پاکستانی خواتین دوران سائیکلینگ ہراسانی کے واقعات سے کیسے بچ سکتی ہیں؟


سائیکلینگ

فائل فوٹو

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد سے لوگوں میں سائیکل چلانے کا رجحان بڑھا ہے۔

پاکستان میں لاک ڈؤان سے قبل سائیکل چلانے والے افراد اور خصوصاً خواتین سائیکلسٹ کی تعداد کافی کم تھی۔ گذشتہ چند روز میں پاکستان کے مختلف شہروں سے خواتین نے سوشل میڈیا پر دوران سائیکلنگ ہراسانی کے واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی ثنا نقوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بیرون ملک میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور آج کل کورونا وائرس کے باعث پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔

’بیرون ملک سائیکل چلانا معمول کی بات ہے لیکن میں پاکستان میں باقاعدگی سے سائیکل نہیں چلا پاتی ہوں۔ گذشتہ روز میں بھائی کے ساتھ شام میں سائیکل چلانے کے لیے ڈیفنس روڈ پر نکلی تھی۔‘

’ہمارے پاس صرف ایک ہی سائیکل ہے اس لیے ہم دونوں بہن بھائی پندرہ پندرہ منٹ کے لیے باری باری سائیکل چلا لیتے ہیں۔ جب میری باری آئی تو میں سائیکل پر چکر لگاتے ہوئے تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ ایک گاڑی نے میرا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔‘

انھوں نے بتایا ’میری رفتار بہت زیادہ نہیں تھی اور گاڑی میں سوار دو لڑکوں نے شیشے نیچے کر کے مجھ پر آوازیں کسنا شروع کر دیں جس پر میں گھبرا گئی اور میں نے تیز تیز سائیکل چلانا شروع کر دی کیونکہ میں جانتی تھی کہ تھوڑی ہی دور میرا بھائی کھڑا ہے۔‘

سائیکلینگ

فائل فوٹو

’جب میں بھائی کے پاس پہنچی تو انھوں نے گاڑی آہستہ کی اور دیکھا کہ میں کسی کے ساتھ ہوں تو وہ وہاں سے نکل گئے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’اس وقت میں گھبرائی ہوئی تھی اور مجھے موبائل سے تصویر لینے کا خیال ہی نہیں آیا، اس بات کا مجھے افسوس ہے کہ میں پولیس میں رپورٹ نہیں کر سکتی ہوں کیونکہ مجھے گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی یاد نہیں اور نہ ہی میرے پاس اس واقعہ کا کوئی ثبوت ہے۔‘

ایک اور خاتون سائیکلسٹ حبہ نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر لکھا ’مغرب کے بعد سائیکل چلانا بالکل اچھا خیال نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا ’سائیکل چلاتے ہوئے میں نے غور کیا کہ ایک ہی موٹر سائیکل میرے پاس سے دو مرتبہ گزری لیکن میں نے اس پر زیادہ دھیان نہیں دیا اور میں سائیکل چلاتی رہی لیکن کچھ ہی دیر میں ایک گاڑی نے میرا پیچھا شروع کر دیا۔‘

’میں نے اپنی سائیکل کی رفتار آہستہ کر لی تاکہ گاڑی والا گزر جائے لیکن وہ گاڑی میرے سامنے آ کر رک گئی جبکہ دوسری طرف موٹر سائیکل والے نے آکر میرا راستہ روک لیا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور کی خاتون سائیکلسٹ تقویم کا کہنا تھا کہ آج کل خواتین اور فیملیز کی ایک بڑی تعداد سائیکلنگ کی طرف آرہی ہے لیکن جب بھی کوئی لڑکی اکیلی سائیکل لے کر نکلتی ہے تو اس کو تنگ یا ہراساں کیا جاتا ہے۔

’خواتین کو سائیکل چلاتے ہوئے اپنی حفاظت خود ہی کرنی پڑتی ہے کیونکہ پاکستان میں سائیکل چلانے والوں کے لیے اور انھیں محفوظ رکھنے کے لیے کسی قسم کے قوانین نہیں ہیں۔‘

’کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو سائیکل چلانے گھر سے نکلتی ہیں تو ان کے ساتھ پیچھے کوئی نہ کوئی گاڑی میں ہوتا ہے جس سے انھیں تسلی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ خواتین ہمارے ساتھ گروپ سائیکلنگ بھی اسی لیے کرتیں ہیں تاکہ ہراساں کیے جانے کے واقعات سے بچ سکیں۔‘

سائیکلینگ

فائل فوٹو

خواتین سائیکلینگ کے دوران خود کو کس طرح محفوظ رکھ سکتی ہیں؟

اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے لاہور ڈولفن پولیس کی انچارج عائشہ بٹ کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی خاتون سائیکل چلانے کے لیے جائے تو چند احتیاطی تدابیر ذہن میں رکھنی چاہیے۔

’گھر سے نکلنے سے پہلے گھر والوں کو لازمی بتا کر جائیں کہ وہ کس علاقے میں سائیکل چلانے جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی جگہ پر سائیکل چلانے سے گریز کریں جہاں اندھیرا ہو یا آبادی کم ہو۔ صرف انھی راستوں پر سائیکل چلائیں جن کا انھیں علم ہے اور اپنے روٹ کا تعین کریں کہ کیا یہ روٹ محفوظ ہے یا نہیں۔‘

عائشہ بٹ نے یہ بھی کہا: ’موبائل فون اپنے ساتھ لازمی رکھیں۔ اگر کوئی ہراساں کرے تو فوراً 15 پر کال کریں اور ہمیں اطلاع کریں۔ ہماری ٹیم 5 منٹ میں موقع پر پہنچ جائے گی۔‘

اس کے علاوہ انھوں نے مشورہ دیا کہ خواتین کو سائیکل چلاتے ہوئے مرچوں والا سپرے لازمی اپنے ساتھ رکھنا چاہیے اگر وہ دستیاب نہ ہو تو باڈی سپرے سے بھی کام چلے گا۔

’اگر خاتون کو محسوس ہو کہ کوئی شخص انھیں نقصان پہنچا سکتا ہے تو اس کے منہ پر یہ سپرے کر دیں۔ اس سے کچھ وقت کے لیے وہ بچ سکتی ہیں اور اتنی دیر میں ان کے پاس مدد بھی پہنچ جائے گی۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ خواتین سائیکلنگ کے دوران وقت کا خیال بھی رکھیں اور کوشش کریں کہ دن کی روشنی میں سائیکل چلانے کے لیے نکلیں۔

ڈی آئی جی آپریشنز رائے بابر کا کہنا ہے کہ لوگوں میں آج کل سائیکل چلانے کا رواج اس لیے بڑھ رہا ہے کیونکہ لوگ گھر سے ورزش کے لیے نکلتے ہیں لیکن دوران سائیکلنگ خصوصاً خواتین کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ارد گرد کے لوگ خواتین کے سائیکل چلانے کو معیوب نظروں سے دیکھتے ہیں۔

’اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو آگاہی دی جائے کہ سائیکل چلانے والوں کا احترام کریں اور انھیں تنگ مت کریں۔ اس کے علاوہ ہم لوگ ہر وقت تیار ہیں اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو فورا ہمیں اطلاع دی جائے، ہم اس پر لازمی کارروائی کریں گے۔‘

یاد رہے اس سے قبل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے یہ پیغام دیا تھا ک اگر کسی بھی خاتون کے ساتھ دوران سائیکلنگ ہراساں کیے جانے کا واقعہ پیش آتا ہے تو فوراً اس گاڑی اور شخص کی تصویر بنائیں اور ہمیں اطلاع کریں تاکہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp