گل بانو کی شادی کی پہلی رات اور اسپتال


مگر نویں کا سال اختتام پہ تھا کہ یہ ہوا کہ چھوٹے بھائی کی دوستی گاؤں کی دوسری برادری کی لڑکی سے ہوگئی۔ مجھے پتا تھا کیونکہ بھائی کے کہنے پہ میں نے ہی اُس لڑکی سے دوستی کی تھی اور بھائی کا نمبر اسے اور اس کا بھائی کو لا کر دیا تھا۔ مجھے وہ لڑکی کبھی اچھی نہیں لگی کیونکہ میری دوستی کبھی ایسی لڑکیوں سے نہیں ہوپائی مگر مجھے بھائی سے محبت تھی جس میں وہ خوش اس میں، میں خوش۔ مجھے توقع تھی کہ بابا اور بڑے بھائی اس شادی کو سپورٹ کریں گے مگر جب ان لوگوں کو پتا چلا تو میری توقع کے برعکس طوفان کھڑا ہوگیا۔

چھوٹے بھائی کو کچھ کہنے کی بجائے دوسری برادری والوں کو دھمکیاں دی جانے لگیں کہ اپنی لڑکی کو حد میں رکھو۔ ایک دن چپکے سے بھائی اور وہ لڑکی بھاگ کر دوسرے شہر چلے گئے کچھ مہینے عدالت میں مقدمہ چلا ان برادری والوں کا موقف تھا کہ لڑکی بہت چھوٹی ہے اور اسے زبردستی اغوا کیا گیا ہے۔ بھائی پہ اغوا اور زنا کا الزام لگایا گیا مگر عدالت میں لڑکی کے بیان کے ساتھ ہی عدالت نے ان دونوں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور فیصلے کے بعد وہ دونوں کہاں گئے کسی کو نہیں پتا۔

ہاں اس کے بعد لڑکی کے گھر والوں نے جرگے میں معاملے کو حل کرنے پہ اور زور دینا شروع کر دیا معاملہ پہلے بھی جرگے میں چل رہا تھا مگر سست رفتاری سے۔ اس دوران میٹرک کی کلاسیں بھی شروع ہوگئیں۔ میں نے اس معاملے کی کوئی بات بسمہ یا فائزہ سے نہیں کی، اور بتاتی بھی کیا؟ میری ہی شرمندگی تھی۔ ویسے بھی میں ان سے ہر بات شئیر کرتی تھی مگر یہ فرسودہ روایات کیسے بتاتی۔ میری ساری باتیں آج کیا پکا گھر جاکے کیا کیا کل کیا کرنا ہے بس اس تک رہتی تھیں ان کی طرح میں گھر کے مسئلے نہیں بتاتی تھی۔

میری کوشش ہوتی کہ میرے حوالے سے کوئی بات نہ ہی ہو تو بہتر ہے۔ ہم بسمہ کی دادی کی نصیحتوں پہ بات کرتے فائزہ کی امی کی بات کرتے مگر میں ان سب باتوں سے پہلو بچا جاتی انہوں نے شاید کبھی غور بھی نہیں کیا۔ میں بھی کن غیر ضروری تفصیل میں چلی گئی مگر مر گئی ہوں نا وقت کی طوالت کا احساس بھی زندگی کے ساتھ ختم ہوگیا ہے۔ خیر گرمیوں کی چھٹیوں میں واپس گاؤں آئی تو میرے گھر والوں نے میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا سرپرائز رکھا ہوا تھا۔

میری شادی، جس لڑکی سے بھائی نے بھاگ کے شادی کی اس کے چچا سے۔ جو مجھ سے 40 سال بڑا بھی تھا اور پہلے سے شادی شدہ اور مجھ جتنی بیٹیوں کا باپ۔ جون کا مہینہ تو جرگے کے فیصلوں اور پیسوں کی ادائیگی میں گزرا جولائی کے شروع میں نکاح کیا گیا۔ میں شاید یہ سمجھتی رہتی کہ یہ سب میرے گھر والوں نے مجبوری میں مانا ہوگا، مگر نکاح سے ایک دن پہلے اتفاقاً میں نے بڑے بھائی کو فون پہ بات کرتے سن لیا ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ چھوٹے بھائی سے بات کر رہے ہیں اور یہ پہلے سے طے تھا کہ دوسری برادری کو میرا رشتہ دے کر معاملہ ٹھنڈا کر لیا جائے گا تاکہ پیسے زیادہ نہ دینے پڑیں۔ یہ تھے وہ بھائی جن کی عزت کے لیے میں خود کو محدود کرتی رہی۔ اپنی خواہشات ختم کیں تاکہ کوئی ان پہ انگلی نا اٹھا سکے۔ مگر انہوں نے گھرکے بیٹے کی زندگی کے لیے گھر کی بیٹی کو قربان کردیا۔

ہوتا ہوگا نکاح خوشی کا موقع، مگر مجھے لگ رہا تھا میرا جنازہ تیار کیا جارہا ہے۔ میں وہاں من پسند بہو اور بیوی کے طور پہ نہیں جارہی تھی میں انتقام کا نتیجہ تھی۔ مجھے لے جاکر اُس سن رسیدہ کے کمرے میں راتب کی طرح پھینک دیا گیا۔ اور صبح کسی معمول کی طرح مجھے سمیٹ کر اسپتال میں ڈال آئے۔ اس اسپتال کے لیے بھی کوئی انوکھی بات نہیں تھی میری موجودگی میں ہی کوئی تین چار لڑکیوں کو میری ہی حالت میں لایا گیا اور اسپتال کے عملے کو دیکھ کے لگ رہا تھا کہ وہ سب، اس کے عادی ہیں۔

اور اس کے بعد نہ ختم ہونے والا عذاب شروع ہوا بھاگ جانے والی بیٹی کا غصہ مجھ پہ اتارا جاتا، پہلے ہی مہینے امید سے ہونے کے باوجود میں گھر کے کام بھی کرتی اور رات میں شوہر کے پاس حاضری بھی ہوتی۔ میں کئی بار بے ہوش ہوئی۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اگر میری غذا بہتر نہ کی گئی تو میں زچگی کا عمل نہیں سہہ پاؤں گی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اپنی زندگی کی دعا مانگوں یا موت کی۔ مجھے موت بہتر لگنے لگی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں میری حالت مردے جیسی ہوگئی کہ بسمہ اور فائزہ بھی دیکھ کے گھبرا گئیں مگر کیا بتاتی انہیں، کچھ تھا ہی نہیں بتانے کو جو کچھ میں سہہ رہی تھی وہ صرف محسوس کیا جاسکتا تھا بتایا نہیں جاسکتا۔ میرے شوہر کے گھر والے اب بھی اپنی گھر کی لڑکی اور میرے بھائی کی تلاش میں تھے۔ میرے گھر والوں بلکہ میرے فلاحی کاموں میں لیڈر بھائی نے پلٹ کر میرا حال پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کیوں کرتے؟ جتنا کام مجھ سے لے سکتے تھے وہ انہوں نے لے لیا اب میں ان کے کسی کام کی نہیں تھی۔

وقت گزر رہا تھا میری حالت بگڑ رہی تھی خون کی کمی ہوتی جارہی تھی میں درد سے تڑپتی رہتی تھی۔ آخری بار ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو اس نے پہلے ہی بتا دیا کہ حالت اتنی نازک ہے کہ اب صرف ماں یا بچے میں سے کسی ایک کو بچایا جاسکتا ہے۔ واپس آکر میں بہت دیر گم سم رہی مجھے پتا تھا کہ شوہر سمیت میرے سسرال والے مجھے تو بچانے کی ہرگز کوشش نہیں کریں گے ہاں شاید بچے کو بچانا چاہیں کیونکہ وہ لڑکا تھا۔ میرے حمل کا آٹھواں مہینہ ختم ہونے کو تھا میری نیندیں اڑ چکی تھیں اور اپنی زچگی سے چند دن پہلے میں نے فیصلہ کر لیا۔

میں اس دنیا میں ایک اور خود غرض بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔ ایک رات میں سب کے سوتے میں چپکے سے اٹھی اور کالا پتھر پی لیا۔ اگلی صبح سب کو میری لاش ملی۔ میں اپنا بچہ اپنا ساتھ لے آئی ہوں۔ ان جیسے خود غرضوں میں رہ کر وہ بھی ان جیسا ہو جاتا اب یہاں میں اسے صرف محبت سکھاؤں گی۔ تاکہ قیامت کے دن وہ میرے ساتھ دینے کے لیے موجود ہو، دنیا کے دوسرے مردوں کی طرح اپنے فائدے کے لیے مجھے اکیلا نا چھوڑ جائے۔

ارے ہاں ایک بات تو بتا دوں میری مرنے کے دو مہینے بعد میرے سسرال والوں کو اپنی بیٹی یعنی میری بھابھی مل گئی اور انہیں اپنی عزت دوبارہ بڑھانے کا شاندار موقع مل گیا۔ اب ہم نند بھاوج مل کر ایک مرد کو دنیا کی خود غرضی سے دور صرف محبت سکھا رہے ہیں۔ یہاں اس سے مل کر مجھے پتا چلا وہ اتنی بھی بری نہیں جتنا میں سمجھتی تھی اس نے تو صرف اپنے گھر کے گھٹن زدہ ماحول سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔ دیکھیں بسمہ بھی یہی کرنے جارہی تھی نا۔ ہم عورتوں کو اس گھٹن سے نجات شاید موت کے بعد ہی ملتی ہے مگر میری دعا ہے کہ بسمہ کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ آپ تو اس کے ساتھ ہیں دیکھتے جائیں کیا ہوتا ہے اس کے ساتھ۔

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےمحبت کرنے اور اپنی نمائش لگانے میں فرق ہےجہیز اور بری کا سامان، نئے بننے والے رشتے کی پہلی دراڑ :قسط نمبر 6

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments