این ایف سی ایوارڈ پر اعتراضات


صدر مملکت عارف علوی نے آئین کے مطابق دسواں قومی مالیاتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے لیکن جہاں وطن عزیز میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اعتماد کے فقدان کی بنا پر فیصلے متنازعہ بن جاتے ہیں، اسی طرح قومی مالیاتی کمیشن کی ہیئت ترکیبی اور اس کے ٹرمزآف ریفرنس پر بھی اعتراضات شروع ہو گئے ہیں۔ ان میں سے بعض تو خاصے وزنی ہیں اور دیگر اعتراضات کامل بیٹھ کر حل نکالا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر قومی مالیاتی کمیشن کی سربراہی تکنیکی طور پر بطور وزیر خزانہ، وزیراعظم عمران خان کوکرنی چاہیے لیکن ان کی جگہ مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ اس کے چیئرمین ہوں گے جو سراسر غیرآئینی ہو گا۔

اس ضمن میں سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی پہلے ہی اپنی دو ٹوک رائے دے چکے ہیں کہ آئینی طور پر ایسا نہیں ہو سکتا۔ صوبہ سندھ نے بھی اپنے اعتراضات لگا دیے ہیں۔ 7 ویں مالیاتی کمیشن کے سربراہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین تھے۔ آئین میں 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو خود مختار بنانے کے لیے بعض وفاقی محکمے جن میں تعلیم، صحت، پاپولیشن اور ڈویلپمنٹ جیسے پروگرام شامل ہیں صوبوں کو دے دیے گئے تھے، ان اضافی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے لیے صوبوں اور وفاق کے درمیان ٹیکس ریونیو کی تقسیم کا فارمولہ بھی بدل دیا گیا۔

پہلے پچاس فیصد ٹیکس محصولات وفاق اور باقی پچاس فیصد صوبوں کے حصوں میں آتے تھے لیکن نئے فارمولے کے تحت صوبوں کا حصہ۔ 5 57 فیصد کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں اس امر کا بھی خیال رکھا گیا کہ وفاق کہیں غریب سے غریب تریابے دست وپانہ ہو جائے اسی بنا پر یہ ٹارگٹ رکھا گیاکہ ہر سال ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح کے مطابق ٹیکسوں کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ 2010 ء میں یہ ایوارڈ نافذ ہوا تو یہ شرح 9 فیصد تھی اگر یہ شرح بڑھتی رہتی تو 20 فیصد تک پہنچ چکی ہوتی۔

کاغذی طور پر تو یہ باتیں ٹھیک لگتی تھیں لیکن عملی طور پر کیا ہوا، یہ الگ کہانی ہے۔ جی ڈی پی کے مطابق ٹیکسوں کی شرح آج بھی 9 فیصد ہے، مختلف حکومتیں اس میں اضافہ کرنے میں یکسر ناکام رہیں۔ اگر یہ اضافہ ہو جاتا جو کوئی بہت بڑی بات نہیں لگتی تو وفاق کو ٹیکسوں کی مد میں 4.4 ٹریلین روپے سالانہ حاصل ہوتے گویا کہ موجودہ 4 ٹریلین جمع کر کے صوبوں اور وفاق کے درمیان 8.4 ٹریلین روپے تقسیم ہوتے تو صوبے بھی خوش اور وفاق بھی سکھی ہوتا لیکن 2010 ء سے لے کر اب تک جتنی بھی حکومتیں برسراقتدار آئیں انھوں نے نہ صرف اس ضمن میں کچھ نہیں کیا بلکہ اخراجات میں کفایت شعاری کی بھی کوئی مثال قائم نہیں کی۔

اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہماری وفاقی حکومتیں تاریخی طور پر مرکزیت پسند ہی ہوتی ہیں، اسی بناپر اب بھی وہ وزارتیں جو وفاق کو بند کر دینی چاہئیں تھیں بدستور قائم ہیں۔ اخراجات میں کمی تو کجا غیر ترقیاتی اخراجات گزشتہ دہائی میں بڑھتے ہی چلے گئے اور کابینہ کا حجم بھی بڑھتا ہی چلا گیا حتیٰ کہ نئے پاکستان کی نقیب موجودہ حکومت کی کابینہ کے ارکان کی تعداد پچاس تک پہنچ چکی ہے جن میں قریباً بیس غیر منتخب مشیران ومعاون خصوصی شامل ہیں۔

جہاں تک ٹیکس بڑھانے کا تعلق ہے میاں نواز شریف کی حکومت اس کے سخت خلاف تھی۔ میاں صاحب تو دس فیصد فلیٹ ٹیکس کے حق میں تھے۔ ، سی پیک، جو پاکستان اور چین کے بھرپور اقتصادی تعاون کی بہترین مثال ہے کے نتیجے میں بہت کم شرح سود 2.2 فیصد پر جو سستے قرضے ملے میاں صاحب کے لیے ان قرضوں سے بجلی کے منصوبے، موٹرویز، ہائی ویزجیسے انفراسٹر کچر پراجیکٹس بنانے کا نادر موقع ہاتھ آیا۔ اب اس بات کا رونا رویاجا رہا ہے کہ ہائے ہم قلاش ہو گئے۔

18 ویں ترمیم کو کورونا وائرس سے مقابلے میں بھی رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ زیر لب یہ بات بھی وقتاً فوقتاً کہی جا رہی ہے کہ ملک کے دفاعی اخراجات بھی اسی بنا پر پورے نہیں ہو رہے حالانکہ ایک سٹڈی کے مطابق این ایف سی ایوارڈ سے وفاق کی آمدنی میں محض ایک فیصد کمی ہوئی ہے۔ اصل مسئلہ جس کی طرف کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں، وہ یہ ہے کہ اکانومی منجمد ہے اور کیک کا سائز بڑا نہیں تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سب کو تکلیف کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔

نواز شریف کی حکومت نے تو جیسے تیسے سہی شرح نمو 5.8 فیصد تک اٹھائی تھی اور پاکستان کی اکانومی جو پہلے ہی نہیں چل رہی تھی اب کورونا کے نام پر بالکل ٹھس ہوگئی ہے اور آئندہ برس شرح نمو منفی ہو رہی ہے۔ ان حالات میں فوجی قیادت سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک متفقہ اقتصادی حکمت عملی بنانا پڑے گی اور اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں لیکن ہم ایک دوسرے سے لڑلڑ کر لہولہان ہو رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ حکومت کے پاس قانونی ماہرین کی فوج ظفر موج ہے لیکن این ایف سی کے سربراہ کی تقرری کرتے ہوئے آئینی تقاضوں کو مد نظر نہیں رکھاگیا۔

ممتاز ماہر معیشت شوکت ترین جمعرات کو چینل 92 پر میرے پروگرام، ہو کیا رہا ہے، میں این ایف سی کے حوالے سے خصوصی مہمان تھے انھوں نے انکشاف کیا کہ جب صدر آصف علی زرداری نے 7 ویں این ایف سی کمیشن کا اعلان کیا تو اس کی سربراہی انھیں سونپی گئی وہ بھی ڈاکٹر حفیظ شیخ کی طرح اس وقت غیر منتخب مشیر برائے خزانہ تھے لیکن اس آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے شوکت ترین کو سینیٹر منتخب کروا کر وزیر خزانہ بنایا گیا۔

اسی طرح بلوچستان سے جاوید جبار کو کمیشن میں آزاد رکن کے طور پر نامزد کرنے پر سخت اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ گوادر، لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی محمد اسلم بھوتانی نے سوال اٹھایا ہے کہ موصوف کو کس بنیاد پر بلوچستان کے کھاتے میں این ایف سی میں شامل کیا گیا ہے اور انھوں نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ جاوید جبار چونکہ اقتصادی ماہربھی نہیں ہیں لہٰذا وزیراعلیٰ جام کمال نے انھیں کیونکر رکن نامزد کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کیا وزیراعلیٰ کو بلوچستان کی ایک کروڑ سے زائد آبادی میں کوئی ایسی نابغہ روزگار شخصیت نہیں ملی جو صوبے کے حقوق کامقدمہ لڑ سکے۔ دوسری طرف صوبہ سندھ نے بھی یہ اعتراض اٹھاتے ہوئے اس رائے کا دوٹوک اظہار کیا ہے کہ اگر این ایف سی ایوارڈمیں صوبوں کے حصے کو کم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کی سختی سے مزاحمت کی جائے گی ویسے بھی آئین کے تحت صوبوں کے حصے کوکم نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے چونکہ حکومت کو 18 ویں ترمیم میں جو آئین کا حصہ ہے میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں لہٰذا ناقدین کے مطابق اب این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے ڈنڈی مارنے کی کوشش کی جائے گی۔

پاکستان فیڈریشن ہے جس میں اس مرحلے پر صوبوں کے اختیارات کم کرنے یا مالیاتی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو اس کے قومی یکجہتی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حفیظ شیخ اس کمیشن کے سربراہ ہیں وہ خود بھی سندھ سے تعلق رکھتے ہیں اور سندھی سیاسی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ ان کے لیے کوئی غیر منصفانہ ایوارڈ پیش کرنا مشکل ہو گا۔ حفیظ شیخ کے پیش نظریہ بات بھی ہو گی کہ شوکت ترین کو 7 ویں این ایف سی ایوارڈ کے آرکیٹیکٹ طور پر یاد رکھا جاتا ہے لہٰذا انہیں غیر منصفانہ ایوارڈ پیش کرنے پر تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments