مانوس اجنبی


کچھ عرصے بعد میں اس شہر میں جانے کے لیے اجنبی کا محتاج نہ رہا اور وہاں پہنچنے پر اس کی ہمراہی کے بغیر بھی آزادانہ گھوم پھر سکتا تھا۔ غریب کی تنگ و تاریک کٹیا سے لے کر بادشاہ کے وسیع و عریض، جگا جوت روشن محل تک۔ میں جیسے جیسے وہاں کے لوگوں کے بارے میں جانتا گیا ویسے ویسے میرا تجسّس بڑھتا گیا۔ کم ہونے کی بجائے۔ پھر میں اپنے شہر میں کم رہنے لگا اور اس شہر میں زیادہ، یا شاید دونوں شہروں کی درمیانی حدیں مٹ گئی تھیں۔ میرا شہر وہ شہر بن گیا تھا اور وہ شہر، میرا شہر۔ میرے احباب کو تشویش ہونے لگی کہ میں کہاں رہنے لگا تھا اور پھر یہ شکایت بھی کہ میں بیٹھے بیٹھے، آداب مجلس کے خلاف، اچانک بغیر اجازت کہاں غائب ہو جاتا تھا۔

وہاں کے لوگوں کی باتیں یہاں کے لوگوں کی باتوں سے اتنی ملتی جلتی اور ان کے اتنی حسب حال ہوتیں کہ مجھے من و عن یاد رہ جاتیں۔ اور میں انہیں اپنی ڈائری میں نوٹ بھی کر لیتا۔ میں ان کی بحثیں اور تقریریں پہروں سنتا۔ کبھی کوئی مجھے اپنا ہم خیال نظر آتا، کبھی کوئی؛ کبھی کوئی مجھے قائل کرتا دکھائی دیتا، کبھی کوئی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس کا ساتھ دوں، کسے صحیح قرار دوں۔ اگر میں کسی نتیجے تک پہنچ بھی جاتا، کوئی حتمی رائے قائم بھی کر لیتا تو بھی اس کا اظہار ممکن نہ تھا۔ وہ نہ تو مجھے دیکھ سکتے تھے نہ سن سکتے تھے۔ ان کے لیے میرا کوئی وجود نہیں تھا۔ اور تو اور، اجنبی، جو یہاں مجھ سے گھنٹوں مغز کھپائی کرتا تھا، وہاں آنکھ تک نہیں ملاتا تھا، ہم کلام ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔

سو میرے پاس گفتگوؤں یا یوں کہہ لیں کہ مکالموں کا ایک ذخیرہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ چند مناظر اور واقعات کا بیان بھی۔ ہاں یہ مکالمے اور واقعات کسی تاریخ وار ترتیب میں نہیں تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ میرے سامنے جو گفتگو یا واقعہ ہو رہا ہوتا، اس کے بعد کی گفتگو یا واقعہ میں پہلے سے دیکھ چکا ہوتا۔ ایک بات اور۔ یہ تمام گفتگوئیں اور واقعات اجنبی کے شہزادی سے شطرنج کھیلنے اور شادی سے معذرت کرنے سے پہلے کے تھے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اس کے بعد کے زمانے میں جا سکوں مگرمجھے کامیابی نہ ہوئی۔ آخر تنگ آ کر ایک دن میں نے اسی سے اس کا سبب پوچھا۔ وہ مسکرا کر بولا۔ ”تم ابھی تک دل سے قائل نہیں ہوئے کہ شہزادی سے شادی نہیں بھی کی جا سکتی۔ جس روز تمہیں سو فیصد یقین آ جائے گا کہ ایسا ہو سکتا ہے، تم آگے چل سکو گے۔ “

 ”شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ واقعی کبھی کبھی شک کی ایک لہر سی اس واقعے پر چھا جاتی ہے اور پھر مجھے اس سے آگے دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن مجھے ویسا یقین کب آئے گا جیسا تم کہہ رہے ہو؟ “

 ”جب تم انسان اور زندگی کے امکانات کو اس طرح سمجھنے لگو گے جس طرح میں سمجھتا ہوں۔ تمہیں کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ میں یہ کہہ کر کہ میں نے بادشاہت کو ٹھکرا دیا تھا، بادشاہوں سے اپنی محکومی اور محرومی کا بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں توہین کرنے کو، انتقام لینے یا سزا دینے کا گھٹیا ترین طریقہ سمجھتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں بادشاہت کو، خواہ وہ نام کی بادشاہت ہو، اپنے دل و دماغ کی گہرائیوں سے نہ صرف رعایا کے لیے بلکہ خود بادشاہ اور شاہی خاندان کے لیے بھی سخت مضر سمجھتا ہوں۔ کوئی معاشرہ خواہ کتنا ہی خوشحال، ترقی یافتہ، پرسکون اور شاندار کیوں نہ ہو، اگر وہاں بادشاہت آ جائے تو اس کی مثال اس ہرے بھرے تن آور درخت کی سی ہو گی جسے دیمک لگ جائے۔ یا کوئی ایسا خوش باش اور صحت مند شخص جسے معلوم نہ ہو کہ وہ ایک انتہائی مہلک مرض کا شکار ہو چکا ہے۔ “

 ”بادشاہت کے بارے میں تمہارے خیالات یہ ہیں اور کھیل تمہیں وہ پسند ہے جس میں سب کچھ بادشاہ کے گرد گھومتا ہے۔ شاطر کی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ بادشاہ کو بچایا جائے، چاہے سارے مہرے قربان کر دینے پڑیں۔ اور جب بادشاہ کے لیے بساط پر کوئی گھر نہیں بچتا تو بازی ختم ہو جاتی ہے، بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ “ میں نے اپنی طرف سے اسے لاجواب کر دیا تھا مگر وہ ایسے خوش ہو گیا جیسے میں نے اسی کی بات کی حمایت میں کوئی فیصلہ کن دلیل سجھا دی تھی۔

 ”یوں بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ شاطر کی تمام تر کوششیں بادشاہ کو بے گھر کرنے اور بساط سے اٹھا دینے میں صرف ہوتی ہیں۔ بڑی سے بڑی قربانیاں دے کر بھی۔ اس کا اپنا بادشاہ جسے ہر قیمت پر بچانا ہوتا ہے محض ایک علامت، ایک استعارہ ہوتا ہے، اس کی شخصیت کا، اس کے اعلیٰ ترین مقاصد کا، اس پورے نظام کا جس پر اس کے معاشرے کی زندگی کا دارو مدار ہوتا ہے۔“ اس نے فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ میں حسب سابق چپ ہو گیا۔

جب کوئی چیز لکھی جاتی ہے تو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ لکھنے والے سے آزاد، اپنا ایک الگ وجود حاصل کرے۔ اور اس کے لیے اسے کسی ہیئت کی ضرورت، چنانچہ تلاش ہوتی ہے۔ اب میرے پاس جو تحریری مواد اکٹھا ہو چکا تھا اس کے لیے ڈرامے کی ہیئت میں سمانا سہل تھا۔ شاید، سو وہ ڈرامے ہی کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ ممکن ہے کوئی ناول نگار اس مواد سے ناول لکھتا اور اگر ہیئت کا تعین میرے اختیار میں ہوتا تو میں ایک شعر گو ہونے کے سبب کوئی طویل نظم یا مثنوی لکھنے کی کوشش کرتا لیکن بزرگوں نے بتا رکھا تھا کہ خیال اپنے لیے ہیئت کا انتخاب خود کرتا ہے اور اگر اس پر کوئی ہیئت مسلط کر دی جائے تو دونوں بغاوت کرتے ہیں اور مصنف کے لیے نہ صرف خود عذاب بن جاتے ہیں بلکہ قارئین کے ذریعے بھی احتجاج کرواتے رہتے ہیں۔ قارئین انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور بالآخر کامیاب ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments