کامیاب تخلیق کار کی موت کا منظر


 میں ایک معزز شہری ہوں کبھی بھی کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے، خاموشی سے زندگی گزاررہا ہوں۔ لکھنا لکھانا میرا کام ہے، یہی یہ میرا ذریعۂ معاش ہے۔ نجانے کس غلط فہمی کی بنیاد پر میرے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جارہا ہے؟ یہ سب کچھ میری سمجھ سے باہر ہے۔ پورے ہال میں یکایک ایک شور سا اُٹھا کوئی ہنسا، کوئی چیخا، کسی نے گالی دی، کسی نے طنزیہ جملہ کہہ کر میرا مذاق اُڑایا، بھنبھناہٹ کی آواز ہال میں ایک کریہہ گونج بن کر رینگ گئی۔

 میں سوچ ہی رہا تھا کہ کس طرح سے اپنی گردن بچاؤں کہ ”انصاف کا جہنم“ کے سرکاری وکیل سکندر عباس نے اسی شاطرانہ انداز میں آواز لگائی جس طرح سے وہ ”انصاف کا جہنم“ میں سازشی طریقوں سے بے انصافی کے جال بُنتا تھا۔ اس نے جج کو مخاطب کرکے کہا کہ جناب عالی یہ شخص ہم سب کا خالق ہے۔ میرا بھی آپ کا بھی اوراس ہال میں بیٹھے ہوئے تمام انسانوں کا اور ان جانوروں اورپرندوں کا بھی جن کی کہانیوں سے اس نے نام پایا ہے۔

 دولت کمائی ہے، آج دنیا کے کونے کونے میں مختلف زبانوں میں اس کی کہانیاں پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے کرداروں پر فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ لندن، پیرس، نیویارک، ماسکو کے تھیٹروں میں اس کے کرداروں پر ڈراما کیا جاتا ہے۔ آج یہ سارے کردار یہاں جمع ہوگئے ہیں اور آپ سے انصاف کے طالب ہیں۔ ان کی شکایتیں سنی جائیں اور اس شخص کو سیکڑوں بار پھانسی دی جائے۔ اس کا خاتمہ کیا جائے کہ اس نے نجانے کتنے دلوں کو برباد اور گھروں کو ناشاد کیا ہے۔

محض اس لئے کہ اس کا نام ہو۔ یہ ایک ایسا خالق ہے جس نے اپنی مخلوق کے نام پر وہ سب کچھ کیا ہے جو چاہنے کے باوجود خود نہیں کرسکا۔ اس نے ہم سے قتل کرائے ہیں اور اس قتل کرانے میں مزہ لوٹا ہے جبری آبروریزی، ڈاکا، اغوا، بینکوں کے فراڈ کارپوریشن کے گھپلے اس نے ہر ہر کام کرا کر اپنے لئے خودلذتی کا سامان پیدا کیا ہے۔ یہ ایک معزز شہری نہیں، معزز شہری کے لباس میں ایک ایسا خالق ہے جس نے اپنے مخلوق کو اپنی خودستائی اور خودلذتی کے لئے پیدا کیا۔

 ایک خودغرض انسان، جس نے اپنی پذیرائی کے لئے ایسے کردار تخلیق کیے جو خود اپنے آپ سے پریشان ہوکر آج یہاں جمع ہوگئے ہیں، اپنی شکایات لے کر اپنے حسابات برابر کرنے کے لئے۔ ایک لمحے میں ساری بات میری سمجھ میں آگئی تھی۔ میں نے ہال میں بیٹھے ہوئے، کھڑے ہوئے، لیٹے ہوئے، پڑے ہوئے انسانوں اور ان جانوروں کو پہچان لیا۔ یہ سارے کے سارے تو میری تخلیق تھے، میرے بنائے ہوئے۔ میں نے بڑی محنت سے انہیں تراشا تھا۔ ان کو کہانیاں، ڈراموں، افسانوں، ناولوں میں جگہ دی تھی۔

انہیں امر کردیا تھا کہ آج ان کی اپنی شخصیت تھی۔ اس بکری اورمینڈک کو کون جانتا، میں نے بچوں کے لئے ایک کتاب لکھی ”ایک بکری ایک مینڈک۔ “ یہ کتاب بچوں میں بہت مقبول ہوئی۔ یہ دونوں کردار اسی کتاب کے تھے۔ بچوں کے لئے ایک اور کتاب ”پرانا جنگل، نیا بادشاہ“ جس میں ایک بندر کو بادشاہ بنا کر میں نے سارے جانوروں پر اس کی حکومت قائم کرائی۔ وہ سارے جانور بھی ہال کے درمیان میں موجود تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے شیر مجھے بڑی کینہ پرور نگاہوں سے دیکھ رہاہو۔

 ہال میں وہ فوجی بھی موجود تھے جو میرے ایک مشہور ناول ”آگے سرحد تھی“ کے کردار تھے۔ اس ناول میں سارے فوجی کردار سرحد کے اندر ہی جنگ کرتے رہے۔ اس ناول کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا، میں نے تجسس سے اس ناول کی ہیروئن شازیہ کو تلاش کیا جو ایک بڑے سیاستدان کی بیٹی تھی اور ایک بریگیڈیئر کی بیوی بھی۔ جو انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ جنسی طور پر جسے چاہتی اسے اسیر کر لیتی تھی۔ ناول کے آخر میں اسے خودکشی کرنی پڑ گئی تھی۔

وہ اور کرداروں کے ساتھ اپنے قیامت خیز لباس میں موجود تھی۔ اس حالت میں بھی مجھے وہ بہت اچھی لگی۔ میں نے اسے ایسا ہی بنایا تھا، اسی طرح سے سنوارا تھا۔ کبھی ننگا رکھا تھا کبھی کپڑے پہنائے تھے۔ پورے ناول پر وہ چھاگئی تھی۔ وہ ایک بیوی تھی، ایک فاحشہ بھی جو اپنے شوہر کی ترقی کے لئے سیاستدانوں، جرنیلوں کے ساتھ سوتی بھی تھی۔ ایک ماں کی حیثیت سے وہ اپنے بچوں سے پیار بھی کرتی تھی۔ ایک بے چینی بھی تھی اس میں کہ وہ حالات کو بدلنا چاہتی تھی۔

اس کے اندر جیسے ایک خواہش تھی کہ انصاف کا حصول ہوجائے۔ انصاف کی طلبگار بھی تھی اور انصاف کی راہ میں حائل بھی۔ راتوں کو جاگ جاگ کر اس کردار کی نوک پلک سنوارے تھے میں نے۔ تخلیق کے اس عمل سے گزرنے کے دوران نہ جانے کیا کیا ہوا تھا میرے ساتھ۔ اپنے کرداروں کے لئے رویا تھا میں، ان کے لئے ہنسا بھی تھا۔ اچھے یا بُرے وہ جیسے بھی تھے میرے تھے، مجھے تو ہر رنگ میں عزیز تھے۔ یکایک میری نظر غضنفر پر پڑی۔ اس کی نگاہ میں غضب کی نفرت تھی۔

 میرے ایک مشہور افسانے ”سناٹے کی چیخ“ میں یہ اپنی سگی بہن کی آبروریزی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی بہن نازیہ کھڑی ہوئی تھی جس نے مجھ سے نظر ملاتے ہی بہت فحش سا اشارہ کیا تھا۔ میرے ایک اورناول ”سکّوں کی ٹکسال“ جس میں میں نے دکھایا تھا کہ کراچی کا ایک سرمایہ دار کس طرح سے تجارت کرتا ہے اوراسٹاک ایکسچینج کی سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے اور اپنے سیاسی رشتوں کے ذریعے سے ارب پتی بن جاتا ہے۔ مگر اس کی بیٹی گھر سے بھاگ کر لاہور میں ایک عام پنجابی سے شادی کرلیتی ہے۔

اس ناول کے بھی سارے کردار وہاں موجودتھے۔ تاجر بھی، بیٹی بھی، بیوی بھی، شوہر بھی، اچھے بھی بُرے بھی مگر سب کی نظروں میں نفرت تھی میرے لئے۔ اب میں نے اس عمارت کو بھی پہچان لیا، یہ میرے ایک مشہورناولٹ کا مشہورقلعہ تھا جس میں سارے کردار ننگے رہتے تھے۔ اس قلعے کے سب سے بڑے ہال میں گناہ کا کھیل کے نام سے ایک جنسی کھیل کھیلا جاتا تھا۔ اس ناولٹ کے بعد ملک کے مذہبی لیڈروں نے میرے خلاف تقریریں کی تھیں اورمضامین لکھوائے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6