے کفن کھول کر سب کو ننگا کردیا۔ “ معزز جج نے بہ آواز بلند ملزمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ”ان کی تصویریں کھینچیں اور اس ملک کے قومی اثاثے کو نقصان پہنچایا۔ “

”جناب عالی! یہ الزام صحیح ہے۔ “ ملزمہ نے آہستہ آہستہ سر اٹھا کر معزز جج کی آنکھوں سے آنکھیں ملاکر ادب سے جواب دیا۔

ہال میں ایک شور سا اُٹھا اور سرکاری وکیل کے چہرے پر خودبخود ایک اطمینان کی لہر سی دوڑ گئی۔

جج نے اپنا ہتھوڑا بجاتے ہوئے حاضرین کو حکم دیا کہ وہ عدالت کے تقدس کا خیال کریں، ساتھ ہی اس نے سرکاری وکیل کی طرف دیکھتے ہوئے ملزمہ سے کہا تھا کہ ”کیا تمہیں پتا ہے کہ یہ جرم ایک سنگین جرم ہے اور اس کی سزا بہت خوفناک بھی ہوسکتی ہے۔ کیا تم اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہتی ہو۔ عدالت تم سے پوچھتی ہے کہ تم نے ایک ایسا قدم کیوں اٹھایا جو نہ صرف یہ کہ خلاف قانون ہے بلکہ ایک بہت ہی گھٹیا حرکت ہے۔ آج کے زمانے میں ایک پڑھی لکھی یورپین عورت سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4