قومی مفاد اور پاکستان؟


جب ہم قومی مفاد کے کتانچے میں نظر دوڑاتے ہیں تو بھت سے حالات ’واقعات اور حقیقتوں سے روشناس ہوتے ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل پانچ قابل غور و فکر ہیں۔

یہ قومی مفاد میں تھا کہ۔ ۔ ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان جن کو سید اکبر نامی شخص نے ہزاروں افراد کے سامنے گولی مار کر قتل کیا مگر بدقسمتی سے قتل کے محرکات پاکستانی قوم آج تک نہیں جانسکی۔ حالانکہ جس نے گولی چلائی تھی اسے ہجوم کے لوگوں نے جو قاتل کے ارد گرد تھے قابو کیا تھا مگر اس وقت کے پولیس افسر نجف خان کا وہ پشتو جملہ ’دا چا ڈزے او کڑے؟ اولہ۔‘ ترجمہ (گولی کس نے چلائی؟ مارو اسے ) نے وہاں پے موجود پولیس کو موقع فراہم کیا جنوں نے قاتل پے فائر کر کے اسے ختم کر دیا۔

آج تک پاکستانی قوم اس قتل کے محرکات جان نہیں سکی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جس شخص نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کیا تھا وہ کسی اور سے نہیں بلکہ حکومت پاکستان سے ایک سو پچپن ڈالر 155 ڈالر جو اس ادوار میں پاکستانی 450 روپے بنتے تھے وظیفہ بھی لے رہا تھا۔

قومی مفاد میں تھا کہ۔ ۔ ۔ 1965 میں جب ایک فوجی جنرل ایوب خان نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے بہن اور مادر ملت پاکستان فاطمہ جناح کو پاکستان کی پہلے بھارتی ایجنٹ اور غدار کا لقب دیا۔

ھوا یوں کہ اس وقت یعنی 1958 کے پہلے مارشل لا ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل آرمی جرنل ایوب خان نے اپنی مرضی کا ایک آئین تشکیل دیا اور انیس سو پینسھٹہ 1965 میں انتخابات کا اعلان کروایا، ایوب خان نے اپنے آپ کو خود صدارتی امیدوار بنایا اور انھوں نے انتخابات سے پہلے ایبڈو اور پروڈا جیسے کالے قوانین بنا کر اس وقت کے سات ہزار 7000 سیاستدانوں پے کرپشن کے الزامات لگا کے سات سات سال تک نا اہل قرار دیا اور یہ یقین جانا کہ اس طرح وہ باآسانی الیکشن جیت جائیں گے مگرجب اپوزیشن نے فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مد مقابل صدارتی امیدوار کھڑا کر دیا تو فوجی جرنل نے فاطمہ جناح کو پاکستان کے سب سے پہلے ”غدار“ اور ”انڈین ایجنٹ“ کا خطاب دیا۔

یہ قومی مفاد میں تھا کہ۔ ۔ ۔ 1970 کے شفاف الیکشن میں واضح اکثریت جیتنے کے باوجود مشرقی پاکستان کے بھاری اکثریت کی آوز کو نظر کر دیاگیا اور پھر بلا آخر بنگلہ دیش بنا۔

جب انیس سو ستر 1970 میں پاکستان کے پہلے شفاف انتخابات ہوئے تو اس وقت مشرقی پاکستان میی شیخ مجیب الرحمان نے کلین سویپ کیا اور الیکشن میں 160 نشستیں جیت لیں اور اس کے مد مقابل امیدوار ذولفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں 81 نشستیں جیتے، پاکستانی قوانین اور آئینی نکتہ نظر سے شیخ مجیب ہی نئے حکمران تھے مگراس وقت بھٹو نے شیخ مجیب کی جیت کو تسلیم نہیں کیا اور جو قومی اجلاس جو منتقلی اقتدار کے حوالے سے ڈھاکہ میں یکم جنوری 1971 کو بلایا گیا اس میں شرکت کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ دوسروں کو بھی جانے سے منع کر دیا اور یہ تک کہا جو بھی اجلاس میں گیا وہ اس کی ٹانگیں تھوڑدیں گے۔ اس وقت کے تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ ماسوائے چند سیاستدانوں کے اکثریتوں میں سے کسی نے بھی مشرقی پاکستان پے فوج کشی کی مخالفت نہیں کی۔

قومی مفاد میں تھا کہ امریکہ بھادر اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر سویت یوننین کے خلاف نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے اسٹرنگ میزائل اور کلاشنکوفیں دیے کر اپنے پڑوسی ملک افغانستان میں جہاد کے نام پے طالانئیزیشن کی بنیاد رکھی۔

جب روس نے دسمبر 1979 میں افغان صدر کے محل پے حملہ کر کے اس وقت کے افغان صدر حفیظ اللہ امین کو اس کے محل میں قتل کیا اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کی۔ تب پاکستان کے اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر ضیا الحق نے پاکستان کے قبائلی نوجوانوں کو جہاد کے نام پے افغانستان بھیجا

پھلے تو ضیا الحق نے امریکہ کو منع کیا جب اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے ضیا الحق کو 300 ملین امریکی ڈالر کے عیوض سویت یونین کے خلاف جنگ کے لیے مدد اور شامل ہونے کو کھا تھا ضیاع نے اس کو رقم کو مونگ پلی کہہ کر معذرت کرلی مگر اس کے بعد امریکہ کے نئے آنے والے صدر ریگن جو ایک سیلز مین کا بیٹا تھا اس نے ضیا الحق کو آپریشن سائیکلون کے مد میں تین بلین ڈالر کی نہ صرف امداد دی بلکہ اور بھی فوجی مراعات دیے اور اس کے بعد پاکستان نے مجاہدین بنانے کے بیشمار خارکانے افغانستان اور پاکستان میں قائم کئیے نہ صرف پاکستان بلکہ بھت سے اسلامی ممالک سے اسلام سے محبت کے نام پے جہادیت کی بنیاد رکھی گئی اور یہ ہی وہ وقت تھا جب اسامہ بن لادن بھی افغانستان آئے، روس تو ستائیس دسمبر 1989 کو افغانستان سے تو واپس چلاگیا مگر اس دس سالوں کے جہادیت کے اثرات آج بھی افغانستان اور پاکستان میں ابھی بھی موجو ہیں۔

قومی مفاد ہی تھا کہ ایک اور فوجی جرنل نے ایک بزرگ بلوچ سردار اور سیاستدان کو میزائل سے نشانہ بنا کر اس کو قتل کر دیا

نواب اکبر بگٹی کے مزاحمتی پہلو پر نظر دوڑائیں تو وہ پرویز مشرف کی آخری دور سے شروع ہوتی ہے، یعنی دو ہزار چار کے آخر میں (اس سے پہلے وہ کبھی بھی بلوچ مزاحمتی تحریک کا حصہ نہیں رہے ) بلکہ بگٹی نے دونوں ایوانوں وفاق اور صوبوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی مگر جب 2004 کو جب نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے وسائل کو بچانے کے حوالے سے ایک تحریک کا آغاز کرتے ہیں تو پرویز مشرف حکومت اس تحریک کے حوالے سے اکبر بگٹی سے مذاکرات پر آمادہ ہو جاتا اے اسی دوران حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیش رفت ہوتی ہے، جس میں چودھری شجاعت حسین اور مشاھد حسین سید ہوتے ہیں۔

مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ہے، اسی دوران ڈیرہ

بگٹی میں فوجی جنرل پرویز مشرف اکبر بگٹی کے محل پر بمباری کرتا ہے، جس میں معصوم بچوں سمیت بیشمار لوگ قتل ہوتے ہیں۔ معصوم لوگوں کے قتل کے بعد نواب اکبر بگٹی اپنے بگٹی قبائل کے لوگوں کے ساتھ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اور مسلح جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں، اسی مسلح جدوجہد کے ردعمل میں نواب اکبر بگٹی کو آج سے تقریبان چودہ سال پہلے یعنی اگست 2006 کو چلگیری بمبور و تراتانی کے پہاڑوں پہ گن شپ ہیلی کاپٹروں سے میزائل سے حملہ کر کے 37 ساتھیوں سمیت قتل کر دیا جاتا ہے اور آج تک اس میزائل کی آگ کی چنگاری بلوچستان کے بادلوں میں پروان چڑھ رہا ہے۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments