نیوٹن کا تیسرا قانون (لنڈے کے لبرل مت پڑھیں )


 ” 71 میں بنگلہ دیش بنانے والے یحییٰ خان اور بھٹو بھی شیعہ تھے۔ یحییٰ خان کی نورجہاں کے ساتھ سیٹنگ تھی۔ نورجہاں بھی شیعہ“

پہلے نکمے نے شرافت زرگر کی دیوار کی بنیادوں میں پانی چھوڑتے ہوئے صدیوں کا سفر طے کر کے بات کو مغلوں کے دور سے نکال کر 71 پر لاتے ہوئے وہیں سے آواز دی

 ”نہ کر۔ مطلب نورجہان ایک ہی وقت میں شہزادہ سلیم کے ساتھ بھی سیٹ تھی اور یحییٰ خان کے ساتھ بھی“۔ تیسرے نکمے کی آنکھیں ایک بار پھر حیرت سے پھٹ گئیں۔

 ”دفع ہو حرامی۔ ہم اس لئے تجھے اپنے ساتھ نہیں بٹھاتے کہ تو اپنے ساتھ ساتھ ہمارا حساب بھی خراب کر دیتا ہے“ دوسرا اب کی بار دھپ کی بجائے اسے لات مارتے ہوئے بولا

اس سے پہلے کہ تیسرے کو دوسری لات پڑتی دوسرے کی نظریں سہراب کی سائیکل کو ایک ہاتھ سے تھامے محلے میں داخل ہوتے زوار شاہ پر جم گئیں۔ سائیکل کے کرئیر پر کپڑے میں لپٹی سلائی مشین دھری تھی جسے گرنے سے بچانے کے لئے ایک استعمال شدہ ٹائر کی ٹیوب سے باندھا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک پندرہ سولہ سال کا جوان لڑکا تھا جس کے سر پر وہ صندوقچی تھی جس میں قران رکھے جاتے ہیں اس کے کندھے سے کپڑے کا ایک جھولا بھی لٹک رہا تھا جس میں یقینا کتابیں تھیں۔ پہلے نکمے نے دونوں کی شکلیں ملاتے ہوئے درست اندازہ لگایا کہ یہ لڑکا زوار شاہ کا بیٹا ہے۔ دونوں باپ بیٹوں کے پیچھے ایک سائیکل رکشے میں بہت سی گٹھڑیاں کے درمیان دو باپردہ خواتین ایسے دھنسی ہوئی تھیں کہ وہ بھی کپڑوں کی گٹھڑیاں محسوس ہو رہی تھیں۔ سائیکل رکشے کے پیچھے دو چھوٹے سوزوکی ڈالے تھے جن میں حرام کا وہ سارا مال رکھا ہوا تھا جو زوارشاہ نے فدک کا بدلہ لینے کے لئے معصوم سنیوں سے لوٹا تھا۔ چار چارپائیاں۔ ایک بڑا سا مٹی کا گھڑا۔ رضائیوں والا ایک بڑا صندوق۔ چھ مرغیاں مع دڑبا۔ لوہے کی زنگ لگی دو کرسیاں۔ آٹے کا ایک جستی صندوق۔ پانچ گملے اور پانچوں میں تلسی کے ہرے سوکھے پودے۔ ایک چھوٹی سی الماری جس کی پشت کے آدھے ہارڈ بورڈ کو دیمک چٹ کر چکی تھی۔ سب سے آخر میں ایک مریل سا کتا سوزوکی کے پیچھے کچھ اس طرح سے چلتا آرہا تھا جیسے قدرت نے اسے اس خزانے کی نگرانی پر مامور کیا ہو۔ سیدوں کا یہ گھرانہ آہستہ آہستہ اس گلی میں مڑ گیا جہاں کرائے کی منزل ان کا انتظار کر رہی تھی

 ”واہ سید بادشاہ واہ اس سے زیادہ سامان تو کربلا جاتے ہوئے امام حسین کے قافلے میں تھا“۔ ریاض بھینگے نے نلکے سے ہاتھ دھوتے ہوئے خود سے ہمکلامی کی اور مایوس چال چلتا مزدوری کی تلاش میں اڈے کی طرف نکل کھڑا ہوا۔

4

لاک ڈاون نے کائنات کا سارا نظام ڈاون کر دیا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے قدرت ہم سب کو ناخلف اولاد سمجھ کر عاق کر چکی ہے۔ پوری دنیا میں لاشیں اولوں کی طرح گر رہی ہیں۔ وٹس ایپ اور فیس بک پر ویڈیوز دیکھ دیکھ کر دل دہلا جا رہاہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ ہم سب کس کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ مجھے تو اس کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کی سازش نظر آرہی ہے۔ فیس بک پر کل ہی ایک ویڈیو میں ایک پڑھے لکھے آدمی نے بتایا ہے کہ امریکہ چین کے سینکڑوں ٹریلین ڈالر کو قرضے کے نیچے آچکا تھا۔ اب جب قرضہ دینے کا وقت آیا تو اس نے اسرائیل کے ساتھ مل کرووہان میں وبا چھوڑ دی۔ میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ امریکہ ہی اصل مجرم ہے۔

بات پھر وہی نیوٹن کے تیسرے قانون کی آتی ہے۔ امریکہ نے ایک برا عمل کیا اورقدرت کے ردعمل نے پورے امریکہ کو گھروں میں بند کر دیا۔ اب چین تواس وبا سے محفوظ ہو گیا ہے وہاں کے ڈاکٹروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر پورے ملک کو بچا لیا ہے لیکن امریکہ میں کام خراب ہو گیا ہے۔ لوگ ایسے مر رہے ہیں جیسے انہوں نے کسی زمانے میں ریڈانڈینز کو چن چن کے مارا تھا۔ امریکہ کی سازشوں کی سزا ہم جیسے غریب ملک بھگت رہے ہیں۔ گھر میں قید ہوئے آج پورے 37 دن ہو گئے ہیں۔ ہمارے شہر میں کیسوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔ کھانے کا جو سامان ذخیرہ کیا تھا وہ بھی ختم ہونے کے قریب ہے۔ اس لئے ہم سب بہت احتیاط اور کفایت شعاری کر رہے ہیں کیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ لاک ڈاون مزید کتنا عرصہ چلے گا۔

کچھ دن پہلے مجھے آٹا لینے مارکیٹ جانا پڑا واپس آکر میں نے احتیاطاً خود کو سب گھر والوں سے الگ کر لیا ہے۔ نہ میں کسی کے کمرے میں جاتا ہوں اور نہ ہی کسی کو یہ اجازت ہے کہ وہ میرے کمرے میں آئے۔ میرا کھانا بھی بیگم کمرے کے باہر رکھ جاتی ہے۔ تین دن سے میں نے اپنے بچوں کو پیار نہیں کیا بس اپنے موبائل میں ان کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کے آنکھیں ٹھنڈی کر رہا ہوں۔ میرے پاس اپنے بچوں کی شرارتوں کی بہت سی ویڈیوز ہیں۔ بیگم کا خیال ہے کہ میں بلاوجہ وہم کر رہا ہوں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہم ہی اس بیماری کا اصل علاج ہے۔ اس لئے میں نے بیگم اور دونوں بچوں کو بھی ایک دوسرے سے دور رہنے کی تاکید کر دی ہے۔ شکر ہے اس سرکاری گھر میں اتنی جگہ تھی کہ ہم چاروں سکون سے ایک دوسرے سے دور آئسولیشن میں رہ سکتے ہیں۔

میری خود ساختہ قید تنہائی کے بعد بیگم نے لاونج میں ٹھکانہ بنا لیا ہے جہاں سے وہ اپنی آن لائن کلاسسز لیتی رہتی ہے۔ دوسرے کمرے میں کومل کا آشیانہ ہے اور تیسرے کمرے میں سفیان ہوتا ہے جب لاک ڈاون ہوا تھا تو مجھے سب سے زیادہ فکر سفیان ہی کی تھی کیوں کہ وہ ایسا بچہ ہے جو ٹک کے ایک جگہ بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ شام سے پہلے ساری کالونی کا چکر نہ لگا لے، بچوں کے ساتھ کرکٹ نہ کھیل لے، اسے نیند ہی نہیں آتی۔ مجھے یقین تھا کہ اسے گھر میں لمبے عرصے تک روکنا میرے لئے درد سر ہو گا۔ اس لئے اس کا حل یہ سوچا گیا کہ اس کے پیروں میں ویڈیو گیم کی زنجیر ڈال دی جائے جس کا تقاضا وہ کئی مہینوں سے کر رہا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرا منصوبہ کامیاب رہا۔ اب وہ سارا دن کمرے کا دروازہ بندکیے گیم کھیلتا رہتا ہے۔

5

شاہ جہان اپنی دکان کے ایک کونے میں چائے کی دیگچی چڑھائے سٹوو کا پمپ مارکے آگ تیز کرنے میں مصروف تھا اور دوسرے کونے میں ایک دوسرے کے اوپر رکھی دو چینی کی بوریوں پر بیٹھا غفورا سپاہی اسے احتیاط سے پمپ مارنے کے مفت مشورے دے رہا تھا۔

 ”آہستہ آہستہ۔ ہمارے تھانے میں پچھلے ہفتے ہی ایک سٹوو پھٹا ہے۔ آج کل گوجرانوالے والے سٹوو کے سلینڈروں میں ٹھیک مٹیریل نہیں لگا رہے۔ پہلے اصلی پیتل لگاتے تھے اب تو ٹین کی ڈھولکی لگا رہے ہیں دو نمبر پنجابی“ غفورے نے پنجابیوں پر تبرا بھیجتے ہوئے اسے مفت کا مشورہ دیا۔

 ”پنجابی تو پیدائشی دو نمبر ہیں۔ کچھ اس زوار شاہ کا بھی بتاؤ، یہ کتنے نمبر کا ہے؟ کون ہے؟ کچھ پتہ ہے آگے پیچھے کا؟ “ شاہ جہان نے تین الائچیاں ڈالتے ہوئے دیگچی پر ڈھکن لگا دیا تاکہ ہلکی آنچ کا دم الائچیوں کا دم نکال کے چائے کو خوشبودار بنا جائے۔

غفورا اپنی ماں کے کسی رشتے دار کی سفارش پر بائیس سال پہلے سپاہی بھرتی ہوا تھا۔ بزرگ محلے والوں کو شک تھا کہ اس کی ماں کا اپنے رشتے دار سے کوئی لینا دینا تھا ورنہ کون غفورے جیسے نالائق کو پولیس میں بھرتا کرتا۔ سب کا خیال تھا کہ غفورے میں کوئی لیاقت نہیں تھی۔ اب محلے والوں کو کون سمجھائے کہ پولیس میں بھرتی ہونے کے لئے لیاقت آخری شرط ہے۔ غفورے کی واحد لیاقت اس کی یادداشت تھی۔ اس کے پاس اپنی تو اپنی پنجاب پولیس کی بھی ساری خبریں ہوتی تھیں۔ حتیٰ کہ انگریز کے دور میں بھرتی ہونے والے تھانیداروں سپاہیوں اور افسروں کے شجرے تک بتا سکتا تھا۔ اب ایسے آدمی سے زوار شاہ کا شجرہ کیسے چھپا رہ سکتا تھا۔ شاہ جہان نے ایک چمکتے نئے پیالے میں چائے چھانی، ویفر کا بڑا پیکٹ کھولا اور اپنے بچپن کے دوست کے سامنے رکھ دیا۔ چائے کا خوشبو دار دھواں غفورے کے نتھنوں سے ہوتا ہوا اس کے دماغ کے ایک ایک سرکٹ تک پہنچا اور اس کی زبان زوار شاہ کا ماضی اور حال بتانے لگی۔

 ”کوٹلے کا سید ہے۔ سیدھا سا آدمی ہے۔ اپنے کام سے کام رکھنے والا۔ یوں سمجھو پولیس کے کاغذوں میں ایک گھامڑ پولیس والا ہے کیوں کہ نہ رشوت لیتا ہے اور نہ ہی افسروں کو خوش رکھ سکتا ہے۔ اس لئے آج تک ایک ہی رینک میں اٹکا ہوا ہے۔ تم دیکھنا اے ایس آئی ہی ریٹائر ہو گا۔ تنخواہ پر گزارہ کرنے والاٹھنڈا سا بندہ ہے“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments