سحر انگیز اور دل موہ لینے والے موسیقار نثار بزمی


عذرا موویز کی فلمساز عذرا جبیں اور ہدایتکار شیون رضوی کی گولڈن جوبلی فلم ”میری زندگی ہے نغمہ“ ( 1972 ) کے گیت بھی مقبولیت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں : ’اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، دل اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا‘ آواز مہدی حسن، ’تیرا کسی پہ آئے دل تیرا کوئی دکھائے دل، تو بھی کلیجہ تھام کر مجھ سے کہے کہ ہائے دل‘ یہ رنگیلا اور نورجہاں نے الگ الگ ریکارڈ کروایا۔

آر ایچ پروڈکشنز کی فلمساز رابعہ حسن اور ہدایتکار حسن طارق کی مرزا ہادی رسواؔ کے مشہور زمانہ ناول پر مبنی گولڈن جوبلی فلم ” امراؤ جان ادا“ ( 1972 ) پاکستانی فلمی تاریخ کی ایک اہم فلم ہے۔ اس فلم کے کئی ایک گانے تب بھی اور اب بھی مقبول ہیں :

’ آپ فرمائیے کیا خریدیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز رونا لیلیٰ، ’جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ہیں، آخری گیت سنانے کے لئے آئے ہیں‘ آواز نورجہاں، ’کاٹیں نہ کٹیں رے رتیاں سیاں انتظار میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز رونا لیلیٰ، ’مانے نہ بیری بلما ہو مورا من تڑپائے جیارا جلائے‘ آوازیں آئیرین پروین اور رونا لیلیٰ۔

ڈوسانی فلمز کے فلمساز انیس ڈوسانی اور ہدایتکار پرویز ملک کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ”انمول“ ( 1973 ) کے گیتوں کو ریڈیو پر سن کر اور فلم کا ٹریلر دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کامیاب ترین فلم ہو گی۔ لہٰذا پہلے دن کا پہلا شو دیکھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک گیت تھے :

’ ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے اجی پیار میں کیا رکھا ہے، ایسی باتیں نہ کرو جاؤ کھیلو، جاؤ کھیلو لو یہ جھنجھنا‘ دوگانا: احمد رشدی اور رونا لیلیٰ، ’ایسی چال میں چلوں کلیجہ ہل جائے گا، کسی کی جان جائے گی کسی کا دل جائے گا‘ آواز تصور خانم، ’دل سے دنیا کے ہر ایک غم کو مٹا دیتا ہے، پیار انسان کو انسان بنا دیتا ہے‘ آواز مہدی حسن، ’تختی پہ تختی تختی پہ تل کا دانہ ہے، کھیلو جی بھر کے لیکن کل پڑھنے آنا ہے‘ ۔

ڈوسانی فلمز کے فلمساز ا نیس ڈوسانی اور ہدایتکار پرویز ملک کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ”پہچان“ ( 1975 ) کے کچھ گیت ریڈیو اور عوامی ہوٹلوں میں بہت مقبول ہوئے : ’اے دل اپنا درد چھپا کر گیت خوشی کے گائے جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز اخلاق احمد، ’میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ یہ مہدی حسن اور مہناز نے الگ الگ صدا بند کروایا۔ اس فلم کا ایک گیت سرحد پار بھی مقبول ہوا۔ اسے بھارت کے کئی ایک فنکاروں نے بھی بہت عمدہ گایا : ”اللہ ہی اللہ کیا کرو دکھ نہ کسی کو دیا کرو، جو دنیا کا مالک ہے نام اسی کا لیا کرو ’آواز ناہید اختر۔ گیت نگار مسرورؔ انور تھے۔

بزمی صاحب کی آخری فلم:

یاسر مووی ٹون کے فلمساز و ہدایتکار فیروز صاحب کی فلم ”محبت ہو تو ایسی ہو“ ( 1989 ) بزمی صاحب کی آخری فلم تھی۔

اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اداکار محمد علی اور اداکارہ زیبا کی ہیرو اور ہیروئن کی حیثیت سے بھی یہ آخری فلم ہے۔ مذکورہ فلم رضیہ بٹ کے ناول ’شبو‘ پر بنائی گئی۔ آج کل فیروز بھائی علیل ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ جلد صحت یاب ہوں۔ میں نے ان کی فلم ”السلام علیکم“ ( 1969 ) کے دو کورس کی صدا بندی میں حصہ لیا تھا۔

بزمی صاحب کو ملنے والے نگار ایوارڈ:

نمبر شمار
فلم
گیت نگار
ہدایتکار
1
’ ”صاعقہ“ ( 1968 )
! مسرور ؔ انور
لئیق اختر
2
+ ”انجمن“ ( 1970 )
#مسرور ؔ انور
حسن طارق
3
C ”میری زندگی ہے نغمہ“ ( 1972 )
شیونؔ رضوی
شیونؔ رضوی
4
5 ”خاک و خون“ ( 1979 )
احمد راہیؔ
مسعود پرویز
5
; ”بیوی ہو تو ایسی“ ( 1982 )
! مسرور ؔ انور
زاہد شاہ
6
5 ”ہم ایک ہیں“ ( 1986 )
حبیب جالبؔ
اقبال کاشمیری
لکشمی کانت پیارے لال، آنند بخشی اور بزمی صاحب:

ایک پروگرام
A Tribute To Nisar Bazmi
کی تیاری کے سلسلہ میں لاہور کی فلمی دنیا کے نامور لوگوں سے بھی ملاقات رہی۔ ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ پروگرام تیار نہ ہو سکا لیکن اس کے ابتدائی مراحل میں میری بہت سے لوگوں سے بہ نفس نفیس اور ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ خاص طور سے ملکہ ترنم نورجہاں۔

بزمی صاحب مجھے بتا چکے تھے کہ پاکستان آنے سے قبل، بمبئی فلمی صنعت میں وہ تقریباً 15 سال، تیسرے درجے کے بجٹ کی دھارمک فلموں کے موسیقار رہے تھے۔ اور یہ بھی کہ ایک عرصہ لکشمی کانت اور پیارے لال، ان کے تیسرے درجہ کے سازندے رہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد لکشمی کانت اور پیارے لال دوسرے درجہ ا ور اس کے بعد اول درجہ کے میوزیشن بن گئے۔ مگر دونوں کا اعلیٰ وصف دیکھئے کہ زیادہ پیسوں کا کام چھوڑ کے کم پیسوں پر بزمی صاحب کا کام بھی کرتے رہے۔

یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس سال بزمی صاحب کی پہلی پاکستانی فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ ( 03 فروری 1965 ) کے گیت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے عین اسی زمانے میں لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقار جوڑی کا مجروحؔ سلطان پوری کا لکھا پہلا فلمی گیت ”چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے“ ( 06 نومبر 1964 ) بھارت اور پاکستان میں دھوم مچا گیا۔ ادھر بزمی صاحب کے گیتوں نے ایک دھوم مچا دی۔ سلور جوبلی فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ فلمساز فضل احمد کریم فضلی صاحب کی دوسری فلم تھی۔

بات ہو رہی تھی بزمی صاحب کو خراج تحسین کے پروگرام کی، تو اس سلسلہ کی بھاگ دوڑ میں مجھے دو دفعہ جناب لکشمی کانت اور پیارے لال اور مشہور بھارتی فلمی شاعر آنجہانی آنند بخشی صاحب سے گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ بھارتی فلمی صنعت کے نامور شاعر آنجہانی جناب آنند بخشی صاحب بہت دل موہنے والے انداز سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا:

” مجھے فلمی دنیا میں لانے والے سید نثار ہیں ( یعنی ہمارے بزمی صاحب ) ۔ میرا میل ملا پ سید صاحب سے عرصہ سے تھا۔ 1958 میں ہدایت کار بھگوان اپنی ایک آنے والی فلم“ بھلا آدمی ”کی تیاری میں تھے۔ احسن رضوی اور صبا افغانی اس فلم کے نغمہ نگار تھے۔ سید نثار نے بھگوان صاحب کو میرے بھی گیت اس فلم میں شامل کرنے پر قائل کر لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ۔

یوں بزمی صاحب کی جوہر شناس نگاہوں نے آنند بخشی کو بالآخر جوہر بننے کے مراحل میں داخل کر دیا۔ اس طرح ”بھلا آدمی“ آنند بخشی کی ترقی اور شہرت کی سیڑھی کا پہلا قدم ثابت ہوئی۔ ان کی اعلیٰ ظرفی دیکھئے کہ زندگی بھر جب بھی کسی نے ان کا انٹرویو لیا تو انہوں نے نثار بزمی صاحب کا ذکر اپنے نام سے پہلے کیا۔

وطن سے محبت:

بزمی صاحب کام میں بہترین سے کم کے قائل نہیں تھے۔ خود بھی بہترین کام کرتے اور دوسروں سے بھی بہتر کی توقع رکھا کرتے تھے۔ اسی لئے شاید ان کے طبیعتاً سخت ہونے کے چرچے تھے۔ وہ بڑے سخت محب وطن تھے۔ جب کوئی شخص ان کے سامنے ملک کی برائی کرتا تو یک دم جلال میں آ جایا کرتے اور یہ کہتے کہ اس ملک پاکستان کو میرے سامنے برا مت کہو۔ اس نے مجھے عزت اور شہرت دی۔ میں کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایک تیسرے درجے کے موسیقار سے بلند تر ہو کر درجہ اول بلکہ Outstanding Musician کا درجہ پا لوں گا۔ اسی سلسلہ میں ایک دلچسپ بات یاد آ گئی۔

نثار بزمی صاحب کے ہاں اکثر جانا رہتا تھا، ایسی ہی ایک نشست میں شاعری کے حوالے سے فلمی شاعر کلیم ؔ عثمانی صاحب کا ذکر آ گیا۔ کہنے لگے :

” ایک روز فجر کے وقت غیر متوقع طور پر کلیم عثمانی بے چین سی صورت لیے میرے گھر آئے۔ پوچھا خیریت؟“ ۔

” ابھی تھوڑی دیر قبل ادھ سوئی ادھ جاگی کیفیت میں عجیب ماجرا ہو گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے قائد اعظم ؒ میرے کمرے میں غصہ کی حالت میں آئے اور کہہ رہے ہیں کہ میرے ملک کا تم لوگوں نے کیا خراب حال کر رکھا ہے، ہاں اگر کسی سے اچھی امید ہے تو وہ اس ملک کے بچے ہیں، تم سب لوگوں نے تو مایوس ہی کیا۔ بس تب سے طبیعت سخت مضطرب ہے“ ۔ کلیمؔ عثمانی نے جواب دیا۔

” قائدؒ نے کچھ ایسا غلط بھی تو نہیں کہا۔ سب کو آزما کے دیکھ لیا، اب ان بچوں سے ہی کوئی بہتر امید کی جا سکتی ہے“ ۔ میں ( بزمی صاحب ) نے جواب دیا۔

” بس وہ کچھ ایسا لمحہ تھا کہ بے ساختہ کلیم ؔعثمانی کو ایک خیال سوجھا گویا قائد اعظمؒ بچوں سے مخاطب ہیں کہ : ’تم ہو پاسباں اس کے‘ ۔ بس پھر کیا تھا مکھڑا بن گیا۔ گویا بانی پاکستان اس ملک کے بچوں سے کہ رہے ہیں :

یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے

اس طرح سے ریکارڈ قلیل وقت میں بے مثال دھن کے ساتھ یہ نغمہ مکمل ہوا۔ جس کو مہدی حسن کی آواز میں پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز میں ویڈیو ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے پروڈیوسر ( غالباً ) اختر وقار عظیم تھے۔

بزمی صاحب کا پی ٹی وی کراچی مرکز سے شعیب منصور کا تیار کردہ ایک اور ملی نغمہ بہت مقبول ہوا: ”خیال رکھنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ۔ یہ عالمگیر اور بینجمن سسٹرز کی آوازوں میں ریکارڈ ہوا۔

ایک مرتبہ میں نے بزمی صاحب سے پوچھا :
” آپ اپنے فلمی گیتوں میں سے کس کو بہترین کہتے ہیں؟“ ۔

” یہ گانا ’ساجنا رے جیا تڑپے نیناں برسیں دکھی من تجھ کو پکارے، بن دیکھے جیوں کیسے او میرے جیون سہارے‘ ۔

یہ فلمساز و ہدایتکار رضا میر کی فلم ’ناگ منی‘ ( 1972 ) میں نورجہاں نے صدا بند کروایا تھا۔

پاکیزہ فلمز کے مشترکہ فلمساز پرویز ملک اور مرزا اسحٰق اور ہدایتکار پرویز ملک کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ”تلاش“ میں بزمی صاحب نے گلوکار سلیم شہزاد کی آواز کو ٹائٹل سونگ میں کیا خوبصورتی سے استعمال کیا: ’پیار کی یاد نگاہوں میں چھپائے رکھنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ۔ سلیم شہزاد نے بھی پلے بیک سنگنگ کا حق ادا کر دیا۔

سید نثار المعروف نثار بزمی صاحب نے ہندوستان سے اپنا موسیقی کا سفر شروع کیا، اس کا اختتام عزت و احترام اور شہرت کے ساتھ 1989 میں ہو ا اور نثار بزمی صاحب نے اپنی زندگی کا سفر 22 مارچ 2007 کو پورا کیا۔ بزمی صاحب کے ساتھ گزرے لمحات میر ا قیمتی خزانہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments