چار درویش اور ایک کچھوا


 یوں اچانک پرویز مشرف اور القاعدہ جیسے سیاسی موضوع سے ایک فلسفے کے استاد کا اپنی محبوبہ سے پہلی ملاقات کے وقت اس موضوع کا انتخاب کرنا ’کچھ بھی‘ کے علاوہ کیا ہو سکتا۔ اس سے ایک تاثر یہ بھی ابھرتا ہے کہ ناول نگار نے کینوس کو مزید رنگوں سے مزین کرنے کے لئے کہانی میں ایک سیاسی بیانیہ بھی ڈال رکھا ہے جو بہرحال اس کا اپنا سیاسی ورلڈ ویو ہے۔ یہ تاثر اس وقت مزید گہرا ہو جاتا ہے جب یہی کردار بے نظیر کی شہادت کے cause of death کے لئے اسی بیانیے کا سہارا لیتا ہے جو سرکاری بیانیہ تھا۔ اس بیانیے کو پیپلز پارٹی رد کر چکی ہے۔ یوں ایک کردار جسے کہانی کے فلسفیانہ تناظر کو سنبھالنا تھا وہ غیر ضروری طور پر ناول نگار کے سیاسی ورلڈ ویو میں پھنس کر اختلافی ہو جاتا ہے۔

سانس اکھڑنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اسی ملاقات میں چوڑیوں اور اسلام میں عورتوں کے حقوق جیسے مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں۔ پون گھنٹے کی اس ملاقات کے بعد آفتاب اگلے پیراگراف میں سلمی کی آنکھوں کی پر ایک گہرا فلسفیانہ تجزیہ کرتا ہے اور پھراگلے ہی باب کے شروع ہوتے ہی اسے سلمی کے باپ کا فون آجاتا ہے جو روایتی طور پراسے سلمی سے دور رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔ چونکہ اسے اور سلمی کو علم ہو جاتا ہے کہ آفتاب کی ماں احمدی فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔

سلمی کا باپ آفتاب کو دھمکی دیتا ہے کہ اگر اس نے ملازمت سے استعفی نہیں دیا تو وہ اس کے خلاف ہریسمنٹ کی انکوائری شروع کرا دے گا۔ یوں محبت کی لازوال داستان تخلیق کرتے اور ختم کرنے میں ناول نگار کو صرف دو صفحات کا فاصلہ درکار تھا۔ گو یہ باب طویل ہے اور سلمی اور آفتاب کی محبت کا ذکر آگے بھی آئے گا۔ وہ ذکر مگر اس کے سوا کیا ہے کہ they lived happily ever after۔ تاہم یہاں تک بالی وڈ کی کلیشیڈ فلمی کہانیوں کی طرح کہانی میں ظالم سماج کود پڑتا ہے اورآفتاب اقبال ریشنل اور تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی فوراَ استعفی دے دیتا ہے کیونکہ وہ اپنی محبوبہ کو بدنام نہیں دیکھنا چاہتا۔ ایسے مقامات پر قاری کا دل چاہتا ہے کہ ابن انشا کو پکارے اور کہے، سب مایا ہے۔

سانس اکھڑتے کردار آفتاب کو اگر یہاں روایتی سادگی کی شک کا فائدہ دے کر بری بھی کر دیا جائے تو بھی بادی النظر میں اسے مکمل بری الذمہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناول کے بڑے موضوعاتی تناظر میں چونکہ آفتاب اقبال ’سچائی کے مختلف تناظر‘ واضح کرنے کے مقام پر فائز ہے اور وہ جب فلسفہ پر گفتگو کرتا ہے تو اپنا پیغام بہت واضح انداز میں پہنچاتا ہے اس لئے اس سے ایسی کلیشیڈ گفتگو کی توقع نہیں ہوتی۔ اس کردار سے ناول نگار نے جہاں سچائی کا تناظر واضح کرنے کا کام لیا ہے وہاں اس کے کاندھوں پر کہانی کی المیہ جہت کی ذمہ داری بھی ڈال دی ہے۔

چونکہ اس کی ماں احمدی ہے اس لئے سلمی نے اس سے قطع تعلق کر لیا ہے اور اسے اپنی نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ یہاں تک کہ ایک دن اسے بھاگ کر کہیں اور پناہ لینی پڑی۔ ادھر صورت حال یوں ہے کہ ہمارے سماج میں موجود اقلیت کے المیوں میں سے یہ ایک اہم المیہ ہے، تاہم اسے فکشن میں سمو کر کہانی کی المیہ جہت واضح کرنے کے لئے یہ واقعہ بہت ضمنی اور چھوٹا ہے۔ ہمارے سماج میں مرد و عورت کے اس نوعیت کے تعلق کی پاداش میں دونوں فریقین کے قتل کے المیے موجود ہیں۔

اس سماج میں اقلیتیوں کے گھروں کو جلانے جیسے واقعات ہوئے ہیں۔ ہماری اس تہذیب نے تو تقسیم جتنا بڑا المیہ دیکھا ہے جہاں لاکھوں انسان محض چہرے کی رنگت اور لباس دیکھ کر قتلکیے گئے۔ ایسے میں آفتاب اقبال کا واقعہ گو اہم ہے، گو افسوس ناک ہے، گو قابل مذمت ہے مگر ان اعترافات کے باوجود کہنے دیجیے کہ یہ واقعہ کہانی میں لارجر سطح پر المیہ تخلیق کرنے میں ناکام رہا۔

اس کہانی کا تیسرا کردار ارشمیدس ہے۔ ار شمیدس جاوید اقبال کا پالتو کچھوا ہے جو ایک پانچ فٹ کے پنجرے میں اس کے فلیٹ میں بند ہے۔ جدید ڈکشن کو اپناتے ہوئے کاشف رضا نے یہاں وہ تیکنیک استعمال کی ہے جس میں کہانی کا ہر کردار اپنی کہانی خود بیان کرتا ہے۔ کچھوا بھی اپنی کہانی خود بیان کر رہا ہے۔ اس کی جدید مثالیں جیمز جوائس کے ناول ”یولیسیز“ اور اورحان پاموک کے ناول ”مائی نیم از ریڈ“ اور مرزا اطہر بیگ کے ناول ”حسن کی صورت حال، خالی جگہیں پر کریں“ جیسے ناول ہیں۔

بلکہ قرین قیاس ہے کہ جدید ادب کے ساتھ ساتھ کاشف رضا نے مرزا اطہر بیگ سے بھی کوئی تاثر لیا ہوا ہے۔ اس باب کے آغاز میں وہ فرماتے ہیں، ”میرے چاروں مرکزی کردار اپنے بارے میں جو کچھ بتانا چاہتے ہیں، اس سے ان کی کہانی پوری طرح سمجھی نہیں جا سکتی۔ اسی لئے میں نے ان کی کہانی میں بطور راوی بہت جگہوں پر خالی جگہیں پر کی ہیں“۔ بالکل یہی کام مرزا صاحب نے حسن کی صورتحال میں کیا ہے۔ انہوں نے حسن کی صورت حال میں کئی خالی جگہوں پر بطور مدیر حیرت مداخلت کرتے ہوئے خالی جگہیں پر کرنے کی کوشش کی ہے یا اس کی دعوت دی ہے۔ حتی کہ ناول کے نام کا حصہ ہی خالی جگہیں پر کریں رکھا۔ ایک اور حسین اتفاق شاید یہ بھی ہے کہ حسن کی صورت حال میں بھی حسن کو ایک کھچوا پھول بیچنے والے کی دکان پر نظر آتا ہے جس کے بارے میں حسن کئی کہانیاں تخلیق کر کے خالی جگہیں پر کرتا ہے۔ کاشف کے اس باب کا کردار بھی کچھوا ہی ہے۔

بطور قاری یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ناول نگار نے کچھوے سے دو کام لئے ہیں۔ ایک تو کچھوے کی موجودگی علامتی ہے۔ کچھوے نے اپنی موجود شکل میں کئی صدیوں سے ارتقا قبول نہیں کیا اس لئے اسے صدیوں کے عظیم گواہ کی علامتی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کا اعتراف خود ناول نگار نے بھی اسی پیرائے میں کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ چونکہ ناول کا بڑا موضوع جنس بھی ہے سو ناول نگار نے جب کچھوے کے زبانی مرد اور عورت کے جنسی معاملات پر کلام کیا ہے تو گویا اس علامت کے طور کیا ہے کہ وہ ان تعلقات کے صدیوں کا گواہ ہے اس لئے جانتا ہے کہ مرد اور عورت کے تعلق کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ اس لئے وہ کچھوا اکثر اوقات ایسے موضوعات پرخطیانہ اور بہت حد تک تمسخرانہ گفتگو کرتاہے۔ گویا جنس کے موضوع پر لکھتے ہوئے کسی حد تک ناول نگار نے اپنے حتمی نظریات یا اپنا پرسپیکٹیو بیان کرنے کے لئے کچھوے کی علامت کا سہارا لیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah