چار درویش اور ایک کچھوا


کیا کچھوا اپنے مقام سے انصاف کر پایا ہے؟ آئیے کچھوے کے چند بیانات پر نظر ڈالتے ہیں۔ ”جب میں مرئی وجود رکھتا تھا تو چاہتا تھا کہ جب میں کسی سے بات کر رہا ہوتا ہوں تو اس دوران میرا مخاطب مجھے نہ دیکھے۔ میں ان سے باتیں کرتے ہوئے ان کے جسم کے انتہائی دلچسپ حصوں کو دیکھنا اور دیکھتے رہنا چاہتا تھا، کیونکہ ان کے اجسام مجھے ان سے متعلق اس سے کہین زیادہ بتاتے تھے جو وہ مجھے اپنے منہ سے بتا سکتے تھے۔ عورتوں کے لباس میں چھوٹے چھوٹے رخنے ہوتے ہیں جو ان کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے کے دوران کبھی فراخ ہو جاتے اور کبھی تنگ۔

 یہی میرا رزق تھا اور میں بس اسی پر قانع۔ لیکن لوگوں خصوصاً عورتوں کو جلد ہی میری دیدہ وری کا پتا چل جاتا اور وہ مجھ سے محتاط رہنے لگتیں۔ اپنے سبجیکٹ کے اس سمٹاؤ سے میں بہت تنگ تھا اور چاہتا تھا کہ میرے انہیں دیکھنے کے دوران وہ مجھے نہ دیکھیں۔ بالآخر کامیابی ملی اور میں بصری حقیقت سے معدوم ہو گیا“۔ ایک اور بیان دیکھ لیجیے، ”یہ میں ہوں جو انسانوں کی ناف کے نیچے کینچلی بنا کر سویا رہتا ہوں۔ اور جب جاوید کسی لڑکی سے یا کسی عورت سے باتیں کر رہا ہوتا ہے تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ مجھے کب سر اٹھا کر اس لڑکی یا اس عورت کو سراہنا ہے۔

 میں ہوں وہ بیرو میٹر جو جاوید اقبال کی یا کسی بھی اور مرد کی، عورت کے لئے پسندیدگی کی اصل پیمائش کر سکتا ہے۔ میں کبھی اس عورت کی مسکراہٹ کو دیکھتا ہوں، کبھی اس کے ہونٹوں کو۔ یہ میں ہوں جو سوچتا ہوں کہ اس عورت کے چہرے پر کس جگہ کا بوسہ لینا مناسب رہے گا۔ یہ میں ہوں جو عورتوں کی ہڈیوں کی مضبوطی دیکھ کر انہیں کڑکڑانے کی تمنا کرتا ہوں۔ ان کی گولائیوں کو دیکھنے کے لئے اپنا سر اٹھاتا ہوں اور اٹھائے ہی چلا جاتا ہوں۔

 یہ میں ہوں جو ان کے دوپٹوں میں داخل ہوتا، چادروں میں گھس جاتا، لباس کے مہین سے مہین رخنے سے اپنی خوراک حاصل کرتا، ان کے پنڈلیوں کے بال دیکھتا، ان کی ملائمت یا سختی کا ندازہ لگاتا، ان کے ننگے بازؤں پر ہاتھ پھیرتا، ان کی گدی سے اٹھنے والی مہک سے سانسیں بھرتا، ان کے گدیلے کولہوں پر سے اپنی ہتھیلی پھیرتا چلا جاتا ہوں“۔

دیکھیے یہاں کھچوا کیا کر رہا ہے؟ یہ ایک علامتی بیان ہے۔ تین چار امکانات ہو سکتے ہیں۔ کچھوا اپنا تناظر بیان کر رہا ہے۔ کچھوا جاوید اقبال کا تناظر بیان کر رہا ہے، کچھوا روایت میں انسانی تعلق کے صدیوں کے گواہ ہونے کی بنا پر انسان کا عمومی تناظر بیان کر رہا ہے۔ یا کھچوا تینوں تناظر ایک ساتھ بیان کر رہا ہے۔ آپ جس بھی تناظر کو درست قرار دیں، حقیقت یہی ہے کہ کچھوا جنس کے پیچیدہ موضوع کے ایک رخ یعنی بائنیری تناظر، یا دوسرے الفاظ میں مرد و عورت کے باہمی تعلق کے تناظر سے بھی کہیں بہت پرے صرف وہ تناظر دکھانے کی کوشش کر رہا ہے جس پر جاوید اقبال کاربند ہے۔

 جاوید اقبال تو پھر بھی اسے محبت قرار دیتا ہے۔ یہاں تو خالص خود لذتی کشید کرنے کا تناظر ہے۔ یہاں جنس کے کلی موضوعیت پر گواہی کی بجائے کچھوا جنسی عمل کا گواہ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کھچوے کی علامت کا ایک تناظر مردانہ جنسی عضو کا بھی بنتا ہے۔ تاہم اس کے لئے زیر ناف کینچلی بنانے کی اصطلاح درست نہیں۔ کچھوا کینچلی نہیں بناتا۔ یہ خصوصیت سانپ سے متعلق ہے۔

ناول میں جنسی عمل کے کچھ مناظر موجود ہیں جن کی زبان راوی نے ایسی رکھی ہے کہ شرمیلے قارئین سہولت سے پڑھ سکیں۔ ایسے میں جگہ جگہ کھچوا ان مناظر کو دوبارہ اس تمسخرانہ اور بے باکانہ انداز میں بیان کر دیتا ہے جن میں غیر شرمیلے قارئین کے ذوق کا بھی سامان موجود ہوتا ہے۔ بطور قاری میرا خیال ہے کہ کوئی بھی کہانی کار جب ٹیبو موضوعات کو زیر بحث لاتا ہے تو اسے اصطلاحات زمانی ہی استعمال کرنی چائیں۔ اگر بطور کہانی کار یا لکھاری آپ کسی ٹیبو کو چیلنچ کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس میں شرمیلے قارئین کی سہولت یا متقی احباب کے ذوق کا باہم اہتمام ممکن نہیں رہتا۔ دھکے مار، کتے زور سے مار، وہ بہہ چکا جیسی اصطلاحات سے تحریر میں زیادہ شہوت انگیزی کا تاثر غالب رہا۔ اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ موضوع سے راست تعلق رکھتے ہوئے جنسی عمل یا سیکس جیسی مروج زمانی اصطلاحات اختیار کی جاتیں تاکہ قاری ناول کے بڑے موضوع جنس پر غور و خوض کرتا۔

بالا اس کہانی کا تیسرا درویش ہے۔ بالے کے باب میں ناول نگار نے کہانیت کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا ہے۔ بالا کہانی کا ایک ایسا کردار ہے جس کی کہانی سنتے ہوئے قاری کی پوری توجہ کہانی پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ قاری تحریر سے گنجلک فلسفیانہ، نفسیاتی مباحث و نتائج کشید کرنے کی بجائے صرف کہانی کی بنت پر غور کرتا جاتا ہے۔ بالا، اقبال محمد خاں کی ناجائز اولاد ہے۔ یعنی جاوید اقبال اور آفتاب اقبال کا ناجائز بھائی ہے۔ اپنے گرد و پیش کی دنیا میں نفرت وصول کرنے کے نتیجے میں باغیانہ رویوں کا عادی ہو جاتا اور بچپن میں ہی غیرت کے نام پر قتل کرتا ہے۔ فرار ہونے کے بعد جہادیوں میں پناہ لیتا ہے اور بالآخر ایک خود کش بن جاتا ہے۔

بالے کے باب میں البتہ ناول نگار نے ایک مقام پر ایسا کلام کیا ہے جس کا تاثر عمومی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بالا ایک ناجائز اولاد ہے۔ وہ ایک قاتل ہے۔ اب وہ جہادیوں کے ہاتھ لگ کر دین کی سربلندی جیسے معاملات سے اپنی روزی روٹی چلا رہا ہے۔ اس کو جس ٹریننگ کیمپ میں بھیجا جاتا ہے وہاں کیمپ کا کمانڈر قاری حسین ہے۔ ان کم عمر ”مجاہدین“ کی تربیت اب ایسے خطوط پر کی جاتی ہے کہ وہ خدا کی مرضی کو قاری حسین کی مرضی سمجھ لیں۔

 قاری حسین کے ہر حکم کو خدا کی مرضی سے متعلق کریں۔ اس تمام عمل سے گزرنے کے بعد یہ مجاہد آخری مجاہدے کے طور پر قاری حسین کے ساتھ تربیت کے لئے شب بسری کرتے ہیں۔ اس واقعہ کا ذکر راوی یعنی ناول نگار ایسے الفاظ میں کرتا ہے جن کو شرمیلے قارئین سہولت کے ساتھ پڑھ سکتے۔ وہ لکھتے ہیں، ”دو ہفتے میں اسے امتحان میں پاس قرار دے دیا گیا اور اسے مزید دو ہفتے بعد اوراد و وظائف کے لئے غار میں قاری حسین کے ساتھ شب بسری کا موقع ملا، لیکن اس سے پہلے اسے اور دوسروں لڑکوں کو استاذ عبدالقدیر کے درس سے گزرنا پڑا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah