رمضان المبارک کے آداب


اس لئے نمازوں میں، پھر سجدوں اور رکوعوں میں بکثرت دعا کرنی چاہیے۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگیں اور خوب مانگیں۔ اللہ تعالیٰ دینے والا ہے اور وہ ضرور سنے گا اسی یقین کے ساتھ اس کے در پر جھکے رہیں۔

قبولیت دعا کے لئے ایک یہ گر بھی یاد رہے کہ کوئی بھی دعا مانگنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور آنحضرت ﷺ پر درود شریف پڑھنا نہ بھولیں۔ پھر دعا مانگیں اور آخر میں بھی اپنی دعاؤں کو درود شریف سے مزین کریں اور پھر درود شریف کی تو ویسے ہی بہت برکتیں ہیں۔

9۔ قبولیت دعا کے اوقات

احادیث میں بہت سے مواقع ایسے بیان ہوئے ہیں جنہیں قبولیت دعا کے اوقات کہا گیا ہے مثلاً

ایک حدیث میں یوں آتا ہے

اِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِہٖ لَدَعْوَۃٌ مَا تُرَدُّ (ابن ماجہ)

کہ روزہ دار کے لئے اس کی افطاری کے وقت کی دعا ایسی ہے جو رد نہیں کی جاتی۔ افطاری کے وقت انسان کے قلب پر ایک سوز و گداز اور رقت کی کیفیت ہوتی ہے اور اس کی ساری توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے اس لئے فرمایا کہ ایسے وقت کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔

پس اس وقت کو جو افطاری سے قبل 10۔ 15 منٹ کا وقت ذکر الٰہی، تلاوت اور دعا ؤں میں گزارنا چاہیے۔ فضول باتوں اور خوش گپیوں اور کھانے پینے کے سامان کی طرف زیادہ توجہ نہ ہونی چاہیے۔ جو خواتین گھروں میں افطاری بنانے میں مصروف رہتی ہیں وہ افطاری بھی بناتی جائیں اور خود کو ذکر الٰہی میں بھی مشغول رکھیں۔ اپنے بچوں اور بڑوں کو بھی یہ بات بار بار ذہن نشین کرائی جائیں۔ تاکہ اس وقت سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

ایک اور دعا کا وقت بلکہ قبولیتِ کا وقت تہجد کی نماز کا وقت ہے۔ ایک وقت سجدہ کی حالت ہے جب انسان فروتنی اور عاجزی سے اپنے آپ کو خدا کے حضور گرا دیتا ہے تو خدا کا رحم جوش میں آجاتا اور اس کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔

ایک اور وقت جمعہ کا وقت ہے۔ اس بارے میں بھی رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جب مومن بندہ دعا کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور آپ نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ وہ گھڑی بڑی مختصر ہوتی ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد سوم مسند ابی ہریرۃ حدیث نمبر 7151 جدید ایڈیشن 1998 ء مطبوعہ بیروت )

ایک اور وقت قبولیت دعا کا لیلۃ القدر کی رات ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں آتی ہے۔ ان طاق راتوں میں بھی بکثرت عبادت کرنی چاہیے اور قبولیتِ دعا کے نظارے دیکھنے چاہئیں۔

حضرت امام الزمان علیہ السلام فرماتے ہیں :

”جب تک سینہ صاف نہ ہو دعا قبول نہیں ہوتی۔ اگر کسی دنیوی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ بھی تیرے سینہ میں بغض ہے تو تیری دعا قبول نہیں ہو سکتی۔ “

فرمایا: ”جو مخلوق کا حق دباتا ہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ ظالم ہے۔ “

(ملفوظا ت جلد 2 صفحہ 195 )

فرمایا: ”یاد رکھو کہ دعائیں منظور نہ ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو۔ “ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 130 )

فرمایا: ”ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی“ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 682 )

فرمایا: دعا کا سلسلہ ہر وقت جاری رکھو اپنی نماز میں جہاں جہاں رکوع و سجود میں دعا کا موقع ہے دعا کرو اور غفلت کی نماز کو ترک کر دو، رسمی نماز کچھ ثمرات مترتب نہیں لاتی۔ ” (ملفوظات جلد 3 صفحہ 176 )

رمضان المبارک۔ مالی قربانی اور صدقۃ الفطر

مالی قربانی تزکیہ نفس کرتی ہے اور رمضان کا بھی یہی ایک مقصد ہے کہ جب انسان اس بابرکت مہینہ میں مختلف قسم کی عبادات بجا لاتا ہے تو اس سے اس کا تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس مبارک مہینہ میں زکوٰۃ کی طرف بھی خصوصیت سے توجہ دلاتے ہیں، بعض مالی قربانی کی طرف، بعض غرباء کی مالی امداد کی طرف، بعض صدقات کی طرف، وغیرہ ذالک۔ ہر ایک مالی قربانی کسی رنگ کی بھی اگر اس میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں تو وہ انسان کے لئے تزکیہ نفس کا کام دیتی ہے۔ رمضان ویسے ہی یہ سبق بھی دیتا ہے کہ غرباء کا خیال رکھا جائے اس سے انسان کو غریبوں کی بھوک کا بھی پتہ لگا جاتا ہے جن کے مالی وسائل کم ہیں اور کھانے کو بھی کم ملتا ہے تو روزہ ہر قسم کے سبق دیتا ہے اور ایک مالی قربانی کا بھی ہے۔

بخاری کتاب بدء الوحی میں روایت آتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان میں تیز آندھی سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔

پس ہمیں بھی مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے خصوصاً اس وقت اسلام کا غلبہ کے لئے مالی قربانی کی بہت ضرورت ہے اور رمضان کے حوالہ سے غرباء کی خدمت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ پر زکوٰۃ فرض ہے تو زکوٰۃ کی ادائیگی کریں۔ صدقۃ الفطرت ادا کریں جس کے بارے میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ عید سے قبل یہ ادا ہو جانا چاہیے اپنے گھر کے تمام افراد کی طرف سے!

صدقۃ الفطر کی اہمیت اور بروقت ادائیگی کے بارہ میں ایک روایت یہ آتی ہے

ان شہر رمضان معلق بین السماء والارض لا یرفع الا بزکوٰۃ الفطر۔ یعنی رمضان کے مہینے کی نیکیاں اور عبادات آسمان اور زمین کے درمیان معلق ہو جاتی ہیں انہیں فطرانہ ہی آسمان پر لے جاتا ہے یعنی رمضان کی نیکیوں اور عبادات کی قبولیت کا باعث بنتا ہے۔

(بحوالہ احادیث آنحضرت ﷺ منتخب موضوعات صفحہ 135 )

صدقۃ الفطر کی ادائیگی شروع رمضان ہی میں کر دینی چاہیے۔ آخری دن کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

پس رمضان ہمیں درج ذیل سبق دینے کے لئے آتاہے کہ ہم 1۔ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ سے حصہ لیں۔ یعنی خدا کا رنگ اختیار کریں۔ 2۔ ہر قسم کے گناہوں سے بچیں جو کہ تقویٰ کا خاصہ ہے۔ 3۔ ثابت قدمی دکھائیں۔ یعنی رمضان میں جو تقویٰ حاصل کیا ہے اس پرثبات قدم حاصل ہو جائے۔ آئندہ بھی روزے رکھے، نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کی توفیق ملی اسے جاری رکھیں، تہجد بھی رمضان کے بعد پڑھیں، ذکر الٰہی اور دعاؤں میں بعد میں بھی اپنا وقت گزاریں، نیکی صدقہ و خیرات کرنے میں دریغ نہ کریں۔

4۔ قوت برداشت پیدا کریں۔ 5۔ جسمانی صحت کا بھی خیال رکھیں۔ 6۔ غرباء پروری کریں۔ 7۔ مایوسی اور احساس کمتری کو پاس تک نہ آنے دیں۔ 8۔ انسانوں کا احترام کرنا سیکھیں۔

حضرت امام الزمان فرماتے ہیں :

”دنیا میں لاکھوں بکریاں بھیڑیں ذبح ہوتی ہیں لیکن کوئی ان کے سرہانے بیٹھ کر نہیں روتا اس کا کیا باعث ہے؟ یہی کہ ان کا خداتعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایسے انسان کی ہلاکت کی بھی آسمان پر کوئی پرواہ نہیں ہوتی جو اس سے تعلق نہیں رکھتا۔ انسان اگر خداتعالیٰ سے سچا تعلق رکھتا ہے تو اشرف المخلوقات ہے ورنہ کیڑوں سے بھی بدتر۔ “

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 460 )

پس رمضان میں خداتعالیٰ سے سچا، پکا اور زندہ تعلق قائم ہو اور اس کی مخلوق کے ساتھ سچی، پکی اور خالص ہمدردی محض اللہ ہو۔ یہی ہمیں انسان بنائے گی اور یہی ہمیں رمضان سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ وباللہ التوفیق


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4