ارطغرل غازی ڈرامہ اور کچھ غلط فہمیاں


کچھ دیر قبل پاکستان کے ایک معروف اور سینیئر صحافی کا یو ٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھا جس میں وہ ترکی کے ایک غیر معمولی ڈرامے ارطغرل غازی کے پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پرسخت نالاں دکھائے دیے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ گفتگو بنی جو پاکستان کے معروف فلمی ہیرو کی ایک انگریزی اخبار میں چھپی جس کا ماخذ ان کے کچھ ٹویٹس تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ارطغرل سے یہ دونوں شخصیات سخت نالاں ہیں کہ ارطغرل ڈرامہ کو دکھانے کی بجائے مقامی ڈرامہ انڈسٹری کو مضبوط کیا جائے۔

پاکستانی ہیروز کو دکھایا جائے اور یہ کہ ارطغرل غازی ہمارا ہیرو نہیں ہے اور اس قسم کی دیگر باتیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جس صحافی نے جو چند منٹس کا ویڈیو اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کیا ہے اس میں انہوں نے ڈرامے کے ہیرو

Engin Altan Düzyatan

کی کچھ تصاویر بھی دکھائیں جو کچھ خواتین کے ساتھ بے باکانہ انداز کی تھیں۔ ان میں سے ایک کو تو میں پہچان گیا وہ ہیرو کی اپنی اہلیہ تھی۔ ارطغرل ڈرامے نے پاکستان میں تین قسم کے سوالات جنم دیے ہیں۔

نمبر 1 : ارطغرل غازی ہمارا ہیرو نہیں تو کیوں اسے ہمارے ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے؟
نمبر 2۔ کیا مسلمان ہیرو ہونے سے دنیا سے کے کسی خطے سے تعلق رکھنے والا پاکستانی ہیرو بن سکتا ہے؟
نمبر 3۔ دیگر ممالک کے ہیروز کو دکھانے کی بجائے ہم اپنے مقامی ہیروز کیوں نہیں دکھاتے؟

تینوں سوال بہت اہم اور متعلقہ ہیں۔ لیکن یہ تینوں سوالات دراصل محض سوالات نہیں ہیں یہ دو مختلف فکری دھاروں کے نمائندہ ہیں۔ یہ دو فکریں روز اول سے ہی پاکستان کے حصے میں آئیں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یا روشن خیال معاشرتی تہذیبی مسلمان ملک۔

اسلامی اور مسلمان دو الگ چیزیں ہیں۔ ایک گھرانا مسلمان ہو سکتا ہے لیکن اسلامی تب ہوگا جب اسلامی نظام فکر و عمل کا مکمل اطلاق اپنے ہاں نافذ کرلے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جیسا کہ اس کے آئین میں مذکور ہے۔ پاکستان کے آئین کی ابتدا اس جملے سے ہوتی ہے کہ ”چونکہ اللہ تبارک تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار اور اقتدار اس کی مقررہ حدود کے اندراستعمال کرنے کا حق ہوگا۔۔ ۔“ لہٰذا یہاں سے یہ طے ہوگیا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔

پاکستان کے آئین کے حصہ اول کی شق دو میں واضح لکھا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا۔ یعنی پاکستان کا سرکاری طور مذہب اسلام ہوگا۔ جب کہ ترک آئین ایک سیکیو لر آئین ہے اور آئین کی ابتدا میں ہی قومیت اور زمین بنیادی حوالہ بتا دیا گیا اور اتاترک کو آئینی طور پر ایک لافانی لیڈر کا نام د ے دیا گیا۔ لیکن ہم ترکی پر بات نہیں کریں گے کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔

ہمارا قضیہ نظریاتی اساس ہے۔ یاد رہے کہ کسی بھی معاشرے کی نظریاتی اساس ہی اس کے ہیروز کا تعین کرتی ہے۔ ورنہ ہیرو اور ولن کا تصور ہی ختم ہوجائے کہ آپ کا نظریاتی دشمن بھی اسی بہادری سے آپ کے خلاف لڑتا ہے جیسے کہ آپ لڑ رہے ہیں لیکن وہ کبھی بھی آپ کا ہیرو نہیں بنے گا کہ آپ کا فکری نظام ہی انہدام کا شکار ہو جائے گا۔ اب چونکہ اسلام ایک مقامی مذہب نہیں تھا اسلام اس خطے پر مختلف وسیلوں سے آیا اور لوگوں نے اسے اختیار کیا تو اس لحاظ سے انہوں نے اپنے فکری/نظریاتی نظام کی بنیاد ڈال دی جس میں ہیرو کاتعین نو ہوگا۔

ظاہر ہے جو شخص آپ کے فکری نظام سے متصادم ہوگا وہ آپ کا ہیرو نہیں بن سکے گا۔ سادہ سے الفاظ میں اسے یوں سمجھنا ہوگا کہ ہم اگر جغرافیائی سطح پر کسی اور خطے کا مذہب اختیار کرسکتے ہیں تو جغرافیائی طور پر الگ خطے کی ایسی شخصیات ہمارے ہیروز کیوں نہیں ہو سکتیں جو ہمارے فکری نظام سے متعلقہ ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا ناروے میں عمر دبابہ الیاس نامی ایک نوجوان نے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی کوشش کے خلاف گستاخ لارس تھامسن نامی شخص پرحملہ کیا تھا تو آن کی آن میں پوری امت مسلمہ کا ہیرو بن گیا تھا۔

لیکن اس شخص کا تعلق ایک ملک سے تھا چونکہ وہ آپ کے فکری منطقے سے تعلق رکھتا تھا لہٰذا آپ نے اسے اپنا ہیرو مانا۔ اداکاروں، صحافیوں سمیت سب نے اس کی تصاویر اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کیں۔ دوسری طرف نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی ایک مسجد پر حملہ کرنے والا برینٹن ہیریسن ٹارنٹ کبھی بھی آپ کا ہیرو نہیں بن سکے گا کہ کام تو اپنے تئیں اس نے بھی بہادری کا کیا ہے لیکن جن لوگوں کی جانیں گئیں اکثریت مقامی ہوکر بھی وہ آپ کے فکری منطقے سے جڑے ہوئے تھے لہٰذا برینٹن ہیریسن ٹارنٹ کبھی بھی آپ کا ہیرو نہیں بنے گا۔

اس ساری تمہید کا مقصد ایک ایسے تاریخی مغالطے کو ختم کرنا ہے کہ کون پاکستانی ہیروہے اور کون نہیں۔ لہٰذا ابھی تک کا حاصل گفتگو یہ نتیجہ ٹھہرا کہ اگر ہم ریاست کے فکری یا نظریاتی نظام کو تسلیم کرتے ہیں تو وہی لوگ ریاست کے ہیروز ہوں گے جو اس نظریاتی حلقے میں شامل ہوں گے۔

اب ایک سوال اٹھتا ہے کہ جو غیر مسلم پاکستان کے لیے جانیں دیتے ہیں کیا وہ ہمارے ہیروز ہیں؟ تواس کا جواب ہے کہ بالکل ہیں کہ انہوں نے جس وقت جان دی تو انہوں نے پاکستانی کی نظریاتی اساس کو تسلیم کیا ہوا تھا بھلے ان کا مذہب الگ ہے لیکن پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں لہٰذا جب آئین کو تسلیم کیا تو اس کی نظریاتی اساس کو تسلیم کیا اور ا س آئین کی روشنی میں اپنی شناخت ایک الگ اقلیتی اکائی کو بھی تسلیم کیا لہٰذا وہ بھی پاکستان کے نظریاتی دائرے کا حصہ ہوگئے، لہٰذا وہ پاکستان کے لیے جان دیتے ہیں تو ان کو بھی اسی طرح توقیر دینے چاہیے جو ملک کے دیگر ہیروز کو ملتی ہے۔

اس وضاحت کی روشنی میں ارطغرل غازی سمیت ہر وہ شخص ہمارا ہیرو ہے جس نے ہمارے نظریاتی ثنوی جوڑے کے خلاف مزاحمت کی۔ مندرجہ بالا تمہید ابتدائی دو سوالوں کا جواب ہے۔ اب رہا تیسرا سوال کہ ہم دیگر ممالک کے ہیروز کو کیوں دکھاتے ہیں؟ پاکستانی ہیرو کو کیوں نہیں دکھاتے تو عرض ہے کہ پاکستان کے اس وقت بیسیوں چینلز ہیں جن پر قیاس ہے کہ سیکڑوں ڈرامے چلتے ہیں ان سب میں پاکستانی ہی کام کررہے ہیں اور نام اور پیسہ کما رہے ہیں۔

حال ہی میں ایک ڈرامے کا بہت چرچا ہوا جو محبت[بالی ووڈ مارکہ] جیسی ایک کلیشے اور نان پروڈکٹو موضوع پر بنا اور خاصا کامیاب رہا۔ مجھے ان تمام ڈراموں میں وہ مشہور ہیرو دکھائی نہیں دیے لہٰذابے روزگاری کے مسائل تو سمجھ میں آتے ہیں۔ یاد رہے کہ ارطغرل غازی اردو ڈبنگ میں سرکاری ٹی وی سے قبل بھی ایک نجی چینل پر دکھایا جا چکا ہے اس وقت کوئی نہیں بولا۔ اس ڈرامے سے قبل ترک ڈرامے عشق ممنوع، فریحہ، کوسم سلطان اوربے شمار اور ڈرامے ڈب کرکے دکھائے جا چکے ہیں۔

اور تو اور ابھی تو چین کے ڈرامے اردو زبان میں دکھائے جا رہے ہیں۔ مذکورہ احباب کا مسئلہ پاکستانیت نہیں لگتا کچھ معاشی مسائل ہو سکتے ہیں جیسے کہ پچھلے دنوں ایک ”معروف“ صحافی نے مذہب کے بارے میں کچھ غلط فہمیوں کو اپنی غلط فہمیوں کی روشنی میں ایک کالم لکھ مارا۔ اگر تو واقعتاً معروف صحافی اور اداکار کو یہ لگتا ہے کہ ارطغرل ڈرامے سے مقامی ثفاتی بیانیے کو گزند پہنچے گی تو گزارش ہے کہ یہ دونوں پاکستانی جامعات میں انگریزی کے نصاب کا مطالعہ فرما لیں۔

ہم کیوں اب بھی ان آقاؤں کا نصاب پڑھ رہے ہیں جنہوں نے ہم پر حکومت کی؟ ہم کیوں سمجھتے ہیں کہ فرنگیوں کی زبان سیکھ کر ہم کوئی سیاسی سماجی استحکام یا توقیر بٹور لیں گے۔ مجھے امید ہے کہ یہ دونوں بلکہ تینوں شخصیات مل کر انگریزی کا ایک نصاب مرتب کریں گی جو پاکستان کے نظریاتی ڈھانچے کے عین مطابق ہوگا۔ یاد رہے جو ذہنی تبدیلی نصاب لاتا ہے وہ چند ڈرامے اور فلمیں نہیں لا سکتیں۔ آخر میں صرف ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ارطغرل ڈرامہ میں کام کرنے والے اداکاروں نے جس طرح ڈوب کر ڈرامہ کیا ان پر اس کا گہرا اثر ہونا چاہیے تھا تاہم ڈرامے کے بعد اداکاراؤں کو کچھ شوز میں سکرٹس میں دیکھا تو حوصلہ ہوا کہ ڈرامہ اگر ترکوں کو نظریاتی اور ثقافتی طور پر تبدیل نہیں کرسکا تو پاکستانیوں کو بھی کچھ نہیں ہوگا۔ البتہ اس ڈرامے میں خون خرابہ اور سر قلم کرنے کے بہت مناظر ہیں جو یقیناً بچوں کی نفسیات پر برا اثر ڈال سکتی ہیں۔ رہی بات یونس ایمرے کی تو اس شان دار ڈرامے پر ان شا اللہ اگلا کالم پیش کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments