منٹو بت شکن اور صنم تراش تھا، اردو ادب کے سب سے بڑے آذر کا تراشا ہوا ایک مجسمہ: رفیق غزنوی


لیکن اس نے یہ تسلیم کیا کہ اب رفیق کی آواز میں وہ پہلی سی چمک دمک نہیں رہی اور یہ محض عمر کا تقاضا ہے، جہاں تک علم کا تعلق نور جہاں اسے گُنی کہتی ہے۔

اس کے ایک گُن کا میں بھی متعرف ہوں۔ وہ بے شرم ہے، بے حیاء ہے، بے غیرت ہے لیکن اوباش نہیں۔ اس کی افتاد عام آدمی کی نہیں ایک آرٹسٹ کی افتاد ہے۔ وہ اگر شریعت کا پابند نہیں تو مروجہ قوانین کا پابند ضرور ہے۔ وہ اگر کسی کا دوست نہیں تو کسی کا دشمن بھی نہیں۔ وہ اگر صحیح معنوں میں کسی عورت کا شوہر نہیں تو جہاں تک میں سمجھتا ہوں آج تک اس نے کسی عورت کو مجبور نہیں کیا کہ وہ صحیح معنوں میں اس کی بیوی بنے۔

شریف عورتیں چونکہ اس کے مطلب کی نہیں اس لیے وہ ان کا احترام کرتا ہے۔ غیر شریف عورتیں چونکہ اس کو اچھی لگتی ہیں اس لیے وہ ان کی بے حرمتی کرتا ہے۔ بینک میں روپیہ ہوتو اچھے اور شاندار کپڑے پہننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ بینک بیلنس خالی ہو تو اچھے اور شاندار کپڑے پہننا ضروری سمجھتا ہے۔

دلی کے ایک معزز ہندو خاندان کی ایک تعلیم یافتہ نوجوان دوشیزہ کو اس سے محبت ہوگئی۔ دیر تک وہ رفیق کو عشقیہ خطوط لکھتی رہی۔ رفیق بمبئے میں تھا کہ اس کا ایسا خط آیا کہ رفیق پریشان ہوگیا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ رفیق اور پریشانی۔ دو متضاد چیزیں؟

رفیق نے ساری رام کہانی سنائی اور کہا۔ ”منٹو، یہ لڑکی پاگل ہوگئی ہے۔ میں ایک ہرجائی مرد ہوں۔ مجھے اس افلاطونی محبت سے کیا واسطہ۔ کہتی ہے گھر سے بھاگ کر میرے پاس آجائے گی۔ آجائے ٹھیک ہے لیکن میں کب تک اس کی شریف اور پاکیزہ محبت سے چپکارہوں گا۔ خدا کے لیے تمام شریف عورتیں اپنے گھر میں رہیں۔ شادی کریں، بچے جنیں اور جائیں جہنم میں، مجھے ان کا عشق درکار نہیں۔ میری ساری عمر گزر گئی، کھوٹے سکے چلاتے۔ کَھرے مجھ سے نہیں چلیں گے۔ “

چنانچہ رفیق نے اس ہندو دوشیزہ کو ایسا دل شکن خط لکھا کہ وہ اپنے ارادے سے باز آگئی۔

رفیق پر یہ مضمون تشنہ ہے۔ مجھے اس کا شدید احساس ہے اس پرکسی اخبار، رسالے یا کتاب کے لیے جب بھی کوئی مضمون لکھے گا، تشنہ ہی رہے گا اس لیے کہ اس کی ہزار پہلو شخصیت کا احاطہ چند صفحات نہیں کرسکتے۔ زندگی میں اپنے تاثرات قلم بند کرکے ایک مکمل کتاب کی صورت میں پیش کروں گا۔

آخر میں ایک لطیفہ سن لیجیے۔

فلم ”چل چل رے نوجوان“ کے زمانے میں رفیق نے پروڈیوسر ایس مکر جی، ڈائریکٹر گیان مکر جی، اشوک کمار، شنتوشی، شاہد لطیف اور میری دعوت کی۔ ہم سب رفیق کے مکان واقع شواجی پارک پہنچے۔ رفیق ہلکے ہلکے سرور میں ہارمونیم سامنے رکھ کر فرش پر بیٹھا تھا۔ پاس ہی شیداں تھی اور اس کا بھائی۔ ہم پہنچے تو اس نے ہمارا استقبال کیا۔ میرا گالیوں سے اور باقیوں کا سلاموں سے۔

شراب کے دور تین دور چلے۔ دوسروں کو اس نے سکاچ دی اور مجھے ”سولن“ کی یعنی دیسی۔ میں خاموش رہا۔ وہ حسبِ عادت بات بات پر مجھے گالیاں دیتا رہا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ کھانا لگایا گیا۔ حسب معمول اس نے مرغے کے گوشت کے اچھے اچھے ٹکڑے نکال کر اپنی پلیٹ میں رکھ لئے۔

کھانا کھانے کے بعد ایک ایک کرکے سب چلے گئے۔ میں بیٹھا رہا۔ شیداں اندر جا کے سو گئی۔ رفیق زیادہ پینے کا عادی نہیں۔ وہ پہلے ہی سے بمبئی کی زبان میں ”چکار“ تھا۔ مرغن کھانوں سے اس کی آنکھیں مُندنے لگیں۔ میں چپکے سے اٹھا، دوسرے کمرے میں جا کر بڑے اطمینان سے الماری کھولی اور سکاچ کی بوتل اٹھا لیا۔ آدھی سے کچھ زیادہ تھی۔ میں آرام سے پیتا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے سالے کو بھی دیتا رہا۔ کبھی کبھی رفیق کو اکسا دیتا اور وہ غنودگی کے عالم یں چند لکنت بھری گالیاں منہ سے اگل دیتا۔

اب میں نے جو مغلظات بکنا شروع کیں تو رفیق بلبلا اٹھا۔ میری گالیوں کی فہرست کوئی اتنی لمبی چوڑی نہیں۔ دو تین مرتبہ منہ بھرا تو ختم ہوگئیں۔ میں نے یہ استادی کی کہ گالی آدھی کرتا اور دوسری آدھی گالی کے ساتھ جوڑ کر لڑھکا دیتا۔ اس ترکیب سے بھی زیادہ دیر تک کام نہ چلا لیکن میں نے سوچا کم بخت کو ہوش کہاں ہے جو الم غلم منہ میں آئے، نکال باہر پھینکو۔ چنانچہ میں نے یہی کہا۔ رفیق نشے سے چُور پیچ و تاب کھاتا رہا۔ آخر اس نے مردہ آواز میں کہا۔ ”جانے دو منٹو میری جان۔ میں تھک گیا ہوں۔ مجھ میں اب گالیاں دینے کی سکت نہیں ہے۔ “

میں یہی تو چاہتا تھا کہ اس میں سکت نہ ہو ورنہ میں اور اس کے مقابلے کی جرأت کرتا؟

میں نے اس پر یہ مضمون لکھا ہے جسے پڑھ کر وہ یقیناً اپنے مخصوص انداز میں مجھے بڑی نستعلیق گالیاں دے گا۔ لیکن میں لاہور میں ہوں، وہ کراچی میں۔ فی الحال تو محفوظ ہو۔ لاہور آئے گا تو میں اس کی مغلظات سن لوں گا۔ پھر اس کی دعوت کروں گا اور جم خانہ وسکی میں اسپرٹ گھول کر۔ خود پی لوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments