مانوس اجنبی


 ”بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار

یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں ”

مگر وہ بدستور کھویا رہا۔

 ”کچھ کہہ کے خموش ہو گئے ہم

قصہ تھا دراز کھو گئے ہم!

اچھا یہ بتائیں۔ ”میں نے کہا۔ “ ماضی کے لوگ جس طرح حال کے لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، یہ تو سمجھ میں آتا ہے۔ ان کی باتیں، ان کی عادتیں، ان کے طور اطوار، رسم و رواج، کتابوں کے ذریعے یا سینہ بہ سینہ یا لہو کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتے آتے ہیں۔ مگر حال کے لوگ ماضی کے لوگوں پر کس طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ ”میں نے پوچھا۔

 ”جس طرح اس کتاب کے مصنف اور آپ مجھ پر ہوئے۔ “ اس نے مسکرا کر کہا۔

 ”یہ جو کچھ ہوا، یعنی جو کچھ آپ نے بتایا ہے کہ ہوا، میری سمجھ سے باہر ہے۔ اسی کی تو میں وضاحت چاہ رہا ہوں۔ “

 ”آدمی کا ایک وجود وہ ہوتا ہے جو اس کے جسم کا پابند ہوتا ہے اور ایک وجود وہ جو اس کے جسم سے ماورا ہوتا ہے۔ یہ دوسرا وجود لوگوں کے ذہنوں میں ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ہوا میں ہوتا ہے اور کسی بھی وقت کسی کے ذہن میں آ سکتا ہے اور پھر اس کی زبان یا قلم کے ذریعے دوسروں کے ذہنوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہی دوسرا وجود میرے خیال میں آدمی کا اصل وجود ہوتا ہے جو کبھی مرتا نہیں، کبھی بے جان نہیں ہوتا۔ یہی وجود دوسروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نہ صرف اپنے ہم عصروں پر بلکہ بعد میں آنے والی نسلوں پر بھی۔ اور یہی وجود، چونکہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے، لہٰذا آنے والی نسلیں بھی اس پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ مثلاً، ماضی کی کسی شخصیت یا کردار کے کسی عمل، اس کی کسی بات یا اس کے بارے میں کسی بات کو، جسے غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا رہا ہو، حال کی کسی شخصیت یا کردار کے کسی عمل یا بات کی وجہ سے یا کسی واقعے یا حادثے کے باعث، ایک دم بہت اہمیت حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ماضی کی کسی شخصیت یا کردار کے جس عمل، جس بات کو بہت عظیم الشان سمجھا جاتا ہو، حال کے لوگ اسے یکسر غلط یا انتہائی غیر اہم قرار دے سکتے ہیں۔ اس طرح ماضی کی شخصیتیں بالکل بدل کے رہ جاتی ہیں، بہتر ہو جاتی ہیں یا بدتر، زیادہ اہم ہو جاتی ہیں یا کم اہم، نام آور بن جاتی ہیں یا گمنام ہو جاتی ہیں۔ اور۔ ۔ ۔ پابند ہو جاتی ہیں۔ یا۔ آزاد! “ وہ مسکرایا۔

میں پوری طرح قائل نہیں ہوا، کیونکہ بات ہی پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ لیکن میں لاجواب ضرور ہو گیا۔ میرے لیے اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہی بنی اور میں نے بحث کے انداز کو چھوڑتے ہوئے گفتگو کو آگے بڑھانا چاہا۔ مگر اتنے میں مجھے کسی مہمان کی آمد کی اطلاع ملی۔ مہمان میرے پاس صحن ہی میں بھیج دیا گیا۔ میں اٹھ کر اس سے ملا۔ علیک سلیک کے بعد اسے اپنی کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ دوسری کرسی پر تو اجنبی بیٹھا تھا۔ مگر یہ کیا؟ وہ تو وہاں نہیں تھا۔ اس کی کرسی خالی تھی۔ مجھے نہیں معلوم میرا مہمان کتنی دیر رکا، اس نے مجھ سے اور میں نے اس سے کیا باتیں کیں۔

دن ڈھلا رات پھر آ گئی، منزلوں خامشی چھا گئی۔ دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہوا۔ سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو۔ عجیب مانوس اجنبی تھا۔ گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ۔ مجھے تو حیران کر گیا وہ۔ بس ایک موتی سی چھب دکھا کر، بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر، مرے تو دل میں اتر گیاوہ۔ وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جاں۔

میں جانے کب سویا، کب اٹھا۔ آنکھ کھلی تو ایسا لگا جیسے کئی برس سونے کے بعد جاگا ہوں۔ ہر چیز عجیب عجیب، نامانوس سی دکھائی دے رہی تھی۔ ارد گرد جو لوگ تھے تصویروں یا ہیولوں کی مانند لگ رہے تھے، جو کسی بھی وقت غائب ہو سکتے تھے۔ مجھے سکول میں پڑھی ہوئی رپ وین ونکل کی کہانی یاد آنے لگی۔ رپ وین ونکل کو گھر سے کچھ دور کسی نے کچھ کھلا دیا، اور وہ سو گیا تیس برس کے لیے۔ جاگا تو ظاہر ہے کہ۔ بال چاندی ہو گئے، سونا ہوئے رخسار بھی۔ اپنی بستی میں آیا تو اسے کس نے پہچاننا تھا؟ اس کی اپنی بچی، اپنی بچی کو گود میں اٹھائے پاس سے گزر گئی۔ اس نے اسے روک کر بتایا، لوگوں کو بتایا کہ وہ کون ہے مگر کون مانتا؟ اسے کسی نے قبول نہ کیا۔ ع اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا۔ مگر مجھے تو آئینے سمیت سب نے پہچان لیا۔ سب کچھ وہی تھا، میں بھی وہی تھا۔ ہاں۔ تو پھر وہ اجنبی رپ وین ونکل تھا۔ اس کا تو کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ وہ تو میرا وہم تھا۔ خواب تھا یا خیال تھا۔ اسی طرح کی سوچوں میں گم، اپنے معمولات سے گزرتا ہوا، میں بالآخر صحن میں پہنچ گیا۔ کتاب پھر نہیں پڑھی جا رہی تھی۔ ’نشاط خواب‘ کا یہ مصرع ذہن میں گھومنے لگا۔ ہر لفظ ایک شخص ہے ہر مصرع آدمی۔ پھر وہ ہوا جس کی مجھے توقع نہ تھی۔ اجنبی پھر آ موجود ہوا۔ مجھے ہکا بکا اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر بولا۔ ”تمہیں یقین نہیں آیا نا کہ میں ہوں؟ لو مجھے ہاتھ لگا کر دیکھو۔ “ اس نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments