مانوس اجنبی


 ”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ “ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

 ”پھر تم ہی بتا دو کہ کیا ہوا تھا۔ “ میں نے بے بسی سے کہا۔

 ”جب تمہیں یقین ہی نہیں آئے گا تو بتانے سے فائدہ؟ “

 ”مجھے کیوں یقین نہیں آئے گا؟ “

 ”کسی کو بھی نہیں آیا تھا۔ اوّل تو میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا، کیونکہ اس کی ضرورت نہ تھی، لیکن جن چند دوستوں کو بتایا۔ کیونکہ انہیں بتانا پڑ گیا تھا۔ ان میں سے بھی ایک کے سوا کسی نے یقین نہیں کیا۔ “

 ”میں انسان اور زندگی کے امکانات کے لامحدود ہونے پر ایمان رکھتا ہوں۔ دنیا میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔ تم مجھے بتاؤ تو سہی۔ “

 ”یہ بات ہے تو سنو۔ شہزادی سے شادی میں نے نہیں کی تھی۔ “

 ”کیا؟ کیوں؟ کیا وہ بدصورت تھی؟ کیا اس میں کوئی بڑا نقص تھا؟ “

 ”نہیں۔ اس جیسی حسین عورت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ اور عیب شاید اس میں ہوں لیکن مجھے نظر نہیں آئے۔ بس ایک خرابی تھی اس میں، اس کا بادشاہ زادی ہونا اور اسی بنا پر میں نے اس کے ساتھ شادی کرنے سے معذرت چاہی تھی۔ “

 ”شہزادی ہونا۔ خرابی؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ یہ تو کسی عورت کی سب سے بڑی خوبی سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے والدین خواب دیکھتے رہتے ہیں کہ کسی دن ان کا بیٹا کسی شہزادی کو بیاہ کر لائے یا ان کی بیٹی کے لیے کسی شہزادے کا پیغام آئے۔ “

 ”تم نے اس بادشاہ کی کہانی نہیں سنی جس نے تمام عمر کی جستجو کے بعد آب حیات حاصل کیا، لیکن پھر پینے کا ارادہ ترک کر دیا؟ ہماری بیشتر خواہشات، جو بہت مسحور کن ہوتی ہیں، جب پوری ہو جاتی ہیں یا پوری ہونے لگتی ہیں تو ان کی حقیقت کھلتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نتائج وہ نہیں نکلے جو ہمارے خیال میں نکلنے چاہئیں تھے، وہ خوشی نہیں ملی جس کی ہمیں آس رہی تھی، وہ سکون حاصل نہیں ہوا جس کے لیے اتنا بے قرار رہے۔ اب اگر ہم نے اپنے تخیل کی نشوونما کر رکھی ہے اور ہمیں اس سے کام لینا آتا ہے تو ہم بہت سی خواہشوں، بہت سے کاموں کے انجام سے، بہت پہلے واقف ہو سکتے ہیں۔ شادی کے معاملے میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جس قسم کی شادی ہم کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں فریقین کی زندگی کیسی ہوتی چلی جائے گی۔ ہماری شخصیتیں مائل بہ ارتقا ہوں گی یا روبہ تنزل۔ جو خوشی فوری طور پر حاصل ہو گی وہ برقرار رہے گی؟ جو سکون ملے گا وہ بڑھتا چلا جائے گا یا کم ہوتے ہوتے پریشانی میں بدل جائے گا؟ “

پھر اس نے مجھے بتایا کہ اس کے خیال میں کس طرح شہزادی سے شادی اس کی آزادی چھین لیتی اور اس کی شخصیت کا گلا گھونٹ دیتی۔ میں نے تاریخ میں کئی بادشاہوں اور شہزادوں کے بارے میں پڑھا تھا جنہوں نے کسی مصلحت کے تحت یا کسی عورت کے لیے یا کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے تخت سے دستبردار ہونا بخوشی قبول کیا اور باقی عمر اپنے فیصلے پر پشیمان نہ ہوئے، مگر ایک عام آدمی بادشاہ بن رہا ہو اور نہ بنے، یہ بات آسانی کے ساتھ حلق سے نیچے اترنے والی نہ تھی۔

بہرحال میری اس اجنبی سے دوستی ہو گئی۔ اس سے ملاقاتوں کا درمیانی وقفہ کم سے کم ہوتا گیا۔ اور یہ ملاقاتیں تنہائی تک محدود نہ رہیں۔ وہ بھری محفل میں بھی آجاتا اور ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کرتے۔ مگر اسے میرے سوا کوئی نہ دیکھ سکتا۔ ظاہر ہے، وہ صرف میرے لیے آزاد تھا۔ ہم گلیوں میں پھرتے، باغوں کی سیر کرتے، دوسرے شہروں کے سفر میں بھی وہ میرے ہمراہ ہوتا۔ اگرچہ ہم میں کچھ باتیں مشترک تھیں لیکن ہمارے تعلق کی اصل بنیاد اختلاف رائے تھی۔ ہماری گفتگو بہت جلد بحث کا روپ اختیار کر لیتی۔ زیادہ تر مجھے ہی قائل ہونا پڑتا۔ اس کا تجربہ بے حد وسیع، مشاہدہ نہایت گہرا اور علم بہت ٹھوس اور اپنے مطالعے سے کہیں زیادہ تھا۔ اس کے ساتھ بحثوں میں مجھے اتنا لطف آنے لگا کہ اکثر اس کی بات سے اتفاق رکھتے ہوئے بھی اس سے بحث برائے بحث کرتا، پورے جوش و خروش اور اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ۔ مقصد یہ ہوتا کہ زیر نظر موضوع کے ہر پہلو کو دیکھا جائے۔ یہ باتیں میں اپنے دوستوں سے بھی کرتا اور ان کی باتیں اجنبی سے کرتا۔ تب اسے اپنے دوست اور ان کی باتیں یاد آ جاتیں اور وہ ان کے ساتھ کی گئی بحثوں کا احوال سناتا۔ یوں اس کے دوستوں میں میری دلچسپی پیدا ہو گئی اور یہ دلچسپی بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی کہ میں نے اس سے فرمائش کرنا شروع کر دی کہ وہ مجھے ان سے ملوائے۔ پہلے پہل تو وہ ٹالتا رہا لیکن پھر ایک دن میرے بہت اصرار کرنے پر بولا۔ ”تم بھی کیا یاد کرو گے، چلو آج تمہیں اپنے شہر، اپنے زمانے میں لیے چلتا ہوں۔ البتہ وہاں تم صرف دیکھ سکو گے، سن سکو گے اور اپنے دیگر حواس کا استعمال کر سکو گے مگر نہ تو تم کسی سے بات کر سکو گے نہ اپنی کسی حرکت سے کسی عمل میں خلل ڈال سکو گے۔ ذرّہ برابر بھی۔ کیونکہ وہاں جو کچھ ہونا تھا ہو چکا ہے، اب اس میں کوئی اضافہ یا ترمیم ممکن نہیں۔ صرف اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ “

 ”لیکن تم مجھے وہاں لے کر کیسے جاؤ گے؟ “ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

 ”بہت آسان طریقہ ہے۔ تم آنکھیں بند کرنا اور جب میرے کہنے پر انہیں کھولو گے تو اپنے آپ کو وہاں پاؤ گے۔ “

 ”اور واپس کیسے آؤں گا؟ “

 ”اسی طرح آنکھیں بند کر کے واپسی کا ارادہ کرنا۔ اور بس۔ “

چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا۔ جیسے اک خواب خواب میں دیکھا۔

وہ شہر کیسا تھا، یہ بیان کرنا غیر ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ نے کتابوں میں پرانے زمانے کے شہروں اور لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں بہت کچھ پڑھ رکھا ہے۔ ظاہر کی دنیا آج کی دنیا سے بے حد مختلف تھی۔ ظاہر ہے۔ البتہ انسان کا باطن وہی تھا جو ہم آج دیکھتے ہیں۔ وہی جذبات، وہی خواہشیں، وہی آرزوئیں، وہی خواب، وہی چیزوں کے حصول کی تمنا، وہی دوسروں کو مغلوب کرنے یا پیچھے چھوڑ جانے کی کوشش۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا کہ میں وہاں کی باتیں یہاں کے لوگوں سے کرنے لگتا اور یہاں کی باتیں وہاں یاد آتیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments