بدرو جولاہا جو پروپیگنڈے سے بادشاہ بن گیا


بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر اس نے شیر کا سر سیدھا بادشاہ کے قدموں میں پھینکا اور فاتحانہ انداز میں بنکارا ”تم اور تمہارے سپاہی تو بالکل ہی بزدل نکلے۔ میں اس خونخوار شیر سے مسلسل سات دن اور سات راتیں لڑتا رہا اور مجھے ایک لقمہ کھانا اور ایک گھونٹ پانی بھی نصیب نہ ہوا جبکہ تم اور تمہارے فوجی یہاں کھاتے پیتے اور موج کرتے رہے۔ کتنی شرمناک بات ہے۔ لیکن بہرحال مجھے احساس ہے کہ سب لوگ میری طرح بہادر سورما نہیں ہوتے۔ “

بادشاہ نے بدرو کی شادی شہزادی سے کر دی اور لوگوں میں بدرو کی پہلے سے بھی زیادہ دھاک جم گئی۔

اب کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک طاقتور راجہ نے بڑی سی فوج کے ساتھ شہر پر حملہ کر دیا۔ اس نے شہر کا محاصرہ کر لیا اور قسم کھائی کہ کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور اس کی فوج بددل ہو کر حوصلہ کھو بیٹھی۔ شہری موت سامنے دیکھ کر بہادر بدرو کے محل کے سامنے جمع ہو گئے اور شور مچانے لگے ”بہادر بدرو ہمیں بچا لو“۔ بدرو نے انہیں تسلی دی اور بنکارا ”صبح دیکھنا یا تو بدرو نہیں ہو گا یا یہ فوج زندہ نہیں بچے گی۔ تم سکون سے اپنے اپنے گھر جا کر سو جاؤ“۔ سب شہری مطمئن ہو کر چلے گئے۔ بادشاہ نے اعلان کر دیا کہ بہادر بدرو نے اس لشکر کو شکست دے دی تو وہ اسے اپنی آدھی سلطنت دے دے گا۔

اب بہادر بدرو اپنی تمام لن ترانیوں کے باوجود بے وقوف ہرگز نہیں تھا۔ وہ سوچنے لگا ”یہ بہت الگ صورتحال ہے۔ ایک بہادر آدمی ایک مچھر مسل سکتا ہے، ایک ہاتھی کو ہلاک کر سکتا ہے، ایک شیر کو مار سکتا ہے لیکن سامنے ایک دوسرا آدمی ہو تو وہ خود اسے بھی مار سکتا ہے۔ اور یہاں تو ایک آدمی نہیں پوری فوج کی فوج ہے۔ اگر میرے کاندھوں پر سر ہی باقی نہیں رہا تو میں آدھی سلطنت کا کیا کروں گا؟ بہتر ہے کہ میں بہادری دکھانے کی حماقت نہ کروں“۔

آدھی سے زیادہ رات گزری تو بہادر بدرو نے اپنی بیوی کو اٹھایا اور اسے حکم دیا کہ سونے چاندی کے تمام برتن ایک گٹھڑی میں باندھ لے۔ ”ایسا نہیں ہے کہ مجھے ان سونے چاندی کے برتنوں کی اپنے گھر میں کوئی کمی ہے، وہاں تو ڈھیر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن یہ راستے میں کام آئیں گے“۔ بہادر بدرو نے اپنی بیوی کو بتایا۔

دونوں میاں بیوی اندھیری رات میں باہر نکلے اور دشمن کے لشکر کے محاصرے میں سے دبے قدموں گزرنے لگے۔ وہ لشکر کے عین درمیان میں پہنچے ہی تھے کہ ایک موٹا سا پروانہ اندھیرے میں زور سے بدرو کے چہرے سے ٹکرایا۔ خوف سے بدرو کی چیخیں نکل گئیں اور اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر وہ زور سے چلایا ”بھاگو بھاگو دشمن نے حملہ کر دیا ہے“۔

اس کی بیوی کے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ اس نے سر سے اپنی گٹھڑی اتار کر زور سے زمین پر پھینکی۔ ہر طرف برتنوں کی دھاتی جھنکار گونجنے لگی۔ وہ دونوں واپس اپنے گھر کی طرف بھاگے اور کانپتے ہوئے اپنے پلنگ کے نیچے جا کر چھپ گئے۔

ادھر دشمن کے نیند سے مدہوش لشکریوں نے جب للکار سنی کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے اور پھر دھات سے دھات کے ٹکرانے کی زور دار آوازیں گونجنے لگیں تو ان کے اوسان خطا ہو گئے۔ اندھیری رات میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ جس کے ہاتھ جو ہتھیار لگا وہ اٹھا کر دوسرے پر ٹوٹ پڑا۔ سب ایسی بے جگری سے لڑے کہ اگلی صبح اس لشکر میں ایک سپاہی بھی زندہ نہ بچا۔

ساری رات شہری ایسی زبردست لڑائی کا شور سن کر اپنے اپنے گھر میں چھپے کانپتے رہے۔ صبح جب دن چڑھا اور لڑائی کا شور بھی ختم ہو گیا تو وہ باہر نکلے۔ انہوں نے دیکھا کہ بہادر بدرو خون میں ڈوبی ہوئی تلوار ہاتھ میں تھامے، لہو سے رنگین ہوئی زرہ بکتر اور خود پہنے دشمن کے لشکر کے سامنے کھڑا ہے اور تمام دشمن مرے پڑے ہیں۔ بدرو نے صبح سویرے ہی جنگی لباس پہن کر اسے مرے ہوئے دشمنوں کا خون لگا دیا تھا۔

بہادر بدرو نے بے نیازی سے کہا ”یہ تو میرے کوئی خاص کام نہیں تھا۔ جب ایک آدمی اپنی نلکی پھینک کر دور سے ہی ایک مچھر کو مسل سکتا ہو تو باقی سب جنگ و جدل اس کے لئے بچوں کا کھیل ہوتا ہے“

شہریوں نے نعرے لگاتے ہوئے بہادر بدرو کو کاندھوں پر اٹھا لیا۔ بادشاہ نے اپنے وعدے کے مطابق اسے آدھی سلطنت دے دی جہاں بہادر بدرو شان و شوکت سے راج کرنے لگا۔ لیکن اس کے بعد وہ کبھی لڑائی کے میدان میں نہیں گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ بادشاہ خود کبھی نہیں لڑتے، لڑنے کے لئے انہوں نے تنخواہ دار سپاہی رکھے ہوتے ہیں۔

بہادر بدرو کا سکہ ایسا جما کہ جب تک وہ زندہ رہا، ارد گرد کے کسی بادشاہ نے اس کی سلطنت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور جب وہ مرا تو سب نے کہا کہ بہادر بدرو سے بڑا سورما دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا جو محض ایک نلکی دور سے ہی پھینک کر ایک مچھر مسل سکتا تھا، اپنی چھنگلی سے دھکا دے کر پاگل ہاتھی مار سکتا تھا، مسلسل سات دن رات تک خونخوار شیر سے لڑ کر اس کا سر کاٹ سکتا تھا اور تن تنہا ہزاروں کے لشکر کو قتل کر سکتا تھا۔

پیارے بچو۔ اس کہانی سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آدمی میں صلاحیت ہونا ضروری نہیں ہے، اگر قسمت اچھی ہو اور وہ بڑے بڑے دعوے کر کے لوگوں کو بے وقوف بنا سکتا ہو تو وہ بادشاہ بن سکتا ہے۔
ایک قدیم دیسی حکایت۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar