یک طرفہ محبت کے بارے میں کچھ خیالات۔۔۔


حال ہی میں ڈاکٹر خالد سہیل کا محبت پر دلچسپ مضمون” کیا آپ محبت کی نفسیات سے واقف ہیں؟” پڑھا۔ کیا ہی خوبصورت تحریر ہے۔

محبت وہ جذبہ ہے جس کا تجربہ ہم سب ہی کر چکے ہیں۔ کم یا زیادہ۔ ہر کوئی اسے اپنی نظر سے دیکھتا اور اپنے تجربے سے جانچتا ہے۔ اگر آپ اس تجربے سے نہیں گذرے تو آپ ایک بہت حسین احساس سے محروم ہیں۔ محبت ایک بہت طاقتور جذبہ ہے اور پوری طرح آپ کو گھیر لیتا ہے۔ آپ کا دل و دماغ اسی کے محور میں گھومتا ہے۔ شعور اور لاشعور دونوں کی ڈور اسی سے بندھ جاتی ہے۔ جی کسی کام میں نہیں لگتا۔ بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے کا سا عالم طاری رہتا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ محبت نرا جی کا جنجال ہے۔ وقت کا زیاں ہے۔ ایک بے کار کا روگ ہے۔ دیکھیے ہمارے میرؔ صاحب کی کیا حالت ہو گئی تھی

چلا نہ اٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میرؔ

ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں

میرؔ سے کوئی سو برس بعد داغ دہلوی آئے تو ان کے احباب کو بھی ایسی ہی آزمائش سے گزرنا پڑا۔

داغ وارفتہ کو ہم رات ترے کوچے سے

اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

محبت کا جواب اگر محبت سے ملے تو بہت اچھا۔ محبت پنپتی ہی اس وقت ہے جب دو طرفہ ہو۔ اور اگر ملاپ بھی ہو جائے تو کیا ہی بات ہے۔ لیکن محبت کی ایک افسردہ قسم بھی ہے۔ وہ ہے یکطرفہ محبت۔

محبت کے ہو جانے کے بعد یہ دھڑکا کہ کیا یہی آگ ادھر بھی ہے؟ یا ہم تنہا ہی جل رہے ہیں؟۔ نوعمری میں اگر کوئی اچھا لگنے لگے تو اسے کرش ہی کہیں گے۔ یہ کچھ عرصہ رہتا ہے پھر آپ کسی اور طرف دھیان دینے لگتے ہیں۔ لیکن بالغ عمرمیں محبت ہو اور اگر یک طرفہ ہو تو مسلئہ ہو سکتا ہے۔ دوسرا فریق اگر لاتعلق ہے تو یہ محبت نہیں کہلائے گی۔ یہ ایک اوبسیشن ہے۔ آپ کسی پر مرے جا رہے ہیں اور وہ بے خبر ہے۔ اور اگر آپ نے دل کی بات اسے بتا ہی دی تو وہ کترا رہا ہے۔ یہاں آپ کو سمجھ جانا چاہیئے کہ راہیں جدا ہیں۔ محبوب کی بات مان لیں اور اسے اپنی انا کا مسلئہ مت بنایں۔ محبوب کہاں جاتا ہے۔ کس سے ملتا ہے۔ اس کی کس کس سے دوستی ہے۔ یہ سب آپ کے مسائل نہیں۔ اپنے کام سے کام رکھیں۔ حسد کی آگ میں جلنے سے بھی نقصان اپ ہی کا ہے

یکطرفہ محبت بہت دردناک ہوتی ہے۔ بہت دکھی کر دیتی ہے۔ اس کے اثرات گہرے ہوتے ہیں۔ وقت کی دھول اسے دھندلا تو دے گی لیکن شاید پوری طرح مٹا نہ سکے۔ یہ تجربہ نہایت دل دکھانے والا ہے۔ محبت کا جواب محبت سے نہ ملنے کی کئی معقول وجوہات ہو سکتی ہیں۔

عمروں کا بہت ذیادہ فرق۔ ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا۔ فاصلے۔

دوسرے فریق کا کہیں اور لگاو۔

سماجی، روایتی، اقتصادی اور مذہبی فرق۔ جنسی کشش کی کمی۔

اگر آپ یکطرفہ محبت میں گرفتار ہو چکے ہیں تو جان لیں کہ یہ راہ دشوار ہے، ہمسفر کوئی نہیں اور نہ ہی کہیں منزل ہے۔

یکطرفہ محبت دل کا ٹوٹنا ہے۔ یہ اپنے آپ سے جنگ ہے۔ اور اس جنگ میں آپ خود اپنے آپ کو توڑ پھوڑ رہے ہیں۔ آپ چلتے پھرتے خودکش بمبار ہیں اور آپ خود اپنے ہی نشانے پر ہیں۔ لیکن ان سب خطرات اور متوقع منفی نتائج کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ آپ محبت کریں ہی نا۔ محبت کر کے ہار جانا محبت نہ کرنے سے پہتر ہے۔ اگر آپ کی یکطرفہ محبت بے لوث ہے اور بدلے میں کچھ نہیں مانگتے کچھ نہیں جاہتے تو یہ آپ کو عشق کے درجے پر پہنچا سکتی ہے۔ لیکن عشق ایک کل وقتی کام ہے یہ دنیا سے آپ کو بے گانہ کر دے گا۔ اچھے بھلے کام کے آدمی کو نکما کر دیتا ہے۔ بے غرض محبت آپ چپ چاپ جب تک چاہیں کیئے جایں۔ کوئی کچھ نہیں کہے گے۔

اگر آپ نے محبوب کے سامنے دل کھول دیا ہے اور وہ یہ کہے کہ ہم اچھے دوست ہیں تو اشارہ سمجھ لیں۔ چیپکو ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر بھی آپ امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں کہ شاید کسی دن وہ بھی آپ کی لگن دیکھتے ہوئے آپ پر فدا ہو جائے گا۔ تو ایسا صرف ڈراموں اور فلموں میں ممکن ہے۔ حقیقی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کے یئے کچھ اور اشارے ہیں محبوب کی غیر دلچسپی سمجھنے کے لیئے۔ یہ مرد اور عورت دونوں پر لاگو ہے۔

اگر وہ ملنے کا پلان بار بار کینسل کر دے۔

اگر آپ کے پانچ میسجز کے بعد یہ کہے کہ بزی ہوں۔

اگر وہ آپ کی سالگرہ بھول جائے۔ حالنکہ آپ اشاروں اشاروں میں کئی بار بتا چکے ہیں۔

اگر آپ کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اس کا زیادہ وقت اپنے موبائل کو چیک کرنے میں گذرے۔

اور اگر وہ یہ کہے ” میرے لیئے ماں باپ کی خوشی سب سے اہم ہے” عقلمند کے لیے اشارہ کافی۔

فارسی میں کہتے ہیں کہ ” بہ میر برائے کسہ کہ برات تپ کنہ” یعنی اس پر جان دو جو تمہارے لیے بخار تو چڑھا لے۔ تو خودی کو ذرا بلند کیجئے محبوب اگر آپ کی رضا جانتے ہوئے بھی اپنی رضامندی نہیں دے رہا تو وہاں سے اٹھ جایئے۔ مرزا غالب بھی یہ کہہ کر چل دیئے تھے کہ

دائم پڑا ہوا تیرے در پر نہیں ہوں میں

محبت اگر محبت رہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر یہ اوبسیشین بن جائے یعنی محبت میں کچھ کچھ جنون شامل ہو جائے تو ایک انتہائی منفی صورت حال ہو گی۔ یہاں آپ خودغرض بن کر صرف اپنے لیے سوچ رہے ہیں۔ کچھ کچھ خودترسی میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اور انتقامی خیالات بھی دماغ میں گھس سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو آپ خود سے لڑ رہے ہیں اور ہار بھی آپ ہی کی ہوگی۔ اپنی شخصیت کا احترام کیجیئے اسے توڑ پھوڑ سے بچایئے۔

اب اگر آپ کا دل ٹوٹ ہی گیا ہے اور آپ مان بھی چکے ہیں تو خود کو کچھ وقت دیجیئے اس کا غم منایئے اور پھر آگے بڑھ جایئے۔ کوئی بھی دکھ کوئی بھی درد دائم نہیں ہوتا۔

محبت میں محبوب کی خوشی آپ کی ترجیح ہوتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں۔

” اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اسے آزاد کر دیں۔ اگر وہ آپ کا ہے تو پلٹ آئے گا اور اگر نہیں آیا تو وہ کبھی آپ کا تھا ہی نہیں۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).