منٹو بت شکن اور صنم تراش تھا، اردو ادب کے سب سے بڑے آذر کا تراشا ہوا ایک مجسمہ: رفیق غزنوی


نور جہاں غالباً اس کے ہتھے چڑھ جاتی لیکن وہ بہت بری طرح ڈائریکٹر سید شوکت حسین رضوی کی محبت میں گرفتارتھی۔ میں اس کے متعلق کسی قدر تفصیل اپنے مضمون ”نور جہاں سرور جاں“ میں لکھ چکا ہوں۔ البتہ رقاصہ ستارہ بغیر رفیق کی خواہش کے اور بغیر ارادے کے سرفراز ہوگئی۔

اروڑہ اور اس کا جھگڑا تھا۔ بیچ میں نذیر (ایکٹر) بھی تھا۔ اس تگڈم کی گرہیں کھولتے کھولتے رفیق نے ستارہ کی گرہ بھی کھول دی۔ کچھ اس طرح کہ اس کا پتا رفیق کو چلا نہ ستارہ کو۔

سہراب مودی ”سکندر“ بنا رہا تھا۔ ظہور احمد پون پُل(بمبئی میں ) جسم فروشوں کی منڈی سے ایک نووارد اور نوجوان طوائف مینا کو لے اڑا تھا۔ اس نے اس نوخیز کو اپنی بیوی بنالیا تھا۔ وہ منروا مووی ٹون میں ملازم تھی۔ رفیق غزنوی نے ”سکندر“ کے لیے ایک مارشل کورس مرتب کیا۔ اس کے بول شاید یہ تھے۔

زندگی ہے پیار سے، پیار سے بتائے جا

حسن کے حضور میں اپنا سر جھکائے جا

یہ کورس بہت مقبول ہوا۔ شاید اسی خوشی میں اس نے مینا کے حُسن کے حضور میں اپنا سر جھکا دیا مگر زیادہ دیر تک جھکائے نہ رکھا، تین چار سجدےکیے اور مصلّے اٹھا کر چل دیا۔

پون پُل ہی میں حیدر آباد سے دو بہنیں غالباً شہزادہ معظم جاہ سے اپنی جان چھڑا کر آباد ہوئیں۔ بڑی کا نام اختر تھا چھوٹی کا انور۔ ان کا وطن دراصل آگرہ تھا۔ انور بالی عمر کی تھی۔ یہی کوئی چودہ پندرہ برس کی۔ دونوں مجرا کرتی تھیں۔ انور کی مسی کی رسم ابھی تک ادا نہیں ہوئی تھی۔ بڑی پر ہمارے دلی کے ایک دوست ہلدیہ صاحب سو جان سے فدا تھے۔

ایک رات مجھے ہلدیہ صاحب کے ساتھ ان دو بہنوں کے بالا خانے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ مجرا سننے کے بعد باتیں شروع ہوئیں تو رفیق غزنوی کا ذکر آیا۔ میں نے کہا۔ ”بڑا حرام زادہ ہے۔ “

چھوٹی (انور) نے ایک تیکھی سی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا۔ ”آپ کی شکل اس سے ملتی جلتی ہے۔ “

مجھ سے کوئی جواب بن نہ آیا اور پیچ و تاب کھا کے رہ گیا۔

اس واقعے کا ذکر میں نے رفیق سے کیا۔ وہ ان کو نہیں جانتا تھا۔ مجھ سے پتہ پوچھ کر اس نے ان کے یہاں آنا جانا شروع کردیا۔ میرا خیال ہے یہ سلسل کم از کم ایک برس تک جاری رہا۔ رفیق نے پیشگوئی کی کہ انور ایک بہت بڑی مغنیہ بنے گی اور ٹھمری گانے میں اس کا کوئی جواب نہ ہوگا۔ یہ صحیح ثابت ہوئی۔ جن لوگوں نے اسے سنا ہے اس کی تصدیق کریں گے۔

بمبئے کے بعد میں نے انور بائی آگرے والی کو دلی ریڈیو اسٹیشن میں دیکھا۔ جہاں میں ان دنوں ملازم تھا۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی۔ اللہ اللہ کیا انقلاب تھا۔ چند برسوں ہی میں یہ کایا پلٹ۔ پون پُل کا وہ چلبلا پن، وہ شریف اور تیکھا غمزہ معلوم نہیں کون ظالم اس کے وجود سے نوچ کر لے گیا تھا۔ اب وہ ایک لمبی آہ تھی۔ بڑی نازک ہوا کے ہلکے سے ہلکورے سے بھی جس کے ہزار ٹکڑے ہو سکتے تھے۔

مائیکرو فون کے سامنے گاؤ تکیے کا سہارا لے کربیٹھی اور تانبورے کے ساتھ اپنی سُر لگا دیتی کہ اس کی نحیف گردن کو سر کا سارا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ پر وہ گاتی اور اس کی آواز سننے والوں کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی۔

رفیق گویا کم ہے مداری زیادہ ہے۔ وہ آپ کو اپنا گانا سنانے سے پہلے ہی وجد میں لے آئے گا۔ باجے کے کسی سر پر انگلی رکھے گا اور خود پر سرتاپا رقت طاری کرکے کہے گا ”ہائے“ یہ ہائے بہت لمبی ہوگی۔ پھر وہ دوسرے سُر کو دبائے گا اور اس سے لمبی ”ہائے“ اس کے حلق سے نکلے گی جو سامعین کے رونگٹے کھڑے کردے گی۔ اس کے بعد وہ باجے میں مزید ہوا بھرے گا۔ اس کی آنکھوں کی تلیاں اوپر چڑھ جائیں گی۔ ایک جگر دوز آہ اس کے سینے کی گہرائیوں سے نکلے گی اور جب وہ کسی اور سُر پر انگلی رکھے گا تو اس پر حال کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ قریب ہوگا کہ سننے والے اپنے کپڑے پھاڑنے اور سر کے بال نوچنے لگیں تو ایک دم بے وہ تحاشا ہنسنا شروع کردے گا اور باقاعدہ گانے لگے گا۔ آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ پیاسی زمین پر ساون کی جھڑی کھل کر برس جانے کے بعد کوئی ماشکی اپنے مشک سے چھڑکاؤ کررہا ہے۔

ستارہ دیوی

گاتے وقت بہت بُرے بُرے منہ بناتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے قبض ہے۔ اس کے پیٹ میں شدت کا درد ہے جس کے باعث وہ پیچ و تاب کھا اور کراہ رہا ہے۔ اس کو گاتے دیکھ کر (خاص طور پر جب وہ کوئی پکا گانا گارہا ہو) یا تو خود آپ کو تکلف ہوگی یا اس کی حالت پر ترس آئے گا اور آپ خلوص دل سے دعا کریں گے کہ خدا اسے اس کرب سے نجات دلائے۔

عذرا میر نے بمبئے کے بہت دولت مند یہودیوں کے ساتھ مل کر لاکھوں کے سرمائے سے ایک فلم کمپنی قائم کی تو اپنے پہلے فلم ”ستارہ“ کے میوزک کے لئے رفیق غزنوی کو منتخب کیا۔ عذرا میر خوبصورت ہے۔ اس کے ساتھ یہودی سرمایہ داربھی خوش شکل اور رعب داب والے تھے۔ رفیق جب ان کے ساتھ کھڑا ہوتا تو بالکل الگ نظر آتا تھا۔ اس کی شان ہی دوسری تھی۔

رفیق جب کام شروع کرتا ہے تو بڑے ٹھاٹ سے۔ ایک سو سا زندے ہوں گے جن کے جھرمٹ میں کھڑا وہ سب کو ہدایات دے رہا ہوگا۔ پنجابی میراثیوں کے ساتھ میراثی پن چلے گا۔ بات بات پر پَھبتی اور جگت۔ جو کرسچیئن ہیں، ان سے انگریزی میں مذاق ہوتے رہے ہیں جو۔ پی کے ہوں گے ان سے اردو میں شستہ کلامی ہوگی۔

ایک دن رفیق دفتر میں عذرا میر کے ساتھ بیٹھا فلم کے کسی گانے کے متعلق تبادلہ خیالات کررہا تھا۔ میں بھی پاس بیٹھا تھا۔ کوئی بات کرتے کرتے وہ رک گیا۔ دفتر سے دور میوزک روم تھا۔ وہاں سازندے اس کی ایک کمپوزیشن کی ریہرسل کررہے تھے۔ رفیق نے اپنے کان کا رخ اس طرف کیا جہاں سے آواز آرہی تھی اور ناک بھوں چڑھا کر بڑے اذیت بھرے لہجے میں کہا۔ ”ڈیش اِٹ۔ ایک وائلن آؤٹ اَوف ٹیون ہے۔ “ اور اٹھ کر میوزک روم کی طرف چلا گیا۔

مجھے موسیقی سے کوئی شغف نہیں مگر میں نے اپنے وقت کے تمام بڑے بڑے گانے والوں اور گانے والیوں کو سنا ہے لیکن راگ و دویا نہیں سیکھ سکا۔ لیکن میں رفیق کے متعلق اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ سُریلا نہیں۔ موسیقی کا علم وہ کہاں تک جانتا ہے اس کے بارے میں رائے دینا میری طرف سے بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ البتہ وہ لوگ جو خود موسیقیار ہیں اور جن کا موسیقی کے میدان میں کافی نام ہے۔ ان میں سے اکثر کا یہ کہنا ہے کہ رفیق بے سُرا ہے۔ سُر سے ایک ایک دو دو ”سوتر“ ہٹ کر گاتا ہے۔

تھوڑے ہی دن ہوئے نور جہاں سے باتیں ہورہی تھیں کہ رفیق کا ذکر چھڑ گیا۔ میں نے اس سے رفیق کے بارے میں دوسروں کی مندرجہ بالا تنقیص کا ذکر کیا تو اس نے جیب دانتوں تلے دبا کر اور دونوں کانوں کو اپنی انگلیوں سے ُ چھوتے ہوئے کہا۔ ”توبہ، توبہ۔ یہ محض افترا ہے۔ وہ استاد ہے، اپنی طرز کا واحد مالک۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments