حنائے قناعت اور زرِ نابِ سلیم


مگر پھر بھی آئیے انوکھی چھب والے اس خاموش طبع، سادھو منش، اپنے ہی انداز کی بامرادانہ زیست کرنے والے ادیب اور اپنے طور کے منفرد انسان محمد سلیم الرحمن کی شخصیت اور مزاج کی کچھ جھلکیاں دل کے نگار خانے سے نکال کے آپ کو دکھائی جائیں۔ اگر آپ نے اس زمانے میں میر کے شعر

شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں

دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں

کی سچی تصویر دیکھنی ہو لاہور کی ایک قدیم بستی داروغہ والا کے اس مکین کو دیکھئیے جس کے نام کا خط ڈاکیہ صرف نام اور داروغہ والا، لاہور دیکھ اس کے گھر پہنچا دیتا ہے۔ جو لاہور جیسے مرکز میں رہ کر لاہور کے تمام ادبی حلقوں سے بے نیاز ہے جو کسی قسم کی ادبی تقریبات میں شرکت نہیں کرتا جو کتابوں کی تقریب رونمائی میں مضمون نہیں پڑھتا۔ جو ہر قسم کی پبلک ریلیشنگ سے کوسوں دور رہتا ہے۔ مگر اس کے باوجود جو نہ صرف لاہور، نہ صرف ملک بلکہ ساری دنیا کی ادبی اور علمی سرگرمیوں سے اس حد تک واقف رہتا ہے کہ بڑے بڑے با خبر لوگ بھی ان معاملات کی آگاہی اسی کے اردو انگریزی کالموں سے پاتے ہیں۔ اسی درویش بے نوا کا نام محمد سلیم الرحمن ہے۔

سلیم الرحمن پچھلے ساٹھ ستر سال سے ان نادر روزگار لوگوں کی آخری نشانیوں میں سے ہیں جو گوشھ گیری میں رہ کر بھی جریدھ عالم پھ نقش دوام کی طرح ثبت ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان کے مقام سے واقف ہیں وہ ان کے پاس بیٹھ کر کچھ وقت گزارنے اور ان کی باتیں سننے کو سعادت سمجھتے ہیں جب کہ ان کی بے نیازی اور توکل عالم یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ان کا نام پرائیڈ آف پرفارمنس کے لیے منتخب کیا گیا، جس کے ساتھ اب دس لاکھ روپے بھی ملتے ہیں مگر یہ درویش خدا مست کہ بیدل کی طرح اپنے ہی رنگ میں اس شعر کی مثال ہیں

عالم اگر دہند نہ جنبم ز جائے خویش

من بستہ ام حنائے قناعت بہ پائے خویش

یہ سند افتخار وصول کرنے کے لیے اسلام آباد تک نہ آئیے اور چٹا سا انکار کر دیا۔

جہاں تک یاد پڑتا ہے سلیم الرحمن صاحب کی رسمی تعلیم کوئی اتنی زیادہ نہیں۔ وہ علیگڑھ سے ایف ایس سی کر کے پاکستان آگئے تھے۔ ان کے والد مولانا عقیل الرحمن ندوی علی گڑھ کے ایک اسکول میں فارسی کے استاد تھے۔ مختار مسعود جیسا صاحب اسلوب نثر نگار مولانا کے شاگردوں میں سے تھا۔ آواز دوست کے آخر میں مختار مسعود نے اپنے استاد کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے :

”ان میں بہت سی خوبیاں تھیں علم شاعری اخلاق خود داری۔ ان کی زندگی سادگی اور فقر سے عبارت تھی۔ ان کی نظر میں کچھ ایسا اثر تھا کہ اس کا فیض میں آج بھی اپنی زندگی میں پاتا ہوں۔ “

مختار مسعود گیارہ بارہ برس کے تھے کہ ان کی ایک تصویر پر استاد مولانا عقیل الرحمان نے سعدی کا ایک شعر اپنے خوبصورت خط میں لکھ کر کر دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ

”یہ تحریر اور تصویر اب بھی میرے پاس محفوظ ہے اور وہ نصیحت جو مولانا نے مجھے ایک بار کی تھی اس کا نقشہ بھی میرے دل پر آج تک اسی طرح محفوظ ہے میں نے اقبال کی ایک طویل نظم بھی اس شفیق استاد سے کوئی دو ہفتے تک ان کے گھر جا کر پڑھی۔ وہ اقبال کے سلسلے میں میرے خضر راہ ثابت ہوئے۔ اقبال سے ان کو بہت عقیدت تھی“۔

علی گڑھ میں آمد پر قائداعظم کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی کانپتی آواز کے ساتھ بچپن میں مختار مسعود نے جو نظم پڑھی تھی وہ بھی انہی مولانا ندوی کی لکھی ہوئی تھی اور اقبال کی ایک زمین میں تھی۔ [مختار مسعود، آواز دوست، ص 37۔ 236 ]

سادگی فقر درویشی خودداری اور علم وشاعری اور ذوق و ادب کی یہ ساری ادائیں محمد سلیم الرحمن کو اپنے والد سے ورثے میں ملی ہیں۔ علیگڑھ سے وہ جتنا پڑھ آئے تھے پاکستان آکر انہیں نہ رسمی تعلیم بڑھانے کی خواہش ہوئی اور نہ حنیف رامے کے ”نصرت“ میں دو ایک سال کے علاوہ انہوں نے کہیں نوکری کی۔ اسی ایف ایس سی کے بل پر انہوں نے یونانی کلاسیک سے لے کر جدیدترین کلاسک شاعروں اور فکشن نگاروں کے شاہکار اردو میں ترجمہ کر دیے۔ ہم جیسے سیکڑوں لوگ جو اپنے گلے میں پی ایچ ڈی کا طوق لٹکائیے پھرتے ہیں، جن کی واحد متاع یونیورسٹیوں کی کانفرنسوں میں ادھر ادھر سے اٹھائے ہوئے مسالے سے تیار کردہ مقالات پڑھنا اور تیسرے درجے کے پی ایچ ڈی مقالات سے چوتھے اور پانچویں درجے کے مقالات تیار کروا کر مزید نام نہاد پی ایچ ڈی سکالرز تیار کرکے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر ترقیاں پانا ہے ایسوں کی ڈاکٹریٹ کی حیثیت محمد سلیم الرحمن کے ایف ایس سی اور معروف نقاد اور شاعر سلیم احمد کے ایف اے کے سرٹیفیکیٹس کے آگے ایک کاغذ جتنی بھی نہیں ہے۔

سہارن پور سے چلتے ہوئے انہوں نے جس قطع کی کالر دار قمیص اور پاجامہ کو پہناوے کے طور پر ایک دفعہ اختیار کیا وہی وضع آج تک برضا و رغبت نبھائے جاتے ہیں۔ ساری زندگی لاہور میں گزار دی مگر یہ خیال تک نہ آیا کہ زمانے کے چلن کے مطابق دوسرے نام نکالنے والے ادیبوں کی طرح ڈیفنس یا گلبرگ ہی کو سدھار جاتے۔ ایک دفعہ داروغہ والا میں جو پاؤں توڑ کر بیٹھے تو پھر زندگی بھر کے لیے وہیں کے ہوکر رہ گئیے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ زیادہ عرصے کے لیے لاہور سے کہیں باہر بھی کبھی گئے ہوں۔ ہفتے میں دو ایک روز جو شہر آنے کے لیے مقرر کیے تو پھر اس میں بھی تبدیلی نہ کی۔ جب تک ڈاکٹر سہیل احمد خان زندہ تھے جمعرات کی جمعرات بارہ ایک بجے کے قریب ان کے پاس اورینٹل کالج میں آیا کرتے تھے۔ وہاں سے اٹھتے مال روڈ پر ریگل کے کوآپرا پر چکر لگاتے ہوئیے صفاں والا چوک کی طرف ہولیتے۔ انہیں بسوں ویگنوں پر سفر کرنے میں کوئی عار نہ تھا۔ ایک آدھ دفعہ تو راقم کو بھی ان کے ساتھ ویگن میں سفر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

میں اس زمانے میں پنجاب سول سیکریٹیریٹ لاہور کے اندر سردار عبدالرب نشتر کے زمانے میں قائم شدہ حکومت پنجاب کے ایک ادارے ”مجلس زبان دفتری“ میں ترجمہ کا بیگار کاٹا کرتا تھا۔ ترجمہ کاری کے لیے ”بیگار“ کا لفظ میں نے کیوں استعمال کیا اس کا ذکر پھر کسی موقع پر ہوگا۔ سیکریٹیریٹ سے اورینٹل کالج زیادہ فاصلے پر نہ تھا۔ جمعرات جو سلیم الرحمن صاحب کے آنے کا دن ہوتا میں بارہ ساڑھے بارہ بجے اپنے افسر بالا سید باقر نقوی مرحوم سے تھوڑی سی چھٹی لے کر موٹرسائیکل کے کک پر پیر رکھتا تو سیدھا اورینٹل کالج میں ڈاکٹر سہیل احمد خان کے پاس ادارہ تصنیف و تالیف کے دفتر جا اترتا سلیم صاحب آچکے ہوتے یا تھوڑی دیر میں پہنچ جاتے۔ ان کے آتے ہی سہیل صاحب چائیے بنواتے۔ سلیم صاحب کے ہاتھ میں میں پلاسٹک یا موٹے خاکی کاغذ کا ایک چھوٹا سا لفافہ ہوتا تھا۔ اس میں سے کوئی خط یا مضمون یا اخبار کا ٹکڑا نکال کر سہیل صاحب کو دکھاتے۔ سہیل صاحب بھی انہیں ہفتے بھر کے مشاغل کے بارے میں بتاتے۔ اس دوران چائے پی جاتی اور اگلے پچھلے دنوں کی باتیں ہوتیں۔ ان دو بڑے لوگوں کے درمیان میں ہیچمدان صرف اس بات پر پھولے نہ سماتا کہ اپنے زمانے کے اتنے بڑے آدمی کے ساتھ بیٹھنا اس کی باتیں سننا نصیب ہے۔ اسی زمانے میں نے عبداللہ حسین کے ناول ”قید“ پر ایک مضمون لکھا تھا۔ سلیم صاحب کو دکھانے کی جرأت تو کبھی ہوئی نہیں ایک روز چپکے سے سہیل صاحب کو مضمون دے آیا۔ سہیل صاحب نے کسی روز وہ سلیم صاحب کے سپرد کردیا۔ سلیم صاحب نے جگہ جگہ مضمون پر کچھ نشانات لگائیے اور اسلوب اور زبان کی کچھ کوتاہیوں کی نشاندہی کی۔ ان کی اصلاح کو میں نے اعزاز سمجھ کر قبول کیا اور باقی زندگی کے لیے اس طرح کی غلطیوں سے تائب ہو گیا۔ سلیم صاحب نے وہ مضمون ”سویرا“ میں شایع کیا۔ ان کی اصلاح سے گزر کر جو مضمون چھپا دیکھا تو اپنا ہی مضمون اپنی نظر میں وقار پا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7