نیوٹن کا تیسرا قانون (لنڈے کے لبرل مت پڑھیں )


غفورے نے زوار شاہ کی ساری زندگی کو چار پانچ جملوں کے کوزے میں بند کر کے ویفر چائے میں ڈبو دیا۔

بابو فضل اپنے گھر کے آنگن میں داڑھی میں لگی مہندی کے سوکھنے کے کے ساتھ اپنی بیوی کے آنے کا انتظار کر رہا تھا جو زوار شاہ کے گھر اس کی بیوی کو ملنے کے بہانے معلومات لینے گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ داڑھی میں مہندی کی پپٹریاں سوکھ کے گرتیں، اس کی بیوی گھر کے دروازے سے داخل ہوئی، برقعہ اتار کے چارپائی پر رکھا اور وضو بناتے ہوئے زوار شاہ کے گھر میں جو دیکھا اور محسو س کیا، وہ سب اپنے مجازی خدا کو بتا کر حقیقی خدا کو منانے جائے نماز پر کھڑی ہو گئی۔

عصر کی نماز کے بعد بابو فضل مسجد کے صحن میں اپنے جیسے نوکری اور زندگی سے ریٹائر بڈھوں کو بٹھائے اپنی جاسوسہ کی لائی ہوئی خفیہ معلومات گناہوں کی طرح پھیلا رہا تھا۔ ان بزرگ نما بڈھوں کے گھروں پر بہوئیں قابض ہو چکی تھیں اور انہوں نے اللہ کے گھر پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ان کی زندگی کے آخری دن نمازیں پڑھتے اور امام مسجد میں نقص نکالتے گزر رہے تھے۔ آج کل زوار شاہ ان کا نیا ٹاپک تھا اس لئے امام مسجد ان کی عنائیتوں سے فی الحال محفوظ تھا۔

 ”لڑکے کا نام ابرار حسین ہے۔ میٹرک میں پڑھ رہا ہے۔ اس کے کمرے میں امام خمینی کی تصویر بھی دیکھ کے آئی ہے تمہاری بھابھی۔ لڑکی کالج جاتی ہے۔ جب تمہاری بھابھی ان کے گھرمیں داخل ہوئی تو لڑکی گملوں کو پانی دے رہی تھی۔ گھر میں پانچ گملے ہیں پانچ۔ سمجھ رہے ہو ناں پانچ“ بابو فضل نے پانچ کے ہندسے پرزور دیتے ہوئے کہا

 ”ہاں ہاں سب سمجھ آرہی ہے۔ پنجتن پاک کی نسبت سے ہر شیعہ کے گھر میں ہوتے ہیں پانچ گملے“ حاجی فیض محمد نے یقین سے کہا

 ”ابھی تک چھت پر علم کیوں نہیں لگایا اس نے؟ “ محمد خان عرضی نویس نے سب سے سوال کیا؟

 ”تقیہ کر رہا ہے یار۔ یہ لوگ جہاں جان کا خطرہ دیکھتے ہیں وہاں تقیہ کر کے اپنے مذہب سے ہی پھر جاتے ہیں۔ یہی بات ہے ناں صوفی؟ “ بابو فضل نے صوفی ہاشم کو بھی گفتگو میں شامل کرنے کے لئے سوال چھوڑا۔ صوفی ہاشم ان سب سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھا چندے کی کاپی کھولے اپنے حساب کتاب میں مصروف تھا

 ”اللہ جانے بابو صاحب مجھ گناہ گار کو کیا معلوم؟ میں تو یہ سوچ سوچ کے پریشان ہو رہا ہوں کہ مولوی ابراہیم اس سال تراویح پڑھائے گا یا پچھلے سال کی طرح بھاگ جائے گا؟ “ صوفی ہاشم نے اپنی کاپی پر کچھ لکھتے ہوئے وہیں سے جواب دیا

صوفی ہاشم عمر میں ان سب بڈھوں سے دو دو تین تین سال بڑا تھا اس لئے مسجد کا خزانچی تھا۔ اس کے ذمے مسجد کے لئے ماہوار چندہ جمع کرنا تھا۔ اس کا سارا مہینہ محلے کے ایک ایک دروازے اور ایک ایک دکان سے چندہ اکٹھا کرنے میں گزر جاتا تھا۔ اسے شیعہ سنی کی بحث سے کوئی غرض ہی نہیں تھی۔ وہ تو بس مسجد کو آباد دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لئے مہینے میں ایک بار شہر کی غلہ منڈی کا چکر بھی لگا لیتا اور وہاں کے بڑے بڑے آڑھتیوں سے بھی چندہ لے آتا تھا۔ ایک بار تو کرسچن چرچ کے پادری سے بھی پانچ ہزارروپے لے آیا تھا۔ جس پر اس وقت کے امام مسجد یوسف صاحب نے فتوی دیا تھا کہ کفار کا چندہ مسجد کی تعمیر میں نہیں لگ سکتا۔ لیکن بات پانچ ہزار کی تھی۔ اس لئے مسجد کمیٹی اور امام صاحب نے درمیان کا راستہ نکالا کہ پادری کے چندے کو مسجد کی استنجا گاہ کی تعمیر میں لگایا جائے۔ صوفی ہاشم نے درمیان کا یہ راستہ دل سے قبول نہیں کیا کہنے کو تو اس نے وہ پانچ ہزار اسی جگہ لگائے جس کا مسجد کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا لیکن اصل میں اس نے پادری سے لئے ہوئے ہزار ہزار کے پانچ نوٹ امام صاحب کو اسی مہینے کی تنخواہ میں دے دیے تھے۔ شاید صوفی ہاشم کے سادہ سے ذہن اور امام مسجد کے گمبھیر علم میں استنجا گاہ کی اپنی اپنی تصویر اور تشریح تھی۔

اللہ بخشے امام یوسف کو جب وہ فوت ہوا تو محلے سے آٹھ دس لوگ جنازے میں شرکت کرنے اس کے گاؤں گئے تھے، جن میں صوفی ہاشم شامل نہیں تھا۔ لیکن فادر پرویز مسیح کے گزر جانے پر اس نے نہ صرف اس کی آخری رسومات میں شرکت کی بلکہ فادر کے ایصال ثواب کے لئے اپنے محبوب ترین ویسٹن جرمنی کے دو لالٹینوں میں سے ایک چرچ کو تحفے میں دے آیا تھا کہ یہاں جب بھی جلے گا فادر کی روح کو ثواب ہو گا۔

 ”صوفی یار یہاں اتنے اہم مسئلے پر بات ہو رہی ہے اور تم چھ مہینے بعد کا رمضان کھول کے بیٹھے ہو“ بابو فضل نے اپنی تازہ رنگی ہوئی داڑھی میں کھجلی کرتے ہوئے ناراضگی جتائی اور اٹھ کے چلا گیا۔ صوفی ہاشم نے اسے کوئی جواب دینے کی بجائے اپنی کاپی میں حساب کتاب لکھنے کے لئے گردن جھکا دی۔

جبار وکیل کے چھوٹے بیٹے ارشد نے کرایہ داروں کے رجسٹر کے ایک صفحے پر کالے کٹ مارکر سے زوار شاہ کا نام لکھنے کے بعد سوالیہ نظروں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہ آگے کیا لکھوں؟

 ” اپریل کرایہ تین ہزار اور ایک مہینہ ایڈوانس ٹوٹل چھ ہزار۔ ذرا کمر بھی دبا دو۔ “ وکیل نے بسترپر الٹا لیٹتے ہوئے اسے حساب بتا یا

راشدنے جلدی جلدی ایڈوانس اور کرائے کے کالموں میں تین تین ہزار کے ہندسے لکھ کر باپ کی کمر پر پیر رکھ دیا

 ”اتنا بڑا اے ایس آئی تین ہزار کے چھوٹے سے گھر میں کیوں آپڑا ہے ابا؟ ابھی تک اس نے اپنا گھر کیوں نہیں بنایا“ راشد نے باپ کی کمر پر اپنی اپنے ایڑی کا زوردے کر پوچھا

 ”حلال خور ہے اس لئے در بدر خاک بسر ہے۔ حلال میں مکان کہاں بنتے ہیں بیٹا“ وکیل نے رٹا رٹایا جملہ پھینکا

 ”تو پھر ہمارے 17 کیسے بن گئے ابا“

بیٹے کا سوال سن کر ٹھیکے دار نے ایسی تیزی سے جسم کو پلٹایا کہ راشد پلنگ سے نیچے گر گیا

 ”دفع ہو جا بے غیرت سارے مہروں کو اپنی جگہ سے ہلا دیا“۔ راشد کپڑے جھاڑتا ہوا وہاں سے چلا گیا وہ نہیں سمجھ پایا کہ اسے مہرہ دبانے کی سزا ملی ہے یا اس نے باپ کی کسی دکھتی رگ پر ایڑی رکھ دی تھی۔

چوک میں پھٹے پر بیٹھے نکمے آسمانوں کے پار دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس پھٹے کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس پر اعلی پائے کے تاریخ دان، مذاہب عالم پر اتھارٹی سمجھے جانے والے علماء، عالمی اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے سیاستدان، امریکہ کی سازشوں کا پردہ چاک کرتے جاسوس، اخلاقیات کا درس دینے والے مدرس اور دین کی حفاظت کرنے والے مجاہدین ایک ساتھ بیٹھ کر دھواں اڑاتے تھے۔ ان کی سگریٹ نوشیاں اور سرگوشیاں نجانے کتنے رازوں کی امین تھیں۔ کبھی کبھی ان کے درمیان رائے کا اختلاف بھی ہو جاتا تھا اور نوبت لڑائی تک چلی جاتی تھی لیکن آج یہ سارے نکمے اس بات پر متفق تھے کہ زوار شاہ اصل میں پولیس کا جاسوس ہے جسے محلے میں پلانٹ کیا گیا ہے۔ اس کی غربت پاکبازی اور حلا ل خوری کا پروپیگنڈا اسی لئے پھیلایا گیا ہے کہ ہم اسے بے ضرر سمجھ کر نظر انداز کرتے رہیں اور وہ اندر ہی اندر جماعت اور اس کے ہمدردوں کی خبریں آگے بھیجتا رہے۔

ایک نے تو اسے ان دو یہودیوں سے تشبہیہ دے ڈالی جو نور الدین زنگی کے زمانے میں مسلمان بن کر مدینے میں سرنگ کھود رہے تھے۔ اور آقا نے نورالدین زنگی کے خواب میں آکر ان دونوں کی شکلیں دکھائی تھیں۔ اور اس کے بعد زنگی نے ان دونوں کا وہ حشر کیا کہ سارا اسرائیل کانپ گیا۔ اس لمحے سارے نکمے اپنے آپ کو نورالدین زنگی سمجھ کر ایسے تھر تھر کانپے کہ ان کے جلال کی تاب نہ لا کر پھٹے کا ایک پایا ٹوٹ گیا اس پر بیٹھے سارے اشراف اور اس کے نیچے لیٹا ایک لوسی کتا اس غیبی آفت کے لئے تیار نہیں تھے۔ ایک مجاہد کا سر پھٹا اور کتے کی دم زخمی ہو گئی اور وہ اسی دم کو دبا کے وہاں سے بھاگ

کھڑا ہوا۔ گالیاں بکتے سر پھٹے مجاہد کو ایک نکما موٹر سائیکل پر بٹھا کے ہسپتال روانہ ہو گیا اور باقی اینٹیں جمع کرنے کے لئے ادھر ادھر پھیل گئے تاکہ ٹوٹے پائے کے نیچے اینٹیں رکھ کر علم و حکمت کے اس مرکز کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر سکیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments