کامیاب تخلیق کار کی موت کا منظر


 کیوں کہ یک طرفہ شکایتیں اس طرح سے آتی رہیں تو مجھے خطرہ ہے کہ میری زندگی کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ”تینوں ججوں نے مجھے حیرت سے دیکھا مگر ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میں نے بولنا شروع کردیا:عالی مرتبت جج صاحبان! میں تو ایک فنکار ہوں۔ میرا کام سماج میں موجود کرداروں کو سماج کے سامنے پیش کرنا ہے اور اس طرح سے پیش کرنا ہے کہ سماج کو پتا تو لگے کہ سماج میں کیا ہورہا ہے؟ میں ان کا خالق ہونے سے انکار نہیں کرتا۔

 میں کیا بتاؤں اورکیسے بتاؤں کہ اس تخلیق کے عمل میں مجھ پر کیا گزری ہے، کس کس طرح سے میں راتوں کو جاگا ہوں جب ساری دنیا سورہی ہوتی تھی؟ میں نے ان کرداروں کو بنایا، زندگی دی، ان کی تصویروں میں رنگ بھرا، کہیں کپڑوں سے انہیں ننگا کیا کہیں ننگا کرکے انہیں چھپادیا۔ میرا مقصد انہیں تکلیف پہنچانا نہیں انہیں اَمر کرنا تھا، وہ میں نے کیا ہے بغیر کسی احساسِ جرم کے۔ یہ سب کہتے ہوئے میرے لہجے میں غضب کا اعتماد تھا، وہی اعتماد جو تخلیق کار میں ہونا چاہیے۔

 میں نے دیکھا کہ ججوں کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور دوسرا رنگ جارہا تھا۔ وہ سوچنے پرمجبور ہوگئے۔ ان کے اندر چھپا ہوا انصاف انہیں آوازدے رہا تھا۔ میں نے گھوم کر مجمعے پر نظر ڈالی تو مجھے ایسا لگا جیسے ہر کوئی سوچ رہا ہے۔ جانور تک خاموش اور ساکت تھے۔ ہر ایک کی پیشانی پر لکیریں اُبھر کر آنکھوں کو ڈھانپے لے رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ میرے ایک اور ناول کا ایک کردار آہستہ آہستہ میری طرف آرہا ہے۔ سوٹ میں ملبوس، چمکدار بوٹوں کے ساتھ۔

 اس کے چہرے پر بھی بلا کی سنجیدگی تھی اورآنکھوں میں غضب کی چمک۔ ناول میں وہ ایک ماڈرن آدمی تھا۔ جس نے عزت کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر طرح کی دھاندلی کرتے ہوئے بے انتہا دولت کمائی تھی۔ وہ ہمیشہ سوٹ میں رہتا اور سفید قمیض پہنتاتھا جس پر سرخ ٹائی ہوتی تھی۔ اس نے کبھی بھی راستے میں آنے والوں کو معاف نہیں کیا تھا۔ اس کی زندگی کا مقصد ہی اس کی کائنات تھی۔ اس کی بیوی، بچے، رشتے دار، دوست، ساتھ میں کام کرنے والے لوگ محض لوگ تھے۔

 اگر اس کے لئے کارآمد تو وہ سب کچھ تھے، اگر اس کے لئے بے کار تو ان کا وجود بھی ضروری نہیں تھا۔ وہ نہایت ہوشیاری سے کام کرتا، ٹھنڈے دل کے ساتھ بغیر کسی غصے کے۔ اس وقت وہ کردار نپے تلے قدموں کے ساتھ یکایک میرے سامنے آگیا۔ کوٹ کی جیب سے اس کے ہاتھ نکلے اورگولی میری گردن کو چھیدتی ہوئی نکل گئی۔ میں نے اپنے دماغ کے ٹکڑوں کو خون کے ساتھ گرتے، ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا اورزمین پر گر گیا۔ ججوں کے سامنے پڑی ہوئی میری ساری کتابوں میں سے حرف میری آنکھوں کے سامنے سے نکل نکل کر ہوا میں تحلیل ہورہے تھے۔

 کتابیں کھوکھلی ہو رہی تھیں۔ کردار، واقعات، کاغذوں میں سے نکل کر ہوا میں کھوتے جا رہے تھے۔ یکایک کتاب اورکاغذ کے ڈھیر ججوں کے سامنے سے دھڑام کرکے زمین پر گر گئے۔ میں نے مرتے مرتے اپنی اَدھ کھلی آنکھوں سے اتنا ہی دیکھا کہ جج صاحبان بھی ہوا میں تحلیل ہورہے ہیں۔ ساری عدالت سے میرے کردار آہستہ آہستہ گم ہو رہے تھے۔ عدالت کا وجود بھی میرے وجود کے ساتھ ختم ہو گیا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6