مانوس اجنبی


میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں کبھی کوئی ڈرامہ بھی لکھوں گا۔ مگر میرا قلم میرے سامنے ایک ڈرامے کی عمارت بناتا چلا جا رہا تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ میری مرضی کے خلاف ہو رہا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے یہ سب کچھ بڑا اچھا لگ رہا تھا۔ لیکن اتنا مجھے یقین ہے کہ میں شعوری طور پر ڈرامہ لکھنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ البتہ جو ڈرامہ نگار میں نے پڑھ رکھے تھے وہ ضرور اپنا کام کر رہے ہوں گے۔

آخر ایک روز میں نے اجنبی کو ڈرامے کے بارے میں بتایا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ”تو گویا تم مجھے پھر سے کتاب میں بند کرنا چاہتے ہو۔ شاید مجھ سے تنگ آ گئے ہو۔ “

 ”نہیں نہیں۔ “ میں نے کہا۔ ”میں تو تمہارے لیے ویسا گھر بنانا چاہتا ہوں جس کا تم نے ایک بار ذکر کیا تھا، جس میں تم اپنی مرضی سے آ جا سکو، جس میں دوسرے بھی تم سے ملنے کے لیے آ سکیں۔ “

 ”اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ میرے لیے ایک گھر ہی ثابت ہو گا، قید خانہ نہیں؟ “ اس نے پوچھا۔

 ”ضمانت تو کوئی نہیں، کوشش ہے میری اور اگر وہ قید خانہ بھی ثابت ہوا تو بھی اس میں تمہارا صرف ایک ہی وجود قید ہو گا۔ تمہارے ہزاروں وجود پھر بھی آزاد رہیں گے اور ممکن ہے کسی دن کوئی تمہیں اس سے بھی آزاد کرا لے، جیسے میں نے تمہیں اس شطرنج کی کتاب سے آزاد کرایا تھا۔ “

 ”ہوں۔ “ اس نے مسکرا کر آنکھیں چمکاتے ہوئے کہا۔ ”تو میری باتیں تمہاری سمجھ میں آنے لگیں۔ “

 ”ہاں۔ میں تمہیں سمجھنے لگا ہوں۔ تمہاری کہانی بھی صحیح معنوں میں اب کھلی ہے مجھ پر اور مجھے اس کا یقین بھی آ گیا ہے۔ سو فیصد یقین، وہ یقین جس کے لیے میں بے قرار تھا۔ “

 ”لیکن یہ کیسے ممکن ہوا؟ “

 ”یہی ڈرامہ لکھنے کے دوران۔ یہ تحریر بھی عجیب چیز ہے، بلکہ گفتگو بھی۔ بعض اوقات ہم جو بات اپنے خیال میں بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں، لکھنے بیٹھیں یا کسی کو بتانے لگیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ مبہم اور غیر واضح چیز کوئی نہیں اور بعض دفعہ کوئی موضوع، شخص یا واقعہ جس کا دھندلا سا تصور ہمارے پاس ہوتا ہے، گفتگو کے دوران میں یا لکھتے وقت ہم پر وا ہو جاتا ہے، یک دم روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے۔ “

 ”آج تو تم میری طرح بات کر رہے ہو۔ “ اس نے خوشگوار حیرت سے کہا۔

 ”شاید، لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ دوست ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا ہے، تمہاری بدولت بہت کچھ سمجھ میں آیا ہے اور میں نے بھی تمہیں متاثر کیا ہو گا۔ تم نے بھی میری وجہ سے کچھ سیکھا ہو گا، سمجھا ہو گا۔ “

رفتہ رفتہ ڈرامے کے خدوخال واضح ہونے لگے۔ وہ ایک ایسے مکان کی طرح تھا جس کے مکین اس کے مکمل ہونے سے بہت پہلے اس میں آ بسیں اور بیشتر تعمیر اپنی موجودگی میں کرائیں۔ جی ہاں، انہوں نے جو کہا اپنی مرضی سے کہا، جو کیا خود کیا۔ میں نے کسی کے منہ سے اپنے مطلب کی بات کہلوانے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی کسی سے کوئی ایسی حرکت سرزد کرائی جو میرے خیال میں اسے کرنی چاہیے تھی۔ میں نے یہ بھی نہیں کیا کہ کسی عمل پر کوئی ایسا نتیجہ مسلط کر دوں جو اس عمل کا ہو ہی نہیں سکتا۔ سو اس ڈرامے میں تمام باتیں وہی تھیں جو میں نے سنیں اور تمام واقعات وہی تھے جو میں نے دیکھے۔ البتہ میں نے ان میں سے انتخاب ضرور کیا تھا اور ان میں ایک قائل کر دینے والا رشتہ تلاش کر کے انہیں ایک خاص ترتیب بھی میں نے ہی دی۔ بس مصنفوں والا یہی کام تھا جو میں نے کیا۔

یہ ڈرامہ اجنبی اور اس کے ساتھیوں کے لیے ایک گھر ثابت ہوتا ہے یا قید خانہ میں نہیں کچھ کہہ سکتا۔ پہلے جو شک اس کی کہانی کے بارے میں تھا اب اس کے گھر کے بارے میں ہے۔ دراصل مجھے اس نوع کی تعمیر کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ میں نے ایسے گھر بنے ہوئے تو کئی دیکھے ہیں، بنایا پہلی بار ہے۔

(باصر کاظمی نے 1986 ء میں اپنے ڈرامہ ”بساط“ کی اشاعت کے موقع پر یہ تحریر پیش لفظ کے طور پر شائع کی تھی۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments