نیوٹن کا تیسرا قانون (لنڈے کے لبرل مت پڑھیں )


9

اپنے دروازے پر دستک سن کر گرمی کا ستایا دھوتی بنیان میں ملبوس سید جلتی موم بتی ہاتھ میں پکڑے گھر سے باہر نکلا

جی بیٹا؟ اس نے اپنے ملائم لہجے میں دستک دینے والے سے پوچھا

 ”شاہ صاحب کسی نے آپ کے بیٹے کو قتل کر دیا ہے لاش گلی میں پڑی ہے“ آنے والے نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیرکام کی بات بتائی اور وہاں سے بھاگ گیا تاکہ دوبارہ جائے وقوعہ پر پہنچ کر وہاں ہونے والی سرگوشیوں میں اپنا حصہ ڈال سکے

سید یہ خبر سن کر شل سا ہو گیا۔ موم بتی کا گرم گرم موم پگھل کے اس کے ہاتھ پر لکیریں بنا رہا تھا لیکن وہ موم کی حدت سے بے نیاز کسی خیال میں گم اپنے سامنے پھیلے اندھیرے میں کسی ایک جگہ ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا چند لمحوں بعد وہ اپنے خیال سے نکل کر حال میں آیا اور الٹے قدموں گھر میں داخل ہو گیا۔ دونوں سیدانیاں گلی کے سناٹے میں گونجنے والاجملہ سن چکی تھیں۔ زینب اپنی ماں کی گود میں سر چھپائے رو رہی تھی۔ سیدوں کا خون سے بہت پرانا رشتہ ہے۔ اس خبر نے ان کو اندر سے توڑ دیا تھا لیکن سید ہونے کا بھرم نہیں توڑ سکی۔ ان کے ماتم میں گریہ نہیں تھا، بین نہیں تھے، صرف سسکیاں تھیں۔ سید بوجھل قدموں سے اپنے کمرے کے اندھیرے میں گم ہو گیا اور چند لمحے بعد شلوار قمیض اور سر پر کالی پگڑی باندھے نکلا۔ وہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی دھوتی بنیان پہنے گلی میں جانے کا روادار نہیں تھا۔ وہ ایک پروقار چال چلتا گھر سے باہر نکلا۔ اور اس گلی کی طرف جانا شروع کیا جہاں اس کا ابرار کٹا پڑا تھا۔ اندر سے زینب کی آواز آئی ”تو بھی جا“ کتا جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اورپہلی بار ہمت کے اس پہاڑ کے پیچھے چل پڑا۔

زوار شاہ اندھیری گلیوں میں چلتا اس خونی گلی میں پہنچا جسے ٹارچوں اور گیس کے ہنڈوں نے روشن کر رکھا تھا۔ اس گلی میں اتنا اجالا تھا کہ ایک ایک آدمی کا چہرہ اور چھتوں پر کھڑی عورتیں تک نظر آرہی تھیں۔ گندے پانی میں بھیگا صوفی ہاشم ایک مکان کے آگے بنی سیڑھی پر اپنی لالٹین کا ڈھانچہ اور ٹوٹی عینک لئے بیٹھا تھا۔ اس نے ایک بار حسرت سے گیس کے جلتے ان ہنڈوں اور پھر اپنی بجھی لالٹین کو دیکھا اور اس کی آنکھیں چھلک اٹھیں۔ وہ سوچ رہا تھا آج اس کی لالٹین کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور آج ہی وہ بجھی ہوئی ہے۔ شاہ جی کے آنے پر تماشائیوں نے ایک ایک فٹ ادھر ادھر کھسک کر لاش اور اس کے وارث کے درمیان راستہ بنایا۔ شاہ جی اکڑوں بیٹھ کے اپنے ابرار کا چہرہ دیکھنے لگا اس کی نظر اس خون میں بھیگے اس بستے پر پڑی جسے کندھے پر ڈال کے وہ ٹیوشن پڑھنے نکلا تھا۔

صوفی ہاشم نے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے وہ سب کچھ دہرایا جو اس اندھیری گلی میں ہوا تھا لیکن یوں لگ رہا تھا زوار شاہ کو اس کہانی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی آنکھیں تواپنے سامنے خون میں لت پت پڑے ابرار کی کہانی کا اختتام پڑھ رہی تھیں۔ اچانک وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوا ابرار کا بستہ اٹھا کے اپنے کندھے پر لٹکایا۔ تب تک ایک چارپائی بھی لائی جا چکی تھی زوار شاہ نے چارپائی پر ایک نظر ڈالی۔ ایک بار پھر ابرار کی طرف آیا۔ ایک لمبی سانس لے کر آسمان کی طرف دیکھا جیسے وہ آسمان والے کو اپنی فریاد سنا رہا ہو۔ اس کی دیکھا دیکھی زینب کے کتے نے آسمان میں نظریں گاڑ دیں۔ پھر شاہ جی نے اپنے دونوں بازوں پر اپنی عمر بھر کی کمائی اٹھائی اور گھر کی طرف چل پڑا۔ ابرار کے بستے سے خون کے قطرے سارا راستہ ٹپکتے رہے۔ پولیس نے قاتل کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن اس اندھے قتل کا سراغ نہ ملا۔ صوفی ہاشم نے اپنے لالٹین میں دوبارہ چمنی نہیں ڈلوائی اس کا کہنا تھا کہ آج کل چائنہ کی چمنیاں آ رہی ہیں اور میں اپنے ویسٹن جرمنی کے لالٹین میں دو نمبر چمنی لگا کے اسے داغدار نہیں کروں گا۔ ایک مہینے بعد زوار شاہ پینشن لے کر واپس اپنے آبائی گاؤں کوٹلے چلا گیا۔ جبار وکیل کے رجسٹر اور محلے داروں کے ذہن سے اس کا نام ہی مٹ گیا۔ سیدوں کا یہ گھرانہ صرف ایک آدمی کو مرتے دم تک نہیں بھولا، وہ جب بھی اپنی لالٹین کو یاد کرتا تو اس کے ساتھ سیدوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بددعا ضرور کرتا کہ جس نے کوٹلے کے سید اور میرے ویسٹن جرمنی کے لالٹین کو توڑا ہے خدا اس کی قبر میں اندھیرا کرے۔ دس دن بعد صوفی ہاشم بھی اپنے خدا سے جا ملا۔ اس کے ایک پوتے نے شرارتاً لالٹین کا ڈھانچہ بھی اس کے ساتھ ہی دفنا دیا

10

سارے کاظمی خاندان کے ٹیسٹ نیگیٹو آئے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس وبا سے متاثر نہیں ہوا۔ لیکن میرا پورا گھر اس وبا کی لپیٹ آ کر زمین میں گاڑ دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے سفیان، اس کے بعد میری بیوی اور پھرکومل۔ اور میں ابھی وینٹی لیٹر پر پڑا اپنی آخری سانسیں لے رہا ہوں۔ میرے پاس وقت بہت کم ہے لیکن تکلیف بہت زیادہ ہے مگر میں پھر بھی آپ کو اپنی کہانی سناؤں گا۔ کاظمی خاندان کے سارے ٹیسٹ کلیئر آنے کے بعد اچانک علمدار کاظمی کی بیٹے حیدر کو یاد آیا کہ جب سفیان اس کے گھر آیا تھا تو مٹھائی کے لالچ میں نانا کے کمرے میں بھی گیا تھا۔ حیدر کے بقول سفیان کی اس کے نانا سے بہت گہری دوستی تھی۔ نانا اب اپنے گاؤں جا چکے تھے۔ اتھارٹیز فوراً حرکت میں آئیں اور گاؤں کی طرف ٹیمیں دوڑائی گئیں جہاں حیدر کے نانا گئے تھے تاکہ اگر ان کو کرونا ہے وہاں کے لوگوں کو ان کے عذاب سے بچایا جائے۔

اگلے پانچ گھنٹے میں خبر ملی کہ حیدر کے نانا او ر زواری کر کے ایران سے آنے والے ابرار کے ابا سید زوار حسین شاہ بخاری کو کوٹلے میں ان کے گھر میں قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔ وہی زوار شاہ جس کی مخبری پر میرے بھائی اورنگ زیب فراری کو پھانسی ہوئی تھی۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ مخبری شاہ جی نے نہیں، میرے بھائی کی جماعت ہی کے کسی آدمی نے کی تھی۔ میرا دم گھٹ رہا ہے، آنکھیں بند ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر مجھے انجکشن لگا رہا ہے اور میں وارڈ کے دروازے سے اندر آتے ابرار کو دیکھ رہا ہوں جس کے کندھے پر خون آلود بستہ ہے اس کے پیچھے مسکراتا ہوا صوفی ہاشم بھی آ رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ویسٹن جرمنی کی اسی لالٹین کا ڈھانچہ ہے جس کی چمنی میرے ٹکرانے سے ٹوٹی تھی۔

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments