لاک ڈاؤن میں ڈیٹنگ کی کہانیاں: سائبر سیکس سے لے کر چھت پر ڈنر تک


دو محبوب دو مختلف عمارتوں پر ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہیں

ڈیٹنگ عام دنوں میں بھی کوئی آسان کام نہیں لیکن آج کل کے حالات کے بارے میں کیا کہا جائے جب کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی لاک ڈاؤن میں زندگی گزار رہی ہے؟

لوگ چین سے برطانیہ، سپین سے انڈیا تک معاشرے میں ایک دوسرے سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن جب لوگ کسی دوسرے کو بہتر طور پر جاننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو موجودہ حالات کے برعکس دوریاں ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان حالات میں دنیا بھر میں ڈیٹنگ اور تعلقات کیسے متاٽر ہو رہے ہیں۔ پانچ افراد نے اپنے انتہائی قریبی تعلقات کی کہانیاں ہم سے شیئر کی ہیں۔

تنبیہ: آگے آنے والے مواد میں جنسی تعلقات کا ذکر ہے

صوفی: عمر 27 برس، شنگھائی، چین
صوفی فرضی نام ہے۔ اصل نام اُن کے کہنے پر تبدیل کیا گیا ہے۔

میں نے اپنے ساتھی کے ساتھ رشتہ ووہان میں لاک ڈاؤن سے ایک ہفتے پہلے توڑا۔ اور پھر چین کے بہت سے حصوں میں اسی طرح کی پابندیاں نافذ کی گئیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ صورتحال ایسی ہو جائے گی۔ شروع میں تو بہت مشکل ہوئی کیونکہ میں حالات کا اکیلے ہی مقابلہ کر رہی تھی۔

آخرکار میں نے فیصلہ کیا کہ میں ڈیٹنگ ایپس استعمال کروں۔ یوں ہی اپنے اپارٹمنٹ میں اپنی بلی کے ساتھ بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ ان ایپس پر دائیں اور بائیں سوائپ کروں اور یوں یہ تفریح کا ایک ذریعہ بن گیا۔

مگر اس کے باوجود جو مواقع آئے اُن میں بات آگے بڑھانا مشکل تھی۔ میں لڑکوں سے گھنٹوں بات کرتی مگر آپ کسی سے ملے بغیر کتنی دیر تک بات کر سکتے ہیں۔ سب عوامی جگہیں اور ریستوران بند ہیں اگر ہم کوئی کیفے ڈھونڈ بھی لیں جو کھلا ہو تب بھی ماسک پہننا ہوگا اور یہ ڈیٹنگ کو بے معنی بنا دے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک خول میں رہ رہے ہیں اور کوئی اس کے اندر داخل نہیں ہو سکتا۔ یوں لگتا ہے کہ کسی کو چھونا محفوظ ہوگا اور اکٽر دل بھی چاہتا ہے کہ باہر جائیں اور کسی کو چھوئیں۔ جب آپ کسی کے ساتھ ایک عرصے سے ڈیٹنگ کر رہے ہوں اور انھیں جانتے ہوں تو صورتحال ذرا مختلف ہوتی ہے مگر جہاں تک آن لائن ڈیٹنگ کا سوال ہے تو وائرس کی وجہ سے بہت سی رکاوٹیں کھڑی ہو گئی ہیں۔

آپ کسی انجان شخص سے کیسے مل سکتے ہیں جب آپ کو پتہ نہ ہو کہ آپ دونوں میں سے کسی ایک کو وائرس تو نہیں لگ گیا۔ یہ معاملہ ذرا خطرناک ہے۔

میں اِس وقت ذرا انتظار کر رہی ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ بات آگے تو جانی نہیں ہے۔ سچ پوچھیں تو صورتحال عنقریب بہتر ہوتی نظر نہیں آرہی خاص طور پر اس لیے بھی کیونکہ ہم اپنے اپنے خول میں ماسک کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔

ایک عورت صوفے پر بیٹھی اپنی بلی کے ساتھ فون پر کچھ دیکھ رہی ہیں

جیرمی کوہن: عمر 28 برس، بروکلن، امریکہ

میں نے اپنے اپارٹمنٹ میں قرنطینہ میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے اپنے ارد گرد عمارتوں کی چھتوں پر موجود لوگوں کی تصاویر ایک سیریز کے لیے کھینچنا شروع کیں۔

چند دن پہلے میری نگاہ سڑک کی دوسری جانب عمارت کی چھت پر ڈانس کرتی ہوئی ایک لڑکی پر پڑی۔ میں اُس کے جوش کو دیکھ کر اُس کی طرف کھینچا چلا گیا اور اپنی بالکنی میں جا کر اُس کی طرف ہاتھ ہلانا شروع کیا۔ اُس نے بھی مجھے دیکھ کر جواباً ہاتھ ہلایا۔

مجھے اُس لمحے اُس کے ساتھ تعلق بنتا محسوس ہوا۔ اور میرا دل چاہا کہ اُس سے رابطہ کروں۔ غیر معمولی حالات میں انوکھے حل ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ میں نے اپنا ڈرون نکالا اور اس کے نیچے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر اپنا فون نمبر لکھا اور ڈرون اُڑا کر اُس لڑکی کے ٹیرس پر اُتارا۔ اُس نے گھنٹہ بعد مجھے ٹیکسٹ بھیجا اور پھر ہم نے بات کرنا شروع کی۔ میں نے اُسے ڈیٹ پر بلایا اور اُس کے ساتھ فلیٹ میں رہنے والی اس کی ساتھی کی مدد سے اسے ممکن بنایا۔

وہ اپنی عمارت کی چھت پر تھی میں اپنی۔ ایک ہی طرح ٹیبل لگائی کچھ شراب اور ایک ہی طرح کا کھانا۔ ہم پوری ڈیٹ کے دوران فیس ٹائم ویڈیو کال پر رہے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے اور دور سے ہاتھ ہلا سکتے تھے۔

دوسری ڈیٹ پر میں ایک بڑا سا غبارہ پہن کر اُس کے پاس پہنچ گیا۔ میں بغیر حدیں پار کیے اُس کے جتنا قریب جا سکتا تھا اتنا قریب گیا۔

عمارت کی چھت پر ایک شخص ڈرون اڑا کر اپنی پڑوسن سے رابطہ کرتے ہوئے

میں اپنی کہانی سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا رہا اور یہ وائرل ہو گئی۔ ہم انٹرویو کی درخواستوں کا مل کر جواب دے رہے ہیں اور یوں ہم ایک دوسرے کے اور بھی قریب آ رہے ہیں۔

یہ سب ہرگز نہ ہوتا اگر لاک ڈاؤن نہ ہوتا۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں کہ میں اتنی اچھی لڑکی سے ملا۔ میں عام حالات میں ہرگز ایسا نہ کرتا۔ مجھے لگتا ہے شاید کمرے میں بند ہونے کی وجہ سے مجھے کسی اور سے تعلق جوڑنے کی خواہش ہوئی اور میں نے اسے ممکن بنانے کا منفرد طریقہ ڈھونڈا۔

کلاریس: عمر 35 برس، کنساشا، ڈیموکریٹک ریپلک آف کانگو

میں کووڈ 19 کے بہت بڑا خطرہ بننے سے پہلے کسی کے ساتھ سرسری سے رشتے میں تھی۔ میں اُس سے روز ملتی تھی مگر باقاعدہ پورے جذبات کے ساتھ بات کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی تھی۔ میں آہستہ آہستہ بات کو چلانا چاہتی تھی مگر کون یہ کہہ سکتا تھا کہ حالات ایسے ہو جائیں گے۔

ڈی آر سی اس وقت لاک ڈاؤن میں تو نہیں مگر میں انسانی ہمدردی کی خاطر قائم طبی شعبے سے منسلک تھی۔ میں نے وائرس کو سنجیدگی سے لیا۔ اُسے مجھ پر غصہ آیا اور میں نے اُس سے چار ہفتے کے لیے ملنا چھوڑ دیا اور اُسے سمجھایا کہ یہ کیوں اہم ہے۔ مگر اُس کو لگتا ہے کہ میں اسے بہانہ بنا کر اُس سے دور ہونا چاہتی ہوں۔

مجھے اُس کی یاد آتی ہے اور اکٽر سوچتی ہوں کہ کہیں میں اپنی زندگی میں کسی کو ہمیشہ کے لیے شامل کرنے کا یہ موقع گنوا تو نہیں رہی۔ مجھے خوف ہے کہ وہ میرا انتظار نہیں کرے گا۔ مجھے جسمانی قربت بھی یاد آتی ہے۔

متبادل ٹیگ:ایک عورت تکیہ تھامے افسردہ دکھائی دے رہی ہے

ہم سیکس کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ مگر پھر کوئی متبادل راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ خوش قسمتی سے میرا وائیبریٹر ہمیشہ سے میرا سب سے اچھا دوست رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اُسے بھی یہ بات پتا ہے اس لیے اُس کے لیے بھی یہ مشکل ہے۔

میں یہ سب سوچ کر افسردہ ہو جاتی ہوں اور خود کو اکیلا محسوس کرتی ہوں۔ وہ مجھ سے اتنی زیادہ بات نہیں کرتا جتنی پہلے کرتا تھا اور اکٽر میرے ٹیکسٹ کا جواب بھی دیر سے دیتا ہے۔ میں تو بس اُسے اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر میں نے اس بات سے سمجھوتا کر لیا ہے کہ ہمارا رشتہ ان حالات میں بچ نہیں پائے گا۔

دیبا سمیتا: عمر 24 برس، دلی، انڈیا

جب تین ماہ پہلے میں نے اپنے موجودہ بوائے فرینڈ کو ڈیٹ کرنا شروع کیا تو مطمئن تھی کہ وہ بھی میرے ہی شہر میں رہتا ہے۔ اس سے پہلے میرے سارے بوائے فرینڈز دور رہتے تھے۔ میں خوش تھی کہ کم از کم اس بار میں کسی ایسے شخص کے ساتھ ہوں جس کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکوں گی۔

ہم ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں اور روز ہی ملاقات ہوتی تھی۔ یہ ہمارے لیے بڑی نعمت تھی لیکن پھر اچانک اس رشتے میں بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے دوری آ گئی۔ ہمیں بہت کوفت ہوئی کیوںکہ ہم ذہنی طور پر اس طرح کے رشتے کے لیے تیار نہیں تھے۔

اب ہم دن میں چھ سات بار ایک دوسرے سے ویڈیو کال پر بات کرتے ہیں۔ ہم ایک ساتھ فلمیں سٹریم کرتے ہیں اور انھیں دیکھتے ہوئے باتیں کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم ایک ہی کھانا بناتے ہیں۔ مجھے کوئز بہت اچھے لگتے ہیں اس لیے ہم آن لائن کوئز کھیلتے ہیں۔ یہ ہماری ایک کوشش ہے کہ ایک لمبے عرصے کے لیے ایک دوسرے سے دور رہنے کے باوجود کسی طرح صورتحال کا مقابلہ کریں۔

ویڈیو کال

جب کوئی اختلاف ہو جائے تو سخت ذہنی دباؤ اور پریشانی ہو جاتی ہے۔ جب آپ آمنے سامنے ہوتے ہیں تو صورتحال مختلف ہوتی ہے اور بات کر سکتے ہیں اور بات سمجھانا آسان ہوتا ہے اور سمجھنا بھی آسان ہوتا ہے۔

مگر پھر بھی اکٽر ہم اس صورتحال کے بارے میں ہنستے ہیں۔ اگر اس کٹھن وقت میں ہمارا ساتھ برقرار رہا تو لوگوں کو بعد میں بتا سکیں گے کہ رشتے کی شروعات میں ہم نے کیسی مصیبتیں اُٹھائیں۔ میرے خیال میں یہ بھی ایک خاص بات ہے۔

جولی: عمر 24 برس، الیگن سٹی، فلپائین

میں دو مہینے سے زیادہ عرصے سے ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر ہوں۔ ہمارے ملک میں وبا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن سے پہلے میں یونہی لوگوں کے ساتھ ڈیٹس پر جاتی رہتی تھی اور پھر سیکس کرتی تھی۔ جب بھی میرے پاس وقت ہوتا میں یہی کرتی تھی۔

اب اچانک میرے پاس اتنا وقت ہے مگر میں کسی سے مل نہیں سکتی۔ میری زندگی میں سیکس کی صورتحال کچھ عرصے سے مایوس کن ہے کیونکہ میں کسی کو ڈیٹ نہیں کر رہی۔ بہت بیزاری ہو رہی ہے کیونکہ میں اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کر پا رہی۔

ایک عورت لحاف کے نیچے لیپ ٹاپ دیکھتے ہوئے

مگر لاک ڈاؤن کے دوران بھی میں ڈیٹنگ ایپس پر کافی متحرک ہوں۔ میں مردوں سے بات کرتی ہوں۔ وہ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ پھر ہم وڈیو کال کرتے ہیں اور سائبر سیکس کرتے ہیں۔ اس سے ہم دونوں کو مدد ملتی ہے کیونکہ اس طرح ہم اپنی سیکس کی خواہش کو پورا کر پاتے ہیں۔ اس میں وہ بات تو نہیں مگر کیا کریں۔

میں ان مردوں سے ملنا چاہتی ہوں مگر کوئی ٹرانسپورٹ نہیں اور ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں۔ صورتحال اور بھی پیچیدہ ہے کیونکہ میں سارا وقت یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اکیلی وقت گزارتی ہوں اور آج کل مجھے سیکس کی بہت زیادہ خواہش ہو رہی ہے۔ شاید کچھ عرصے کے لیے زندگی ایسی ہی ہو گی۔

یہ کہانیاں نکیتا مندھانی نے جمع کی ہیں ۔لورنا ہارکن ان کی مدیر ہیں اور یہ تصویری خاکے نکیتا دیش پانڈے نے تیار کیے ہیں۔
Published on: Apr 14, 2020


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32195 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp