حنائے قناعت اور زرِ نابِ سلیم


اب آخر میں یہ بھی عرض کر دیا جائیے کہ اپنی نوعیت کے اس واحد ادیب سے تعارف کس سبیل سے ہوا تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ ان کا نام تو سن 83۔ 1982 میں کہیں سانگھڑ ہی میں ”جہاں گرد کی واپسی“ کے مترجم کے طور پر سنا یا پڑھا تھا مگر ان کا زیادہ ذکر 89۔ 1988 میں ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، لاھور میں سراج منیر سے سننے میں آیا تھا۔ انہی کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ یہیں لاہور میں ہی کہیں رہتے ہیں ورنہ میں تو انہیں مولوی عنایت اللہ دہلوی کے زمانے کا کوئی کوئی بزرگ سمجھا تھا۔ وہ سلیم الرحمن صاحب کا ذکر بڑی عقیدت اور محبت سے کیا کرتے تھے۔ سراج بھائی کی وجہ سے ادارہ ثقافت اسلامیہ ملک بھر کے اصحاب علم و ادب کا گڑھ بن گیا تھا۔ اس جرگے کا شاید ہی کوئی بڑا آدمی ہو جو سراج بھائی کے پاس نہ آتا ہو۔ ان مجالس میں بہت بڑے بڑے لوگوں کا ذکر سنا اور ان میں سے اکثر سے ملاقات بھی پہلی دفعہ یہی ہوئی تھی۔ مولانا حنیف ندوی اور اسحاق بھٹی صاحب تو خیر اسی ادارے میں ملازم تھے، باہر سے آنے والوں میں اعجاز بٹالوی، عاشق حسین بٹالوی، ترقی پسند نقاد پروفیسر ممتاز حسین، معروف شیعہ عالم و شاعر علامہ طالب جوہری، انتظار حسین، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، مرزا منور، ڈاکٹر محمد اجمل، مختار مسعود اور دیگر بیسیوں ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ اس زمانے کے بہت سے باکمالوں سے پہلے پہل وہیں ملاقات ہوئی تھی۔

صلاح الدین محمود تو وہاں مستقل آنا جانا رکھتے تھے۔ ہائے کیا نفیس آدمی تھے۔ لباس سے لے کر قد و قامت تک انداز و اطوار سے لے کر رفتار و گفتار تک ایک ستواں آدمی، ایک ستھرا انسان، ایک الگ انداز کا شاعر۔ وہ سراج بھائی کے پاس مستقل آتے اور گھنٹوں بیٹھتے۔ جس رنگ کا کرتا پاجاما اسی رنگ کا رومال ان کے ہاتھ میں ہوتا۔ نہ ان کے کرتے پاجامے میں کبھی شکن نظر آئی تھی نہ دستی رومال میں۔ جیسا ان کا لباس ہوتا ویسے ہی دھلے دھلائے وہ خود رہتے تھے۔ جس لحن سے باتیں کرتے اسی لے میں نظمیں سناتے، بولتے پڑھتے اگر انہیں کبھی محسوس ہوجاتا کہ ادائیگی میں کہیں شین قاف کی غلطی ہوگئی ہے یا کسی لفظ کا درست تلفظ ان کے خاص معیار کے مطابق ادا نہیں ہو پایا تو فوراً ”معاف کیجئے گا“ کہہ کر وہ لفظ، جملہ یا مصرع دوبارہ دہرایا کرتے تھے۔ ان کی کسی نظم کی تعریف کردی جاتی تو ممکن نہیں تھا کہ اگلے روز وہ نظم کاغذ پر اپنے ہی انداز کے ’جیومیٹرائی خط‘ میں لکھ کر نہ لاکر دیں۔ ایک روز وہ آئیے بیٹھے تھے اور لاہور کے پرانے لوگوں کی باتیں ہو رہی تھیں کہ سلیم الرحمن صاحب کا ذکر آگیا جو علیگڑھ میں ان کے ہم جماعت بھی رہے تھے۔ ان کے علمی کمالات اور ادبی حاصلات کے ساتھ ساتھ ان کے انگریزی تراجم بھی زیر بحث آئیے۔ ان کی انگریزی دانی کی داد سراج بھائی نے یوں دی تھی کھ

”اگر وھ طلسم ہوش ربا کو شیکسپیرین انگریزی نثر میں ترجمھ کرنا چاہیں تو ان کی قدرت سے یہ بعید نہیں“!

میں تو یونہی چپ چاپ ایک کونے وہاں بیٹھا ان دونوں انوکھے خوش کلاموں کی باتیں سن رہا تھا، سراج بھائی کے اس جملے کے اصل مخاطَب درحقیقت اپنے ہی ڈھنگ کے یہ منفرد شخص اور شاعر صلاح الدین محمود تھے جن کی باتیں اور یادیں لکھنا مجھ پر ابھی قرض ہے۔ سراج بھائی کی بات سنتے ہی صلاح الدین محمود اپنے علیگڑھ کٹ پاجامے کی کریز درست کرتے ہوئیے جھوم اٹھے۔ سر ہلاتے جاتے اور کہتے جاتے :

”بالکل ٹھیک کہا آپ نے سراج، بالکل ٹھیک! “۔

سلیم صاحب کی بڑائی تو دل میں پہلے ہی نقش تھی ان دو حضرات کی اس ”تفضیلی“ تعریف نے ان کے لیے میری ارادت مندی پر مہر تصدیق ثبت کردی اور ان سے ملنے کے لیے رہوار شوق کو گویا ایڑھ لگا دی۔

رہوار کیا زمیں پہ چلا آسماں چلا

اور پھر اس واقعے کے شاید چند ہی دنوں کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں میرے کرم فرما تحسین فراقی کے ہاں سلیم صاحب سے اتفاقاً جو ملاقات ہوئی تو ان کی خدمت میں پہلا سلامِ نیازمندی پیش کرنے کا موقع پایا تھا۔

ہر قسم کی ادبی سیاست سے دور، ادیبوں کی دھڑے بندیوں سے نفور شہرت و نمائش سے کوسوں فاصلے پر رہنے والا ادب اور صرف ادب کے سہارے قرطاس و قلم سے سے روزی کمانے والا، یہ بے غرض و بے نفس یہ مرد ابریشم، جسے دنیا محمد سلیم الرحمن کے نام سے جانتی ہے، مگر جس کی تصویر بھی بہت کم لوگوں نے دیکھی ہے ان نایاب نسلوں کی آخری باقیات میں سے ہیں جن کا ادبی منہاج تہذیبِ نفس کے اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔ جن کی فنی ریاضت ان کی ذات شخصیت مزاج نفس روح میں تہذیب پیدا کرتی ہے اور جن کی نفسی تہذیب ان کے فنی منہاج کو متاثر کیا کرتی ہے۔ زمانے کی رو، روش، رواج اور وقت کا فیشن جن کے مزاج کی صلابت میں سیندھ نہیں لگا سکتا۔ جن کی درویش منشی اور فقر نہادی دکھاوے کی نہیں ہوتی۔ جو دنیا سے ایک محتاط فاصلے پر رہ کر دنیا کو برتنے اس میں سے بقدر ضرورت اپنا حصہ پاتے اور قناعت پر مدار رکھ کر ایک گونا سیرچشمی کے ساتھ باقی کو دور باش کہہ دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہی استقلال اور مداومت ان کے لیے سلوک اور ریاضت کا متبادل بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ انتظار حسین نے جب سلیم صاحب سے فنِ ترجمہ نگاری کی بابت پوچھا تو انہوں نے آخر یوں ہی تو نہیں کہہ دیا تھا نا کہ

”یہ کام صبر، اطاعت اور انکسار مانگتا ہے“!

صبر، انکسار، انتظار، اطاعت اور صلے سے بے نیاز چولیں ہلا دینے والی ریاضت یعنی وہ دولت جو فی زمانہ نایاب و ان مول ہے وہ قسام ازل سے محمد سلیم الرحمن کو بڑی وافر مقدار میں ملی ہے۔

درویشی گوشہ گیری قناعت توکل اور بے نیازی کی ان کمیاب صفات اور پڑھنے لکھنے کے شوق کے علاوہ میں نے سلیم صاحب کے اندر اگر کسی اور شے سے شغف اور شیفتگی محسوس کی ہے وہ تھی کرکٹ! ان کے اس شوق کا پتا بھی یوں چلا تھا کہ ایک دفعہ وہ جب سہیل احمد خان کے پاس آئیے تو اگلی جمعرات کو کہیں کسی دوست کے ہاں جانے کی بات ہو رہی تھی جہاں جانا شاید پہلے سے طے تھا۔ سلیم صاحب نے بلا رو رعایت صاف انکار کردیا۔ بچوں کے سے انداز میں بولے : ”نا بابا نا، جمعرات کو ہم تو گھر میں بیٹھ کے کرکٹ کا میچ دیکھیں گے“!

شاید یہ 1992 کے ورلڈ کپ کے دنوں کی بات تھی۔ آج جبکہ کہ میں سلیم صاحب کے بارے یہ ٹوٹی پھوٹی سطریں لکھ رہا ہوں یقیناً وہ اسی وارفتگی کے ساتھ 2019 کے ورلڈ کپ میچ دیکھنے میں مصروف ہوں گے کہ علی گڑھ والے رشید احمد صدیقی کی طرح علیگڑھ کے سلیم الرحمن کو بھی اردو زبان اور کرکٹ سے بے پناہ لگاؤ ہے مگر علیگڑھ سے اب ان کو کتنا ارتباط رہ گیا ہے اس بارے میں میرے پاس کوئی تازہ ترین معلومات نہیں! لیکن داستانوی رومانس اور سائینس فکشن کے طلسم کدے میں ایک مابعدالطبیعی بُعد کی آرزو رکھنے والا دماغ اگر لاہور میں اپنا ایک پورا علی گڑھ قائمکیے بیٹھا ہو تو عجب بھی نہیں!

دعا ہے کہ اللہ تعالی اردو شعر و ادب کے اس فقیر منش گوشہ گیر اور کرکٹ پسند ادیب کو سدا سلامت رکھے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7